ابوالکلام آزاد
از شورش کاشمیری​

۔۔۔ سلطان محمود ثانی نے دولت عثمانیہ میں جدید علوم وفنون کا آغاز کیا ، دارالخلافہ میں پریس لگایا ۔ کتب مفید کی طباعت شروع کرائی اور بعض دوسری اہم اصلاحات کے علاوہ عثمانی حرم سراؤں سے ہزار ہا لونڈیوں کو آزاد کرایا ۔ تب ہر سال سلطانی محل میں پندرہ سو کنیزیں خرید کے داخل کی جاتی تھیں ۔ سلطان محمود ن جہاں تہاں غلاموں کی منڈیا تھیں ان کو بند کرا دیا ۔ ادھر مکہ معظمہ میں ایک بڑی منڈی تھی ۔ عبدالمطلب شریف مکہ نے اس حکم کو ذرا برابر وقعت نہ دی ۔ منڈی قائم رکھی ۔ گورنر ترکی شریف کی اس ہٹ دھرمی پر بے بس تھا ۔ سلطان عبدالحمید تخت نشین ہوا تو اس نے سلطان محمود کی اصلاحات کو جاری رکھا اور مکہ سے منڈی ختم کرنے کا عہد کر لیا ۔ حامد پاشا کو گورنر بنا کر بھیجا ۔ اس نے مکہ پہنچ کر شریف کو سلطان کے احکام سے آگاہ کیا ۔ شریف نے بظاہر کوئی مخالفت نہ کی لیکن کچھ دنوں بعد مکہ و طائف کے بدوؤں سے بغاوت کرا دی ، اعلان کیا کہ سلطان نصرانی ہو گیا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے ۔ بغاوت فرو کر دی گئی لیکن شریف کی گرفتاری ایک پیچیدہ مسئلہ تھا ۔ کچھ عرصہ بعد شریف کو ایک جنگی جہاز دکھانے کے بہانے جدہ پہنچایا گیا ۔ وہ جہاز میں بیٹھا تو معلوم ہوا جہاز ساحل سے ہٹ رہا ہے اور وہ قیدی ہے ۔

عبدالمطلب کے بعد اس کا بھتیجا غالب ’شریف‘ مقرر ہوا ۔ وہ بھی شبہات میں آ گیا ۔ مولانا خیرالدین سے اس کے تعلقات تھے ۔ سلطان کو پتہ چلا تو بعض شکوک و شبہات کی تصدیق و تردید میں ان سے مدد لینا چاہی ، المختصر مولانا خیرالدین کی مساعی سے عبدالمطلب کی نظربندی موقوف ہو گئی ۔۔۔۔

مولانا خیرالدین (آزاد کے والد) نے ترکی میں رہ کر ترکی سیکھی ، پھر اس کی صرف ونحو عربی میں لکھی عربی فارسی اور ترکی کا ایک لغت تیار کرنا چاہا لیکن قاف تک پہنچ کر موقوف ہو گیا اور قونیہ چلے گئے وہاں سال بھر رہے پھر شام وغیرہ کا سفر کیا ، وہاں سے مصر آ گئے ۔ دو سال قیام کیا پھر مکہ گئے ، مکہ سے کچھ عرصے کے لیے بمبئی آئے پھر عراق کا سفر کیا ، وہاں چھ سات ماہ رہے ، اس زمانے میں شیخ عبدالرحمن نقیب الاشراف تھے ان کے مہمان ہوئے ان سے طریقہ قادریہ کی اجازت لی اور انہوں نے ان سے طریقہ نقشبندیہ کی ۔ بغداد سے پھر بمبئی لوٹ گئے ۔ کچھ دیر قیام کیا اور مکہ واپس آ گئے ۔

