ابا جان کے ہاں

تفسیر

محفلین


اباجان کے ہاں​

تقویٰ

سید تفسیراحمد
٭٭٭​

ماں نے کہا”۔ انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں۔
اور تمارے ابو تمہیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں۔
اسلئے تم سقراط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو۔
لیکن اخلاقی محبت کی تاثیر اور اچھائی کے بارے میں ،
میں نےاور ابو نے تمہیں اور سعدیہ کوپہلے دن سے سیکھانا شروع کیاتھا”۔
مگر امی محبت میں تمام اچھائیاں کیسے سما سکتی ہیں؟“
محبت کیا ہے؟ " سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔
ماں نے کہا ۔" اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں
ایک گہرا
ناقابلِ بیان جذبہ، رشتہ اور تعلق، شفقت ، بے قراری اور پرواہ
کرنے کا نام ہے۔
یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی یکجائی سے پیدا ہوتاہے۔
" امی ، امی ۔یاسمیں چلائ۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔

٭ ٭ ٭


ہر اتوار کو رشتہ دار ، دوست واحباب ہمارے گھر پر جمع ہوتے ہیں۔ صبع سے دوپہر تک لوگ آتے رہتے ہیں۔ ماں مزےدار کھانے تیار کرتی ہیں لڑکوں اور لڑکیوں میں بحث ہوتی ہے اور اخر میں سب اباجان کے پاس جا کر ان گُتھیوں کو سُلجھاتے ہیں۔
ایسے ہی ایک اتوار کو سب لوگ جمع تھے۔ ماں مسالے والی مرغ کوآنچ پر سینک رہی تھیں اباجان نان بنا رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے دوست واحباب سے باتیں کررہے تھے۔ لڑکے سوئمنگ پُول میں تیراکی کررہے تھے لڑکیاں سوئمنگ پُول کے کنارے پر بیٹھیں کُھسر پُھسر کررہی تھیں۔تمام چچا آپس میں عراق کی باتیں کررہے تھے۔اور چاچیاں کھانے کی میز لگانے میں مصرف تھیں۔
" تم نے تندور لیا ہے اور بتایا بھی نہیں؟" وہاب چچا نے پوچھا”۔
"نہیں میرے بھائی ہم تو باربی کیو کی گریل اور توّے پر نان بنائیں گے”۔ اباجان نے کہا۔
"وہ کیسے؟” وہاب چچا نے حیرت سے کہا۔
"نان بنانے کیلئے گریل کی گرمی ٢٦٠ سینٹی گریڈ ہونی ضروری ہے۔ اسی طرح نان اوون میں بھی بنائے جاسکتے ہیں”۔ اباجان نے ہنس کر کہا۔
"عقلمندکے بھائی کبھی تم نے نان کا آٹا بھی گوندھا ہے؟" وہاب چچا نے سوال کیا۔
اباجان نے چچا کو گوندھا ہوئے میدے کا آٹا دیکھایا۔
چچا نے قہقہ لگایا اُن کو یقین نہیں آیا اور ماں سے پوچھا " بھابھی، نان کے آٹابنانے کی ترکیب کیا ہے؟
اس پرتمام عورتوں کے کان کھڑے ہو گے۔
ماں نے کہا “۔ یہ تو زیادہ مشکل نہیں مگر ہرکام کی طرح اس میں بھی کامل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ میں آپ کو اس کی سیدھی سی ترکیب بتا تی ہوں”۔
"میں لکھتا ہوں آپ بتائیں”۔
