اب تجھے چھوڑ کر کدھر جاؤں

غدیر زھرا

لائبریرین
اب تجھے چھوڑ کر کدھر جاؤں
تو ہی تو ہے جہاں جدھر جاؤں

آئینہ جو بنے نظر تیری
آپ ہی آپ میں نکھر جاؤں

کائنات اک نئی بنا دوں میں
تجھ میں شدت سے گر بکھر جاؤں

چھوڑ الجھے قدیم رستوں کو
نئی اک راہ اک ڈگر جاؤں

چاندنی ساتھ ہی رکھوں گی اب
یعنی تجھ کو لیے میں گھر جاؤں

نور مت جاننا سفیدی کو
پھیلے چہرے پہ جب میں مر جاؤں

(زہرا)

———
اصلاح کے بعد

اب تجھے چھوڑ کر کدھر جاؤں
تو ہی تو ہے جہاں جدھر جاؤں

بادہ خانے سے مت اٹھا واعظ
اب اِدھر آ کے کیا اُدھر جاؤں

آئنہ جو بنے نظر تیری
آپ ہی آپ میں نکھر جاؤں

کائنات اک نئی بنا دوں میں
تجھ میں شدت سے گر بکھر جاؤں

چاندنی ساتھ ہی رکھوں گی اب
یعنی تجھ کو لیے میں گھر جاؤں

گر ہو منظور اک نگہ کے عوض
آپ اپنا یہاں ہی دھر جاؤں

اب کے بگڑا ہوا ہوں ناصح پر
اب کے امکاں نہیں سدھر جاؤں

(زہرا)​
 
آخری تدوین:
پہلی بات تو یہ بتائیے کہ آپ نے عروض کب اور کیسے سیکھا جبکہ چند ماہ پہلے آپ کا دعویٰ یہ تھا:
آج پہلی بار قلم اٹھایا ہے اور عروض سے قطعاً ناواقفیت رکھتی ہوں.
دوسری بات یہ کہ آپ کا نام اصل میں کیا ہے؟
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہ
بہت خوب
آپ کے کلام میں پختگی آ رہی ہے ماشاء اللہ
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں

آئینہ جو بنے نظر تیری
آپ ہی آپ میں نکھر جاؤں

کائنات اک نئی بنا دوں میں
تجھ میں شدت سے گر بکھر جاؤں

چھوڑ الجھے قدیم رستوں کو
نئی اک راہ اک ڈگر جاؤں
 

غدیر زھرا

لائبریرین
پہلی بات تو یہ بتائیے کہ آپ نے عروض کب اور کیسے سیکھا جبکہ چند ماہ پہلے آپ کا دعویٰ یہ تھا:

دوسری بات یہ کہ آپ کا نام اصل میں کیا ہے؟
میں نے واللہ کسی سے نہیں سیکھے یہ تو ابھی آپ کے مراسلے سے معلوم ہوا کہ مجھ سے کوئی عروضی گستاخی سرزد ہوئی ہے :)

حضور ابھی ہم اتنے پرانے نہیں ہوئے سو تخلص کسی بھی وقت بدل سکتے ہیں..آپ اب اسے ہی حتمی جانیے :sneaky:
اصلاح کہاں ہے؟
:unsure:
 

فاتح

لائبریرین
واہ کیا کہنے۔ اور یہ شعر تو بہت ہی خوب ہے
چاندنی ساتھ ہی رکھوں گی اب
یعنی تجھ کو لیے میں گھر جاؤں​
 

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان تو درست ہیں ماشاءاللہ زہرہ، (اب زھرا نہیں لکھوں گا)۔ بس قوافی کی غلطی ہے۔
ان دونوں اشعار میں قوافی بغیر ’ھ‘ کے ہیں:
چھوڑ الجھے قدیم رستوں کو
نئی اک راہ اک ڈگر جاؤں

نور مت جاننا سفیدی کو
پھیلے چہرے پہ جب میں مر جاؤں
باقی سارے، مع مطلع کے دونوں قوافی کے ’ھر‘ پر مبنی ہیں۔ یا تو مطلع بدل دو (ورنہ ایطا کا الزام لگایا جائے گا!) یا پھر یہ دونوں اشعار۔ ویسے ‘مرجاؤں‘ والا شعر میری سمجھ میں نہیں آیا ، بوڑھا ہو گیا ہوں نا!!!
 