یہ وہ زمانہ تھا جب شہید سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی جماعت نے جہاد فی القرآن کے حکم و عمل سے برطانوی گورنمنٹ کے لیے خوف پیدا کر رکھا تھا اور وہ اس کے پیروؤں کو ختم کرنا چاہتی تھی ۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی وحدت میں دراڑ لگوانے کے لیے مرزا غلام احمد کو پیدا کیا ۔ مولانا احمد رضا بریلوی عقائد کی ایک نئی اور مختلف دنیا لے کر سامنے آئے ۔ شیعہ حضرات نے سواد اعظم سے ہمیشہ کی طرح علیحدہ روش اختیار کی ۔ غرض مسلمانوں میں قرّن و حدیث کے مسائل پر ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ چکڑالوی فرقہ انہی ضرورتوں ہی کی پیداوار تھا ۔ علما کی وہ جماعت جس نے انگریزوں سے مڈبھیڑ جاری رکھی اور سرحد کے علاقے میں جماعت مجاہدین کا نام اختیار کیا ،انگریزوں نے انہیں وہابی کا نام دے کر مارنا اور مروانا شروع کیا ۔ جس شخص کو برطانوی حکومت نے وہابی گردانا اس کو گرفتار کیا ۔ مقدمہ چلایا اور کم سے کم کالے پانی کی سزا دی ۔ ورنہ پھانسی پر لٹکوا دیا ۔ اس طرح سے سینکڑوں علماء حوالہ داروگیر ہو گئے اور بے شمار متمول خاندان تباہ کر دئیے گئے ۔

جو لوگ اس ہلاکت اور بربادی سے کسی طرح بچ گئے وہ حجاز کو دارالامن سمجھ کر وہاں چلے گئے لیکن اس زمانے میں حجاز کے علما و عوام کو محمد بن عبدالوہاب اور ان کی جماعت سے سخت عناد وتعصب تھا ۔ سلطنت عثمانیہ نے بھی سیاسی مصلحتوں کے تابع انہیں معتوب و مغضوب گردان رکھا تھا ۔

مولانا خیرالدین نے ہندوستان کی اس وہابی جماعت کے خلاف شریف مکہ اور قسطنطینیہ کے عوام کو تیار کیا ، مولانا آزاد کے الفاظ میں فتنہ اٹھایا ، نتیجتۃ اس جماعت کے اکتیس آدمی گرفتار کر لیے گئے ، لیکن تین کے سو اسب نے تقیہ کیا اور رہا ہو گئے ۔ تین کو فی کس انتالیس کوڑے لگانے کی سزا دی گئی ۔

ان گرفتار شدگان کے عقائد کے متعلق جو سوالنامہ مرتب کیا گیا وہ مولانا خیر الدین کا تیار کردہ تھا ۔ اس سلسلے کا عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں کے اعزا نے ہندوستان سے جدہ آ کر برٹش قونصل سے مدد مانگی کہ ان کی رعایا پر یہ عذاب نازل ہو رہا ہے ، اس کی مداخلت سے وہ آدمی رہا کئے گئے لیکن بمبئی پہنچے تو ان کے مخالفوں نے طوفان کھڑا کر دیا کہ حرم سے مخذول و مردود ہو کر واپس آئے ہیں ، گورنمنٹ کو ان کی گرفتاری کے لیے مجبور کیا گیا لیکن کسی نہ کسی طرح وہ بچ گئے۔ قاضی سلمان دوستوں کی مدد سے بغداد چلے گئے ۔ قاضی محمد مراد کلکتہ پہنچتے ہی گرفتار کر لیے گئے ان پر وہابیت کی پاداش میں مقدمہ چلا ۔ انہیں جیل خانہ میں اتنی ازیت دی گئی کہ اس کے صدمے سے اندر ہی انتقال کر گئے ۔

غرض مولانا خیر الدین نے وہابیوں کے لیے مکہ معظمہ میں رہنا نا ممکن کر دیا ۔ ایک عجیب اتفاق یہ تھا کہ حجاز کی حکومت اور ہندوستان کی برطانوی حکومت وہابیوں کے معاملے میں متحدالعمل تھیں ۔ اس زمانے میں مولانا خیرالدین نے وہابیت کے رد میں دس جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی لیکن اس کی دو جلدیں ہی چھپیں ۔ سلطان ترکی نے خیرالدین کو تمغہ حمیدی دیا ۔
 