ماں نے کہا لکھیں۔” اجزا یہ ہیں۔ ایک کپ میدے کا آٹا، آدھا کپ نیم گرم پانی، آدھا چمچہ شکر، ایک چمچہ سوکھا خمیر، آدھا چمچہ نمک، اور چوتھائی کپ، نیم گرم پِگھلا ہواگھی اور حسب ضرورت آٹاگوندھنے کے دوران کے لئے “۔
ناز چچی نے اپنے شوہر وہاب سے مذاق میں کہا۔” آپ ان سب اجزا کو منہ میں ڈالکر خوب ہلیں جلیں اور پھرگرم توّے پر بیٹھ جائیں”۔
ماں نے مسکرا کر اپنی گفتُگو کو جاری رکھا۔” ایک ناپ کے کپ میں آپ شکر اور خمیر کو ملائیں ۔ اب اس میں نیم گرم پانی ڈال کر پھرملائیں۔ اس آمیزے کوپانچ منٹ کیلئے ایک طرف رکھ دیں اس میں جھاگ بن جائیں گی۔
۔"لکھ لیا آپ نے۔ “ماں نے پوچھا۔
" جی " ۔ وہاب چچا نے جلدی جلدی لکھا ۔
" اب ایک بڑے پیالہ میں ایک کپ میدے کا آٹا، آدھا چمچہ نمک، اور چوتھائی کپ ، نیم گرم گھی ڈال کر ملا دئیں۔ اس آٹے کے درمیان ایک کنواں سا بنا کراس میں تیارشدہ آمیزے کو ڈال دیں۔اس آٹے کو ہاتھوں سےگوندھیں۔ گوندھائی کے دوران ضرورت کے مطابق اور بھی سوکھا آٹا ڈالا جاسکتا ہے۔جب گُندھا ہوا آٹا ،ملائم اور چکنا ہوجائے تو ایک دوسرے پیالہ کو گھی سے لیپ کریں اور گوندھے ہوئے آٹے کا گولا اس پیالہ میں منتقل کردیں۔اس آٹے کے گولے کو پیالہ میں اسطرح گھمائیں کہ اس پر ہر طرف گھی لگ جائے۔اب اس آ ۤٹا پر ایک گیلا کپڑا رکھ کر خمیر کو کام کرنے دیں۔ خمیر کی مقد ار کی بنا پر گند ھے ہوئے آٹے کو اپنی مقدار سے دُگنا ہونے میں کم ازکم دو گھنٹے لگیں گے۔ اب آپ اسے فریج میںرکھ دیں۔ نان بنانے سے تقریباً آدھاگھنٹا پہلے آٹے کے گولے کو فریج سے نکال لیں۔ اور اس کو دو حصوں میں ایک چھری سے کاٹ لیں۔ایک حصہ کوگیلے کپڑے میں لِپیٹ کر ایک پیالہ میں رکھ دیں تاکہ خشک نہ ہو۔ اب دوسرے حصہ کو ٦ حصوں میں بانٹ دیں۔اور اس کے پیڑے بنا لیں”۔
اباجان نے کہا۔” بھئ گریل تیار ہے۔ چلو وہاب نان لگاؤ "۔
چچا نے اردگرد دیکھا جیسے کسی چیز کی تلاش ہو۔
تم کو یہ پتہ ہے کہ نان کو روٹی کی طرح نہیں بیلتے ہیں؟" اباجان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "
چچا نے حیرت سے پوچھا۔” تو یہ روٹی کی طرح کیسے بن جاتا ہے؟"
" دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں استمعال کر کے اس ایک پیڑے کو روٹی کی طرح یا ایک آنسو کے قطرے کی پھیلاؤ۔ آٹے میں لچک ہے اسلئے یہ پھیلے گا”۔ اباجان نے کہا۔
٭ ٭ ٭
جمیل نے ڈایوینگ بورڈ سے سوئمنگ پُول میں چھلانگ ماری اور پُول کے پانی نے سب لڑکیوں کو بھگودیا۔ تھوڑی دیر تک توسب لڑکے ہنسے۔
سِمل نے کہا ۔ " یہ تواچھی بات نہیں ہے کہ آپ نےہمارے کپڑے گیلے کردیے “۔
آسیہ بولی " جمیل کو کیا پتہ اچھائ کیا ہوتی ہے؟"
آسیہ کے بھائ عمران نے کہا۔ " سبحان اللہ ، جیسے اِن کو تو پتہ ہے”۔
سعدیہ نے کہا "ْ واہ جرات تو دیکھیے اپنی ننھی بہن پراپنا بڑا پن جتا رہے ہیں”۔
عمران نے کہا " اسی کو تو انصاف کہتے ہیں”۔