میں نے واللہ کسی سے نہیں سیکھے یہ تو ابھی آپ کے مراسلے سے معلوم ہوا کہ مجھ سے کوئی عروضی گستاخی سرزد ہوئی ہے :)
عروض پڑھے بغیر زحافات کو اس طرح عمل میں لانے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ کو موسیقی سے غیرمعمولی رغبت اور اس میں درک ہے یا پھر یہ کہ آپ فطرتاً نہایت موزوں طبع واقع ہوئی ہیں۔
خیر ہم حمیرا عدنان المعروف چھوٹی آپا کے حکم کی تعمیل میں کچھ باتیں عرض کیے دیتے ہیں۔
اب تجھے چھوڑ کر کدھر جاؤں
تو ہی تو ہے جہاں جدھر جاؤں
مطالب کے اعتبار سے شعر عمدہ ہے۔ مگر باقی غزل پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔
غزل میں ایک چیز ہے جسے اعلانِ مطلع کہتے ہیں۔ اعلانِ مطلع یہ ہے کہ جب آپ مطلع میں قوافی استعمال کرتے ہیں تو وہ آئندہ قوافی کے لیے نظیر بن جاتے ہیں۔ اس شعر میں قوافی کی کیفیت یہ ہے کہ کدھر اور جدھر میں "دھر" کا ٹکڑا بتکرار آیا ہے۔ نیز کاف اور جیم دونوں مکسور ہیں۔ ذوقِ سلیم چاہتا ہے کہ اب آئندہ اشعار میں بھی یہی تسلسل قائم رہے۔ یعنی اعلانِ مطلع آپ نے اس صورت میں کر دیا ہے۔ مگر بعد کے اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اسے نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔
آئینہ جو بنے نظر تیری
آپ ہی آپ میں نکھر جاؤں
بظاہر خوب صورت مگر درحقیقت بےمعنیٰ شعر۔ نظر کے آئنہ بننے سے کیا مراد ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آئنہ ہونا چاہیے تھا، آئینہ نہیں۔ آئینہ میں یائے تحتانی کھینچ کر ادا کی جاتی ہے جبکہ یہاں وزن کا تقاضا ہے کہ اسے کھینچا نہ جائے۔ لہٰذا آئنہ لکھنا بہتر ہے یہاں۔
کائنات اک نئی بنا دوں میں
تجھ میں شدت سے گر بکھر جاؤں
نہایت خوب صورت شعر۔ بہت سی داد!
چھوڑ الجھے قدیم رستوں کو
نئی اک راہ اک ڈگر جاؤں
عمدہ۔ یہاں پر مصرعِ ثانی میں آپ نے وہ کمال دکھایا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا ہے۔ عروض کے مبتدی ایسا مصرع کہنے پر عموماً قادر نہیں ہوتے۔
چاندنی ساتھ ہی رکھوں گی اب
یعنی تجھ کو لیے میں گھر جاؤں
گویا چاندنی کو دیکھنے آپ کہیں گھر سے باہر تشریف لائی ہوئی ہیں؟
نور مت جاننا سفیدی کو
پھیلے چہرے پہ جب میں مر جاؤں
غالباً مطلب یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں اور چہرے پر سفیدی پھیل جائے جیسا کہ اکثر مردگان کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے نور مت جاننا۔ خیال میں شعریت ہے۔ ندرت ہے۔ مگر بیان کسی قدر تعقید یعنی الجھاؤ کا شکار ہے۔
بہرحال، مجموعی طور پر قابلِ داد کاوش ہے۔ لکھتی رہیے!
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بحر و اوزان تو درست ہیں ماشاءاللہ زہرہ، (اب زھرا نہیں لکھوں گا)۔ بس قوافی کی غلطی ہے۔
ان دونوں اشعار میں قوافی بغیر ’ھ‘ کے ہیں:
چھوڑ الجھے قدیم رستوں کو
نئی اک راہ اک ڈگر جاؤں

