مجاز "اب میرے پاس تم آئی ہو، تو کیا آئی ہو"

اب میرے پاس تم آئی ہو، تو کیا آئی ہو

میں نے مانا کہ تم اک پیکر_ رعنائی ہو
چمن_ دہر میں روح_ چمن آرائی ہو
طلعت_ مہر ہو، فردوس کی برنائی ہو
بنت_ مہتاب ہو، گردوں سے اتر آئی ہو

مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ_ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے

خاک میں، آہ، ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر_ خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں گنوائی ہے جوانی میں نے

حسن نے جب بھی عنائت کی نظر ڈالی ہے
میرے پیمان_ محبت نے سپر ڈالی ہے

ان دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا
سر پہ سرشاری و عشرت کا جنوں طاری تھا
مہ پاروں سے محبت کا جنوں طاری تھا
شہر یاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا

بستر_ مخمل و سنجاب تھی دنیا میری
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دنیا میری

کیا سنو گی میری مجروع جوانی کی پکار
میری فریاد جگر دوز میرا نالۂ_ زار
شدت_ کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مزاق طرب آگیں کا شکار

وہ گداز دل_ مرحوم کہاں سے لاؤں؟
اب وہ جزبۂ_ معصوم کہاں سے لاؤں؟

اب میرے پاس تم آئی ہو، تو کیا آئی ہو؟
 
Top