حجاز میں نہر زبیدہ کو حجاج کے ہاتھوں پانی فروخت کرنے کے لالچ میں بدوؤں نے جگہ جگہ سے توڑ پھوڑ کے ویران کر دیا تھا ۔ وہ حجاج کو پانی کا مشکیزہ دو دو ریال میں فروخت کرتے اور دولت کماتے ۔ ایک سال پانی کی نایابی کے باعث ہزاروں آدمی مر گئے۔ مولانا خیرالدین نے قصر سلطانی کو متوجہ کیا مگر مصر سے دولت عثمانیہ کی جنگ ہو رہی تھی کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ انہوں نے اپنے طور پر چندہ جمع کر کے نہر کی مرمت کا بیڑہ اٹھایا ۔ حاجی عبدالواحد اور حاجی زکریا نے دو لاکھ روپیہ دیا ، حسن اتفاق سے جدہ میں نواب کلب علی خان (رامپور) اور نواب عبدلاغنی خان ڈھاکہ موجود تھے اول الذکر سے پانچ لاکھ اور ثانی الذکر سے ایک لاکھ روپیہ لیا ۔ ہندوستان سے انجینئر بلوائے ۔ تین انگریز اور پانچ ہندوستانی آئے ۔ انگریز جدہ میں ٹھہرے ، دولت عثمانیہ کو معلوم ہوا تو اس نے بھی دو ترک انجینئر بھیج دئیے، ادھر چندہ تیز رفتاری سے جمع ہونے لگا ۔ عزیز مصر نے بھی ایک معقول رقم بھجوائی۔ ایک روایت کے مطابق کوئی ۲۹ لاکھ روپیہ جمع ہو گیا۔ کوئی سات آٹھ لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا تو معلوم ہوا باقی رقم شریف مکہ نے ہضم کر لی ہے، نتیجۃ نہر کی درستگی دیر پا نہ ہو سکی، مولانا خیرالدین کو دوبارہ تمغہ حمیدی ملا۔ اس فنڈ کی روداد مولانا خیرالدین نے بمبئی سے چھپوا کر دولت عثمانیہ میں تقسیم کرائی تو شریف مکہ مخالف ہو گیا ۔ وہ انہیں کسی آزار میں پھانسنا چاہتا تھا لیکن قسمت نے اس سے پہلے ہی اس کی زندگی ختم کر دی اور وہ اچانک وفات پا گیا ۔​
مولانا نذیر حسین ہندوستان میں اہل حدیث کے سب سے بڑے لیڈر تھے وہ دہلی میں اسی برس تک حدیث کا درس دیتے رہے ۔ انہوں نے حج کا ارادہ کیا تو برٹش قونصل کے نام اس مطلب کا سفارشی خط لے گئے کہ اہل حدیث سے بغض و عناد کی جو آگ حجاز میں بھڑکی ہوئی ہے مبادا ان کے لیے کسی مصیبت کا پیش خیمہ ہو۔۔۔ مولانا خیرالدین نے ان کی آمد پر ہم خیال علماء کو ساتھ ملا کر ہنگامہ برپا کر دیا۔ ان کے کفر میں ایک فتوی جاری کرایا۔ نتیجۃ مولانا نذیر حسین اور مولانا تلطف حسین عظیم آبادی گرفتار کر لیے گئے اور انہیں ایک تنگ و تاریک قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ دوسرے دن شریف مکہ نے انہیں طلب کیا اور جرم بتایا کہ انہیں وہابی عقائد کی بنا پر قید کیا گیا ہے۔ مولانا خیرالدین نے وکیل استغاثہ کے فرائض انجام دئیے اور ان کے اصل عقائد کو عقائد وہابیہ سے تعبیر کیا۔ مولانا نذیر حسین اور مولانا تلطف حسین کو تو اس مصیبت سے نجات ہو گئی لیکن جو فتنہ ان کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا وہ ہندوستان میں الٹا کر پھیلایا گیا کہ ’’ انہوں نے وہابیت سے توبہ کر لی ہے ‘‘۔ مولانا آزاد ؒ نے اپنی کہانی میں جو تفصیلات بیان کی ہیں اس میں والد کے مقابلے میں حق گوئی کی طرفداری کرتے ہوئے اس کہانی کو غلط قرار دیا اور جو کچھ ان کے خلاف ہو ا اس کو ’’فتنہ‘‘ کی شاخیں بیان کیا ہے ۔​
 