نور مت جاننا سفیدی کو
پھیلے چہرے پہ جب میں مر جاؤں
باقی سارے، مع مطلع کے دونوں قوافی کے ’ھر‘ پر مبنی ہیں۔ یا تو مطلع بدل دو (ورنہ ایطا کا الزام لگایا جائے گا!) یا پھر یہ دونوں اشعار۔ ویسے ‘مرجاؤں‘ والا شعر میری سمجھ میں نہیں آیا ، بوڑھا ہو گیا ہوں نا!!!
سر آپ خود کو بوڑھا مت کہیں میں یہ دونوں اشعار ہی نکال دیتی ہوں :) :) :)
بہت شکریہ جزاک اللہ..میرے لیے آپ کی رائے بہت اہم ہے :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
عروض پڑھے بغیر زحافات کو اس طرح عمل میں لانے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ کو موسیقی سے غیرمعمولی رغبت اور اس میں درک ہے یا پھر یہ کہ آپ فطرتاً نہایت موزوں طبع واقع ہوئی ہیں۔
خیر ہم حمیرا عدنان المعروف چھوٹی آپا کے حکم کی تعمیل میں کچھ باتیں عرض کیے دیتے ہیں۔

مطالب کے اعتبار سے شعر عمدہ ہے۔ مگر باقی غزل پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔
غزل میں ایک چیز ہے جسے اعلانِ مطلع کہتے ہیں۔ اعلانِ مطلع یہ ہے کہ جب آپ مطلع میں قوافی استعمال کرتے ہیں تو وہ آئندہ قوافی کے لیے نظیر بن جاتے ہیں۔ اس شعر میں قوافی کی کیفیت یہ ہے کہ کدھر اور جدھر میں "دھر" کا ٹکڑا بتکرار آیا ہے۔ نیز کاف اور جیم دونوں مکسور ہیں۔ ذوقِ سلیم چاہتا ہے کہ اب آئندہ اشعار میں بھی یہی تسلسل قائم رہے۔ یعنی اعلانِ مطلع آپ نے اس صورت میں کر دیا ہے۔ مگر بعد کے اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اسے نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔

بظاہر خوب صورت مگر درحقیقت بےمعنیٰ شعر۔ نظر کے آئنہ بننے سے کیا مراد ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آئنہ ہونا چاہیے تھا، آئینہ نہیں۔ آئینہ میں یائے تحتانی کھینچ کر ادا کی جاتی ہے جبکہ یہاں وزن کا تقاضا ہے کہ اسے کھینچا نہ جائے۔ لہٰذا آئنہ لکھنا بہتر ہے یہاں۔

نہایت خوب صورت شعر۔ بہت سی داد!

عمدہ۔ یہاں پر مصرعِ ثانی میں آپ نے وہ کمال دکھایا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا ہے۔ عروض کے مبتدی ایسا مصرع کہنے پر عموماً قادر نہیں ہوتے۔

گویا چاندنی کو دیکھنے آپ کہیں گھر سے باہر تشریف لائی ہوئی ہیں؟

غالباً مطلب یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں اور چہرے پر سفیدی پھیل جائے جیسا کہ اکثر مردگان کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے نور مت جاننا۔ خیال میں شعریت ہے۔ ندرت ہے۔ مگر بیان کسی قدر تعقید یعنی الجھاؤ کا شکار ہے۔
بہرحال، مجموعی طور پر قابلِ داد کاوش ہے۔ لکھتی رہیے!
اچھا ٹھیک ہے..اور سنائیں؟
میں ذرا اسے ہضم کر لوں پھر جواب دیتی :sneaky:
 

