حفیظ جالندھری ابھی تو میں جوان ہوں

سید زبیر

محفلین
ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے​
ترنّمِ ہزار ہے ، بہارِ پُر بہار ہے​
کہاں چلا ہے ساقیا ، اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ​
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا اٹھا سبُو، سبُو اٹھا​
سبُو اٹھا، پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر​
چمن کی سمت کر نظر ،سماں تو دیکھ بے خبر​
وہ کالی کالی بدلیاں افق پہ ہو گئیں عیاں​
وہ اک ہجومِ مے کشاں ،ہے سوئے مے کدہ رواں​
یہ کیا گماں ہے بد گماں ، سمجھ نہ مجھ کو ناتواں​
خیالِ زہد ابھی کہاں ابھی تو میں جوان ہوں​
عبادتوں کا ذکر ہے ،نجات کی بھی فکر ہے​
جنون ہے ثواب کا ،خیال ہے عذاب کا​
مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی​
بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی​
حسین جلوہ ریز ہوں ،ادائیں فتنہ خیز ہوں​
ہوائیں عطر بیز ہوں ، تو شوق کیوں نہ تیز ہوں​
نگار ہائے فتنہ گر ،کوئی اِدھر کوئی اُدھر​
ابھارتے ہوں عیش پر ،تو کیا کرے کوئی بشر​
چلو جی قصّہ مختصر ،تمھارا نقطۂ نظر​
درست ہے تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں​
نہ غم کشود و بست کا،بلند کا نہ پست کا​
نہ بود کا نہ ہست کا ،نہ وعدۂ الست کا​
امید اور یاس گم ، حواس گم، قیاس گم​
نظر کے آس پاس گم ،ہمہ بجز گلاس گم​
نہ مے میں کچھ کمی رہے ،قدح سے ہمدمی رہے​
نشست یہ جمی رہے ،یہی ہما ہمی رہے​
وہ راگ چھیڑ مطربا ، طرَب فزا، الَم رُبا​
اثر صدائے ساز کا ، جگر میں آگ دے لگا​
ہر ایک لب پہ ہو صدا ، نہ ہاتھ روک ساقیا​
پلائے جا پلائے جا ، ابھی تو میں جوان ہوں​
یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی​
یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے​
کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا​
کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا​
یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں​
اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں​
یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں​
انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں​
ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں​
نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں​
حفیظ جالندھری​
 

مہ جبین

محفلین
یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں
واہ واہ بہت ہی زبردست
سید زبیر انکل کے انتخابِ کلام کی تو کیا بات ہے
 
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے

ترنم ہزار ہے
بہار پر بہار ہے

کہاں چلا ہے ساقیا
ادھر تو لوٹ ادھر تو آ

ارے یہ دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبو سبو اٹھا

سبو اٹھا پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے ادھر

چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر

وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں

وہ اک ہجوم مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں

یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں

خیال زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں

عبادتوں کا ذکر ہے
نجات کی بھی فکر ہے

جنون ہے ثواب کا
خیال ہے عذاب کا

مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ہیں آپ بھی

بھلا شباب و عاشقی
الگ ہوئے بھی ہیں کبھی

حسین جلوہ ریز ہوں
ادائیں فتنہ خیز ہوں

ہوائیں عطر بیز ہوں
تو شوق کیوں نہ تیز ہوں

نگار ہائے فتنہ گر
کوئی ادھر کوئی ادھر

ابھارتے ہوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر

چلو جی قصہ مختصر
تمہارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر
ابھی تو میں جوان ہوں

یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئے بار کی

یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رخوں کے قہقہے

کسی سے میل ہو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا

کبھی جو بخت سو گیا
یہ ہنس گیا وہ رو گیا

یہ عشق کی کہانیاں
یہ رس بھری جوانیاں

ادھر سے مہربانیاں
ادھر سے لن ترانیاں

یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ہائے دل نشیں

انہیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دوں یہیں

ہے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں

نہیں نہیں ابھی نہیں
ابھی تو میں جوان ہوں

نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا

نہ بود کا نہ ہست کا
نہ وعدۂ الست کا

امید اور یاس گم
حواس گم قیاس گم

نظر سے آس پاس گم
ہمہ بجز گلاس گم

نہ مے میں کچھ کمی رہے
قدح سے ہمدمی رہے

نشست یہ جمی رہے
یہی ہما ہمی رہے

وہ راگ چھیڑ مطربا
طرب فزا، الم ربا

اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا

ہر ایک لب پہ ہو صدا
نہ ہاتھ روک ساقیا

پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں

حفیظ جالندھری
 
Top