محمد مسلم

محفلین
جی بلکہ ام نور العین صاحبہ، کوشش کریں کتاب ساری ہی کہیں سے سافٹ کاپی، یا ٹائپ کر دیں۔۔۔۔۔ کافی مزیدار لگی ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اس ساری گفتگو میں صرف امامِ اہلِ سنت احمد رضا خان صاحب پر لگائے ہوئے الزام پر ہی بات کرنا چاہوں گا۔ احمد رضا خاں صاحب اگر عقائد کی نئی لہر لے کر آئے تھے تو یہ شورش کاشمیری صاحب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو کس خانے میں فٹ کریں گے جو احمد رضا خان صاحب سے شاید 150 سال قبل کے ہیں۔ جو عقائد احمد رضا خان صاحب نے تبلیغ فرمائے وہ عقائد جمیع اہلِ سنت علماء کی کتب میں مذکور ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ متقدمین کے بھی ہوبہو وہی عقائد رہے ہونگے مگر جمہور علمائے متاخرین کی تعلیمات اور اعمال ہی کے سچے پیروکار تھے وہ۔ اور جس طرح حدیث کی سند متقدمین سے ہو کر متاخرین کے ذریعے ملی ہے تو یہ بھی کہنا عبث ہوگا کہ متاخرین کو چھوڑو متقدمین کو ہی دیکھو۔ بہرحال۔ شورش کاشمیری صاحب کی پرو وہابیت عیاں ہے اس تحریر سے :)۔