" لو، بڑے بھایئوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ اچھائی اور انصاف کیا ہوتا ہے" ۔ سِمل نے منہ بنا کر کہا ۔
کی " ہا ں ہاں ، جیسے آپ جانتی ہیں اچھائیاں کیا ہوتی ہیں؟" ۔ جمیل نے اپنی چھوٹی بہن کو بحث میں لانے کوشش کی ۔
بس یہی تو لڑکیاں چاہ رہی تھیں۔ اُنکے خاص مضامین نفسیات، زبانیں، تاریخ اور فلسفہ تھے ۔ لڑکے بچارے کمپیوٹر سائنس، مینیجمینٹ اور میڈیکل کے طالبِ علم تھے۔
تھوڑی دیربحث کے بعد لڑکوں نے دیکھا کہ ہار قریب ہے۔ لڑکوں نے اس گفتگوسے نکلنا چاہا ۔
جمیل نے کہا۔" چلو اباجان سے پوچھتے ہیں”۔
“اباجان ہمیں آپ سےاچھائیوں کے بارے میں پوچھنا ہے”۔
اباجان نے اپنا ایپرن ماں کودیااور کہا نان جل رہے ہیں۔ ماں نے ہنس کرکہا۔ “ چلیں آپ ا پنی عمر کے لوگوں میں جائیں”۔
ہم سب لڑکے اور لڑکیاں اباجان کے اردگرد بیٹھ گئے۔
اباجان نے کہا تم میں سے مجھ کو کون بتائےگا کہ یونانی زبان کے لفظ ' آراتے ' کے کیا معنی ہیں۔
سب کی نظریں آسیہ پر تھیں۔ آسیہ کا مضمون خاص " زبانیں" ہے ۔
یہ توبہت ہی آسان ہے ۔ اسکا قریبی انگریزی ترجمہ تو “ورچو“ہے ۔ اردو میں اسکے معنی “جوہراور تقوی“ کے ہوسکتے ہیں۔
اباجان نے کہا۔ “ آسیہ بیٹی تم بلکل صحیح کہتی ہو۔ یونانی شاعرھومر نے جو آراتے کی تعریف بتائی ہے اسکو سُقراط نے صاف صاف علم انسانیت سے ملا دیا۔ سقراط کو یہ یقین تھا کہ اگر آپ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے تو آپ سچائی کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر آپ کو یہ علم ہے کہ جرات، انصاف، تقدس، اور اعتدال کیا ہیں تو آپ اُن پر عمل کریں گے”۔
فلا سفر ارسطو نے یہ سوچا کہ انسان یہ جاننے کے باوجود کے نیکی کیا ہے، برائ اور اچھائی دونوں کرے گا۔ اسے یونانی زبان میں 'َ اکراشیا' اور اردو میں " انساں کی خصلت میں کمزوری" کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو بدکاری کرتا ہے وہ نہ تو اچھائی اور نہ بُرائی جان کر کرتا ہے۔ سقراط کو اس بات سے اختلاف ہے۔
اباجان نے عمران کیطرف دیکھا”۔ بیٹے عمران وہ بات جو بظاہر باطل اور حقیقت میں صحیح ہوایسی بات کو کیا کہتے ہیں”۔
عمران نے قہقہ لگا کر کہا “۔ اُس کو آسیہ کہتے ہیں “۔
اسے پہلے کہ آسیہ عمران کو چٹکی بھرتی، عمران نے دونوں ہاتھوں کو معافی کے انداز میں جوڑ لیا”۔ نہیں میرا مطلب ہے اُلٹی بات اور انگریزی میں اسکو پراڈوکس کہتے ہیں۔
" ہاں جیسے بہت انگریزی جانتے ہیں”۔ آسیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
ہاں تم سے تو بہتر ہے" ۔عمران نے اپنی قابلیت ظاہرکی۔ "
