ابنِ عربیؒ (ایک مختصر تعارف)

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ابو بکر محمدبن علی بن محمد بن احمد بن عبداللہ بن حاتم طائی سترہ رمضان المبارک 560ھ کو اندلس کے شہر مرسیہ میں میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اصالت ونجابت ، ثروت و تونگری، عزت وجلالت ، علم وتقویٰ ، اور زہد و پارسائی میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ ان کے جدِ اعلیٰ حاتم طائی سارے عرب میں اپنی سخاوت اور بزرگی کی وجہ سے نمایاں اور محترم رہے۔
آپ کے دادا محمد اندلس کے قضاۃ اور علما میں سے تھے جن کی دولت و ثروت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں یا ابنِ عربی کے الفاظ میں منزلِ انفاس کے محققین میں سے تھے۔ اس کے علاوہ وہ عظیم فلسفی ابنِ رشد کے دوست اور سلطان اشبیلیہ کے وزیر بھی رہے۔ والدہ انصار سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ شیخ کی چھوٹی بیٹی زینب تو کم عمری ہی میں مقام ِ الہام سے سرفراز ہو گئی تھیں۔ ابنِ عربی نے اپنے سوانح میں اپنے خاندان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور والد ، چچا دونوں ماموں ، زوجہ اور کم سن بیٹی کے ایسے دل کھینچ لینے والے واقعات بیان کیے ہیں جو پاکیزگی و ایمان اور زہد و معرفت میں ان کے بے حد بلند مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

آٹھ سال کی عمر میں ابنِ عربی اپنے خاندان کے ساتھ مرسیہ سےاندلس کے دار الحکومت اشبیلیہ آ گئے۔ 598ھ تک وہیں رہےاور دین و ادب ی کامل درجے کی تربیت پائی۔
پہلے ابو بکر محمد بن خلف لخمی اور ابو القاسم عبدالرحمن الشرائط القرطبی سے قرات سبعہ کی تعلیم حاصل کی ۔
اس زمانے میں ابھی تصوف میں داخل نہیں ہوئے تھے، اپنا بیشتر وقت یا تو نغمہ و شعر میں گزارتے یا پھر جانوروں کے شکار میں مصروف رہتے ۔ وہ اس دور کو زمانہ جاہلیت کا نام دیتے تھے۔پھر جوانی میں ہی جبکہ ابنِ عربی کے والد بھی حیات تھے ان میں ایک عظیم روحانی اور باطنی تبدیلی پیدا ہوئی اور یہ کشف و شہود کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ گئے۔ اشبیلیہ ہی میں ابنِ عربی نے باقاعدہ قصد کرکے مروج طریقے سے21 سال کی عمر میں 580 ھ کے دوران جادہ سلوک میں قدم رکھا۔اس کے بعد وہ مجاہدہ و ریاضت اور عرفا کے معارف کی تحصیل اور صوفیا کے احوال وآثار کے مطالعے میں مشغول رہے۔
ابنِ عربی نے مصر ، قاہرہ ، ایران، بغداد اور دمشق کے سفر کیےاور بہت سے بزرگوں سے ملاقات کی ۔
محرم 627 ھ کے آخری عشرے میں حضرت رسول اللہ ﷺکی زیارت سےخواب میں مشرف ہوئے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں کتاب "فصوص الحکم" تھی اور آپ ﷺ نے ابنِ عربی کو اسے لکھنے کا حکم دیا تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ ابنِ عربی نے دل وجان سے فرمانِ نبوی ﷺ کی تعمیل کی اور پورے خلوص ِ نیت سے تحریر میں مشغول ہو گئے۔ یہ کتاب تصوف و عرفانِ اسلامی میں نہایت مؤثر ہے اور ان کی دوسری کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
620ھ کے دوران جب وہ دمشق میں مقیم تھے، انہوں نے اپنا دیوان مرتب کرنا شروع کیا اور یہ کام 631ھ تک جاری رہا۔
انہوں نے برسوں کی محنت سے اپنی بڑی کتاب "فتوحاتِ مکیہ"کی تکمیل کی۔ وہ اس کتاب کی تحریر میں 35 سال مصروف رہے۔انہوں نے 599ھ میں فتوحات کی تالیف شروع کی اور 24 ربیع الاول636ھ یعنی اپنی وفات سے دو سال پہلےچہار شنبے( بدھ )کے دن صبح کے وقت مکمل کی۔
ابنِ عربی نے لکھا ہے کہ میرے بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ میری چار ہزار تحریروں کو معرضِ ضبط میں لائے۔
بعض کتب میں ان کی کتابوں کی تعداد بتائی گئی ہے۔ جبکہ کچھ کتب میں ان کے کتب اور رسائل کی تعداد 848 بھی لکھی ہے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت شکریہ پیارے نشاندہی کیلئے، بلکہ جزاک اللہ

در اصل یہ میری اپنی حماقت تھی، میں نے سوچا شاید لفظ قصص سے قصوص ہوگا، اس لیے فصوص میں ایک نکتہ اضافی لکھ دیا تھا
مگر اب ابہام دور ہو گیا، اور اس کیلئے ایک بار پھر جزاک اللہ
 
Top