شاید ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے۔
 
میں نے بھی ابوالکلام آزاد کی خودنوشت پڑھی ہے جس میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی شخصیت پر کافی روشنی ڈالی ہے، یہاں شورش کاشمیری نے انکے والڈ صاحب کے بارے میں جس قسم کا منفی تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، ابوالکلام آزاد کی اپنی خودنوشت سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔۔آزاد صاحب نے جہاں اس بات کی تصریح کی ہے کہ انکے والد صاحب اپنے دینی مسلک میں کافی متشدد تھے اور تعصب کا بھی الزام لگایا ہے، لیکن یہ بھی خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ذاتی کردار میں وہ بہت بلند کردار اور اعلیٰ صفات کے حامل تھے۔ مولانا آزاد نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ انکے والد مستجاب الدعوات تھے اور انہوں نے جس کسی کو بھی کوئی دعا دی، مولانا آزاد نے وہ قبول ہوتے دیکھی۔ ایسی صفات کے حامل شخص کے بارے میں شورش کاشمیری کا یہ کہنا کہ آزاد صاحب اپنے والد کو فتنہ پرور کہتے تھے، کچھ قرینِ قیاس نہیں لگتا۔ بیشک انکے اپنے والد کے ساتھ اختلافات تھے۔ لیکن انکے کاندھے پر رکھ کر یہاں جو بندوق چلائی جارہی ہے ، خاصی گمراہ کن ہے۔
دوسری بات جو کافی دلچسپ ہے، وہ یہ کہ مولانا آزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انکے والد صاحب اپنے مسلک کے ساتھ بہت شدت کے ساتھ وابستہ تھے اور کسی زمانے میں مولانا احمد رضا بریلوی کو بہت پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص صحیح العقیدہ سنی ہے۔ لیکن ایک مرتبہ ایمانِ ابوطالب کے مسئلے پر انکی گفتگو مولانا احمد رضا بریلوی سے ہوئی تو انہوں نے مولانا احمد رضا بریلوی کیے موقف کو مسترد کردیا کیونکہ مولانا احمد رضا بریلوی کا یہ موقف تھا کہ ابوطالب ایمان نہیں لائے جبکہ مولانا آزاد صاحب کے والد صاحب اس بات سے نارا ض ہوئے چنانچہ مولانا احمد رضا بریلوی کافی حیران ہوئے اور اٹھ کر چلے آئے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا احمد رضا بریلوی پر مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ جاری کرنے کا الزام انتہائی جاہلانہ بات ہے۔ احمدرضا بریلوی صاحب نے جن مسائل میں ایک مخصوص موقف کا زبردست دفاع کیا وہ مسلمانوں میں پہلے سے ہی متعارف تھے۔ اور مولانا آزاد کی خودنوشت سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ جب وہابی تحریک شروع کی گئی اس وقت تو عرب و عجم کے بیشمار علماءنے اس وہابیوں کے عقائد کی زبردست مخالفت کی۔۔اور احمد رضا بریلوی تو اس وہابی تحریک کے بانی کی وفات سے ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد پیدا ہوئے، پھر ان پر ایک نیا مسلک وضع کرنے کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ انکے بھی بعینہ وہی عقائد تھے جو سینکڑوں برس قبل برصغیر میں حدیث کی تعلیم دینے والے محدث عبدالحق دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے عقائد تھے۔۔۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس مقام پر یہ محدثین بسم اللہ پڑھیں ، بعد کے زمانے میں آنے والے انکے شاگرد انہی مقامات پر اعوذباللہ پڑھتے ہین :)
اس ساری گفتگو میں صرف امامِ اہلِ سنت احمد رضا خان صاحب پر لگائے ہوئے الزام پر ہی بات کرنا چاہوں گا۔ احمد رضا خاں صاحب اگر عقائد کی نئی لہر لے کر آئے تھے تو یہ شورش کاشمیری صاحب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو کس خانے میں فٹ کریں گے جو احمد رضا خان صاحب سے شاید 150 سال قبل کے ہیں۔ جو عقائد احمد رضا خان صاحب نے تبلیغ فرمائے وہ عقائد جمیع اہلِ سنت علماء کی کتب میں مذکور ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ متقدمین کے بھی ہوبہو وہی عقائد رہے ہونگے مگر جمہور علمائے متاخرین کی تعلیمات اور اعمال ہی کے سچے پیروکار تھے وہ۔ اور جس طرح حدیث کی سند متقدمین سے ہو کر متاخرین کے ذریعے ملی ہے تو یہ بھی کہنا عبث ہوگا کہ متاخرین کو چھوڑو متقدمین کو ہی دیکھو۔ بہرحال۔ شورش کاشمیری صاحب کی پرو وہابیت عیاں ہے اس تحریر سے :)۔