آراتے ۔ علم انسانیت کے عروج کا ذریعہ ہے ۔سقراط کہتا ہے حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے گُفتگواور سوال و جواب ضروری ہیں اسکا کہنا تھا کہ ان کو استعمال کرکے اس حقیقت پر پہنچیں جس میں تعمیم ہو یعنی عالم گیر سچائ ہو۔ ارسطو کو تامل، سوچ بچار، غور اور ادھیڑبُن پر بھروسہ تھا اور سقراط کو علم انسانیت حاصل کرنے کے لیے گفتگو اور سوال و جواب پر اعتبار تھا ۔
سُقراط کے چھ سوال ۔
تقویٰ کیا ہے؟
جرات کیا ہے؟
انصاف کیا ہے؟
تقدس کیاہے؟
اعتدال کیاہے؟ اور
اچھائ کیا ہے؟ ہیں
"ان سوالوں کو پوچھنے سے سُقراط یہ نہیں جانناچاہتا تھا
کہ تقویٰ کِن اجزا سے مل کر بنا ہے؟
یا جرات، انصاف، تقدس ، اعتدال اور اچھائ کی خصوصیات مل کر تقویٰ بناتی ہیں؟
یا تقویٰ میں ان اجزا کی مقدار برابرہے؟
سُقراط کا مقصد تو دنیاکو یہ بتانا تھا کہ بشر ہی دنیا کو صحیح عمر اور صحیح سوچ سے بہتر بناسکتاہے”۔
اباجان بولے۔
سانیہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔” لیکن یہ تو الٹی بات ہوئ۔ جسے عمران بھائ نے پیرڈاکس کا نام دیا کہ علم انسانیت تقویٰ ہے۔
میرا خیال میں تو تقو یٰ ایک قوت ہے جس کا عمل، نتیجہ اور اثر ہوتا ہے”۔
" مثال کے طور پر پودے یا دوا کا تقویٰ شفا دینا ہے۔ میرے حساب سے تو تقویٰ اپنے عمل سے علیحدہ ہے چاقو، ایک قاتل کے ہاتھ میں اُتنا ہی تقویٰ رکھتا ہے جتنا باورچی کے ہاتھ میں اور ایک پودا جو شفا دیتا ہے اتنا ہی تقویٰ رکھتا ہے جتناکہ ایک زہری پودا”۔
اباجان نے مسکرا کر کہا میری بیٹی نے ٹھیک کہا۔ سب سے اچھا چاقو وہی ہوگا جو سب سے بہتر کاٹے۔لیکن کیا سانیہ کی سوچ میں مناسب قدر شامل ہے؟
سانیہ نے پوچھا۔ چاقو کا کام توصرف کاٹنا ہے تو اسکا تقویٰ ، خاصیت اور پیمانہ پر منصر ہے۔ لیکن انسان کواپنے عمل کے نتیجہ کا بھی فیصلہ کرنا ہے۔ارسطو کا کہنا تھا کہ یہ خاصیت انسان کو حیوان سے علیحدہ کرتی ہے۔اس لیے انسان کو حیوان ناطق یا آدم زاد بھی کہتے ہیں۔
اباجان نے کہا لیکن ناطق ہونے کے لیے صرف سوچ بچار بلکہ خواہش، تعلیم، عادت، فکر اور دوسرے اجزا کی ضرورت ہے تمام بھی ضرورت ہے۔ تقویٰ نہ صرف تاریخی ہیں بلکہ اچھائ ہیں۔اور ایک نیک اور درست انسان میں انسانیت اور تقویٰ یکجا ہوجاتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو انسان کہنے کے لیے آدمی کے پاس نہ صرف تقویٰ ہو بلکہ وہ اس تقویٰ کی اخلاقی استعمال کی ذمہ دار ی بھی لے ۔ایسا کرنے سے انسان ، انسانیت کی تکمیل پر پہنچے گا۔
" اس لیے تقویٰ علم حیات اور تہذیب کی نشوونما کا ملن ہے۔ تقویٰ، انسان کو انسانیت سیکھاتاہے”۔
سمل بولی”۔ اسلام بھی تو ہمیں پرہیزگاری اور اچھائیاں دیتا ہے”۔
اباجان نے اپنا سر اسطرح ہلایا جسے انکو اس سوال کا انتظار تھا۔ تم نے “ایووروئیز“ کا نام سنا ہے؟ ہم سب نے یکجا ہو کر کہا۔کس کا؟