غدیر زھرا

لائبریرین
عروض پڑھے بغیر زحافات کو اس طرح عمل میں لانے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ کو موسیقی سے غیرمعمولی رغبت اور اس میں درک ہے یا پھر یہ کہ آپ فطرتاً نہایت موزوں طبع واقع ہوئی ہیں۔
خیر ہم حمیرا عدنان المعروف چھوٹی آپا کے حکم کی تعمیل میں کچھ باتیں عرض کیے دیتے ہیں۔

مطالب کے اعتبار سے شعر عمدہ ہے۔ مگر باقی غزل پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔
غزل میں ایک چیز ہے جسے اعلانِ مطلع کہتے ہیں۔ اعلانِ مطلع یہ ہے کہ جب آپ مطلع میں قوافی استعمال کرتے ہیں تو وہ آئندہ قوافی کے لیے نظیر بن جاتے ہیں۔ اس شعر میں قوافی کی کیفیت یہ ہے کہ کدھر اور جدھر میں "دھر" کا ٹکڑا بتکرار آیا ہے۔ نیز کاف اور جیم دونوں مکسور ہیں۔ ذوقِ سلیم چاہتا ہے کہ اب آئندہ اشعار میں بھی یہی تسلسل قائم رہے۔ یعنی اعلانِ مطلع آپ نے اس صورت میں کر دیا ہے۔ مگر بعد کے اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اسے نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔

بظاہر خوب صورت مگر درحقیقت بےمعنیٰ شعر۔ نظر کے آئنہ بننے سے کیا مراد ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آئنہ ہونا چاہیے تھا، آئینہ نہیں۔ آئینہ میں یائے تحتانی کھینچ کر ادا کی جاتی ہے جبکہ یہاں وزن کا تقاضا ہے کہ اسے کھینچا نہ جائے۔ لہٰذا آئنہ لکھنا بہتر ہے یہاں۔

نہایت خوب صورت شعر۔ بہت سی داد!

عمدہ۔ یہاں پر مصرعِ ثانی میں آپ نے وہ کمال دکھایا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا ہے۔ عروض کے مبتدی ایسا مصرع کہنے پر عموماً قادر نہیں ہوتے۔

گویا چاندنی کو دیکھنے آپ کہیں گھر سے باہر تشریف لائی ہوئی ہیں؟

غالباً مطلب یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں اور چہرے پر سفیدی پھیل جائے جیسا کہ اکثر مردگان کے ساتھ ہوتا ہے تو اسے نور مت جاننا۔ خیال میں شعریت ہے۔ ندرت ہے۔ مگر بیان کسی قدر تعقید یعنی الجھاؤ کا شکار ہے۔
بہرحال، مجموعی طور پر قابلِ داد کاوش ہے۔ لکھتی رہیے!
سر آپ کی رائے کا بے حد شکریہ :)
موزوں طبع ہونے کا تو علم نہیں البتہ موسیقی سے واقعی کافی رغبت ہے عروض کی الف بے بھی معلوم نہیں اسی لیے قلم پکڑتے ہزار بار سوچا جن اغلاط کی جانب آپ نے اشارہ کیا ان کےلیے شکر گزار ہوں میں کوشش کروں گی کہ ان باریکیوں کو سمجھ پاؤں اور درست کر پاؤں :)
نظر کے آئینہ بننے سے میں نے مراد یوں لی کہ اس کی نظر سے گر میں خود کو دیکھوں یا اس کی نگاہ میں اپنا عکس دیکھوں..

اور ہاں چاندنی دیکھنے میں گھر سے باہر ہی آئی تھی :cautious:
 
Top