شاید ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
میں نے بھی ابوالکلام آزاد کی خودنوشت پڑھی ہے جس میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی شخصیت پر کافی روشنی ڈالی ہے، یہاں شورش کاشمیری نے انکے والڈ صاحب کے بارے میں جس قسم کا منفی تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، ابوالکلام آزاد کی اپنی خودنوشت سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔۔آزاد صاحب نے جہاں اس بات کی تصریح کی ہے کہ انکے والد صاحب اپنے دینی مسلک میں کافی متشدد تھے اور تعصب کا بھی الزام لگایا ہے، لیکن یہ بھی خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ذاتی کردار میں وہ بہت بلند کردار اور اعلیٰ صفات کے حامل تھے۔ مولانا آزاد نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ انکے والد مستجاب الدعوات تھے اور انہوں نے جس کسی کو بھی کوئی دعا دی، مولانا آزاد نے وہ قبول ہوتے دیکھی۔ ایسی صفات کے حامل شخص کے بارے میں شورش کاشمیری کا یہ کہنا کہ آزاد صاحب اپنے والد کو فتنہ پرور کہتے تھے، کچھ قرینِ قیاس نہیں لگتا۔ بیشک انکے اپنے والد کے ساتھ اختلافات تھے۔ لیکن انکے کاندھے پر رکھ کر یہاں جو بندوق چلائی جارہی ہے ، خاصی گمراہ کن ہے۔
دوسری بات جو کافی دلچسپ ہے، وہ یہ کہ مولانا آزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انکے والد صاحب اپنے مسلک کے ساتھ بہت شدت کے ساتھ وابستہ تھے اور کسی زمانے میں مولانا احمد رضا بریلوی کو بہت پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص صحیح العقیدہ سنی ہے۔ لیکن ایک مرتبہ ایمانِ ابوطالب کے مسئلے پر انکی گفتگو مولانا احمد رضا بریلوی سے ہوئی تو انہوں نے مولانا احمد رضا بریلوی کیے موقف کو مسترد کردیا کیونکہ مولانا احمد رضا بریلوی کا یہ موقف تھا کہ ابوطالب ایمان نہیں لائے جبکہ مولانا آزاد صاحب کے والد صاحب اس بات سے نارا ض ہوئے چنانچہ مولانا احمد رضا بریلوی کافی حیران ہوئے اور اٹھ کر چلے آئے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا احمد رضا بریلوی پر مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ جاری کرنے کا الزام انتہائی جاہلانہ بات ہے۔ احمدرضا بریلوی صاحب نے جن مسائل میں ایک مخصوص موقف کا زبردست دفاع کیا وہ مسلمانوں میں پہلے سے ہی متعارف تھے۔ اور مولانا آزاد کی خودنوشت سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ جب وہابی تحریک شروع کی گئی اس وقت تو عرب و عجم کے بیشمار علماءنے اس وہابیوں کے عقائد کی زبردست مخالفت کی۔۔اور احمد رضا بریلوی تو اس وہابی تحریک کے بانی کی وفات سے ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد پیدا ہوئے، پھر ان پر ایک نیا مسلک وضع کرنے کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ انکے بھی بعینہ وہی عقائد تھے جو سینکڑوں برس قبل برصغیر میں حدیث کی تعلیم دینے والے محدث عبدالحق دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے عقائد تھے۔۔۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس مقام پر یہ محدثین بسم اللہ پڑھیں ، بعد کے زمانے میں آنے والے انکے شاگرد انہی مقامات پر اعوذباللہ پڑھتے ہین :)

زبردست ۔متفق۔۔معلوماتی۔۔ مفید۔۔۔ :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے بھی ابوالکلام آزاد کی خودنوشت پڑھی ہے جس میں انہوں نے اپنے والد صاحب کی شخصیت پر کافی روشنی ڈالی ہے، یہاں شورش کاشمیری نے انکے والڈ صاحب کے بارے میں جس قسم کا منفی تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، ابوالکلام آزاد کی اپنی خودنوشت سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔

آپ کس خود نوشت کی بات کر رہے ہیں؟
میں نے شورش کاشمیری کی کتاب پوری نہیں پڑھی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا باتیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہیں بلکہ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب سے حوالہ دیا ہے، اور یہ سب کچھ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب میں واقعی موجود ہے۔ کم از کم میں نے تو ایسا ہی پڑھا ہے۔ عبدالرزاق ملیح آبادی نے بھی یہ سب کچھ براہ راست ابوالکلام آزاد سے ہی سن کر تحریر کیا ہے۔
 
آپ کس خود نوشت کی بات کر رہے ہیں؟
میں نے شورش کاشمیری کی کتاب پوری نہیں پڑھی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا باتیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہیں بلکہ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب سے حوالہ دیا ہے، اور یہ سب کچھ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب میں واقعی موجود ہے۔ کم از کم میں نے تو ایسا ہی پڑھا ہے۔ عبدالرزاق ملیح آبادی نے بھی یہ سب کچھ براہ راست ابوالکلام آزاد سے ہی سن کر تحریر کیا ہے۔
مولانا آزاد کی خودنوشت کا نام بھی خود نوشت ہی ہے۔۔۔ میں نے یہ کتاب اورغبارِ خاطر دونوں اکٹھی خریدی تھیں جب میں جدہ میں تھا۔۔۔دونوں ایک ہی پبلشر کی چھپی ہوئی ہیں۔۔اس وقت یہاں دبئی میں میرے پاس نہیں ہیں ، سب کتب پاکستان میں رہ گئیں ،ورنہ آپکو اس کی مزید تفصیلات سے بھی ضرور آگاہ کرتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا آزاد کی خودنوشت کا نام بھی خود نوشت ہی ہے۔۔۔ میں نے یہ کتاب اورغبارِ خاطر دونوں اکٹھی خریدی تھیں جب میں جدہ میں تھا۔۔۔ دونوں ایک ہی پبلشر کی چھپی ہوئی ہیں۔۔اس وقت یہاں دبئی میں میرے پاس نہیں ہیں ، سب کتب پاکستان میں رہ گئیں ،ورنہ آپکو اس کی مزید تفصیلات سے بھی ضرور آگاہ کرتا۔

یہ کتابیں مکتبہ جمال نے شائع کی ہیں۔ خودنوشت مولانا کے اپنے قلم سے نہیں ہے بلکہ وہ بولتے جاتے تھے اور عبدالرزاق ملیح آبادی لکھتے جاتے تھے۔ انکے علاوہ عبدالرزاق ملیح آبادی کی مرتب کردہ آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی بھی انہوں نے شائع کی ہے۔
 
یہاں تو سارے ہی ’پرو وہابی‘ نکل آئے :giggle:
محفل پر ایک مرتبہ ایک موضوع دیکھا تھا کتاب پڑھے بغیر مطالعے کا دعوی کرنے کا :) آج بہت یاد آ رہا ہے :laugh:
 
اس ساری گفتگو میں صرف امامِ اہلِ سنت احمد رضا خان صاحب پر لگائے ہوئے الزام پر ہی بات کرنا چاہوں گا۔ احمد رضا خاں صاحب اگر عقائد کی نئی لہر لے کر آئے تھے تو یہ شورش کاشمیری صاحب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو کس خانے میں فٹ کریں گے ۔۔۔۔۔۔
بہرحال۔ شورش کاشمیری صاحب کی پرو وہابیت عیاں ہے اس تحریر سے :)۔
شاید ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی پسند کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے۔
چلیے امین بھیا ان کے بارے میں آپ اس کتاب کی گواہی نہ لیں ، نہرزبیدہ کی مرمت بارے اس کا بیان معتبر سمجھ لیں جس کی تائید تاریخ کی دوسری کتب سے ہوتی ہے ۔۔۔ اتنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ آل سعود کا حریف کون تھا ، وہ حجاج کی خدمت کا کتنا شوقین تھا، آل سعود نے موجودہ جزیرۃ العرب کس حال میں پایا تھا، آج حجاج بیت اللہ کے لیے سہولیات کس مرتبہ کی ہیں ؟
میں مریم جمیلہ (مارگریٹ مارکس)رحمہا اللہ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ : یہ عرب نہ تھے جنہوں نے اسلام کو عظمت بخشی بلکہ یہ اسلام ہی تھا جس نے عربوں کو عظمت اور وقار عطا کیا۔ اس جملے میں عرب کی جگہ کوئی بھی مسلم قوم آ سکتی ہے اور یہ آفاقی سچ رہے گا۔
جس طرح مطالعہ تاریخ کے دوران عثمانی خلفا کی خدمات پڑھ کر خوشی ہوتی ہے اور پھر ان کے زوال کے حالات پڑھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے اسی طرح آل سعود میرے لیے صرف تب تک محترم ہیں جب تک وہ حجاج بیت اللہ کی خدمت میں لگے نظر آتے ہیں ۔ یہ ہماری امت کی تاریخ ہے ۔ اس میں ذاتیات کہاں سے آئیں ؟
حجاز میں نہر زبیدہ کو حجاج کے ہاتھوں پانی فروخت کرنے کے لالچ میں بدوؤں نے جگہ جگہ سے توڑ پھوڑ کے ویران کر دیا تھا ۔ وہ حجاج کو پانی کا مشکیزہ دو دو ریال میں فروخت کرتے اور دولت کماتے ۔ ایک سال پانی کی نایابی کے باعث ہزاروں آدمی مر گئے۔ مولانا خیرالدین نے قصر سلطانی کو متوجہ کیا مگر مصر سے دولت عثمانیہ کی جنگ ہو رہی تھی کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ انہوں نے اپنے طور پر چندہ جمع کر کے نہر کی مرمت کا بیڑہ اٹھایا ۔ حاجی عبدالواحد اور حاجی زکریا نے دو لاکھ روپیہ دیا ، حسن اتفاق سے جدہ میں نواب کلب علی خان (رامپور) اور نواب عبدلاغنی خان ڈھاکہ موجود تھے اول الذکر سے پانچ لاکھ اور ثانی الذکر سے ایک لاکھ روپیہ لیا ۔ ہندوستان سے انجینئر بلوائے ۔ تین انگریز اور پانچ ہندوستانی آئے ۔ انگریز جدہ میں ٹھہرے ، دولت عثمانیہ کو معلوم ہوا تو اس نے بھی دو ترک انجینئر بھیج دئیے، ادھر چندہ تیز رفتاری سے جمع ہونے لگا ۔ عزیز مصر نے بھی ایک معقول رقم بھجوائی۔ ایک روایت کے مطابق کوئی ۲۹ لاکھ روپیہ جمع ہو گیا۔ کوئی سات آٹھ لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا تو معلوم ہوا باقی رقم شریف مکہ نے ہضم کر لی ہے، نتیجۃ نہر کی درستگی دیر پا نہ ہو سکی، مولانا خیرالدین کو دوبارہ تمغہ حمیدی ملا۔ اس فنڈ کی روداد مولانا خیرالدین نے بمبئی سے چھپوا کر دولت عثمانیہ میں تقسیم کرائی تو شریف مکہ مخالف ہو گیا ۔ وہ انہیں کسی آزار میں پھانسنا چاہتا تھا لیکن قسمت نے اس سے پہلے ہی اس کی زندگی ختم کر دی اور وہ اچانک وفات پا گیا ۔
 
آپ کس خود نوشت کی بات کر رہے ہیں؟
میں نے شورش کاشمیری کی کتاب پوری نہیں پڑھی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا باتیں انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہیں بلکہ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب سے حوالہ دیا ہے، اور یہ سب کچھ عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب میں واقعی موجود ہے۔ کم از کم میں نے تو ایسا ہی پڑھا ہے۔ عبدالرزاق ملیح آبادی نے بھی یہ سب کچھ براہ راست ابوالکلام آزاد سے ہی سن کر تحریر کیا ہے۔
عبدالرزاق ملیح آبادی کے ہاتھ سے لکھی ہوئی اور مولانا آزاد کی لکھوائی ہوئی خودنوشت اگر آپ نے پڑھی ہے تو ذرا مجھے بتائیے کہ یہ جملے کہاں انہوں نے لکھے ہیں:
"مولانا احمد رضا بریلوی عقائد کی ایک نئی اور مختلف دنیا لے کر سامنے آئے ۔ شیعہ حضرات نے سواد اعظم سے ہمیشہ کی طرح علیحدہ روش اختیار کی ۔"
یہ اور اس قسم کی کئی چیزیں شورش کاشمیری کے ذاتی خیالات ہیں۔۔تحقیق کرلیجئے بیشک ؛) کیونکہ مولانا آزاد کی تحریر سے تو الٹا یہ ثابت ہورہا ہے کہ انکے والد بعض مبینہ "بریلوی عقائد" کے حوالے سے مولانا احمد رضا بریلوی سے بھی کہیں زیادہ "بریلوی " تھے۔۔
 
Top