اباجان نے مُسکرا کر کہا۔ دہ شخص جو کہ سائنس کا شہزادہ ، علم فقہ ، ریاضی، طب اور فلسفہ کا ماہرتھا۔ہم سب نے یکجا ہو کر کہا۔کون؟
عبدوالولید محمد ابن رشد، بارویں صدی کا مسلم فلاسفر تھا ۔ جس کی کتابوں تخلیص ، جَامی ، تفسیر نے ازمینہ وسطیٰ یورپ کی جدید ترقیوں کے ابتدا کے بیج بوئے۔ ابن رشد نے ٣٨ کتابیں فلسفہ پر لکھیں۔ بہت سی کتابیں علم ہیئیت ، علم موسیقی، علم شاعری اورعلم انشاء پر لکھیں۔اس کے علاوہ 8 جلدوں کا مجمع العلوم انسا ئیکلوپیڈیا، جس میں علم تشریع، تشخیص مرض ،علم الادویہ ، علم الامراض ، علم عضویات ، عملی اور دفاع مرض کو مفصل بیان کیا۔ اسکا ترجمہ اطالوی زبان میں ہوا۔ دنیا مسلم میں ابن رشد تَہَفُت التَہَفُت ، الفلسفہ اور مابادی الفلسفہ ، ان دو کتابوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
"واقعی ابن رشد علم کا شہزادہ تھا”۔ عمران نے کہا۔
اباجان نے گفتگو کو جاری رکھا”۔ ابن رشد اور ارسطو دونوں اس بات پراتفاق رکھتے ہیں کہ گہری سچائ کو معلوم کرنا بہت اہم ہے اور تجزیہ ، دلیل اورفلسفہ کی مدد سے انسان مکمل اوردائمی سچائ پر پہنچ سکتا ہے۔
ابن رشد ' شریعت ' پر یقین کرتا ہے۔ وہ قران پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اُس کو اس بات پر اعتماد ہے کہ فلسفہ ، مذہب کی منافقت نہیں بلکہ تصدیق کرتا ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کو سمجھنا فلسفہ کا ایمان ہے۔
عبدللہ المودودی ہمارے وقت کے مسلم اسکالر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ ' اسلام کے اخلاقی اصول ' میں لکھتے ہیں کہ اسلام کوئ نئے نادر اور انوکھے اخلاقی نتائج نہیں پیش کرتا اور نہ ہی پہلے سے موجود اخلاقی اصولوں سے اختلاف کرتا ہے۔اسلام صرف ان اصولوں میں اسلام کے بنیادی اصولوں کا اصافہ کرتا ہے۔
ابا جان نے سوال کیا”۔ اچھائیاں کیا ہیں؟
“ انسانیات کے اخلاقی اصول جو آدمی کوانسانیت سیکھاتے ہیں “۔ میں بولا۔
اچھائی کون بناتا ہے؟ " اباجان نے دوسرا سوال کیا”۔
آدمی ۔۔۔ علم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے اانسانیت کے اصول حاصل کرتا ہے”۔ سانیہ بولی”۔
اچھائی کی تعریف بدل سکتے ہیں یا نہیں؟ "۔اباجان نے تیسرا سوال کیا”۔
وقت کے ساتھ عام طور پر اچھائی کے اصول عالمی بن جاتے ہیں مگرعلم حیات اور تہذیب کے نشوونما سے ان میں اضافہ یا تبدیلی ہو سکتی ہے ۔ آسیہ نے جواب دیا۔
اچھائی تعداد میں کتنی ہیں؟ " اباجان نے چوتھا سوال کیا”۔
یہ تو کہنا مشکل ہے ۔ کیوں کہ اچھائیاں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ سقراط نے اس لیےتعداد پر زیادہ اہمیت نہیں دی”۔ جمیل نے کہا۔
سقراط کے چھ سوال؟
اباجان ، میں اسکا جواب دوں گی۔ یاسمن جلدی سے بولی”۔ تقویٰ ، جرات ، انصاف ، تقدس ، اعتدال اور اچھائی"
کیا اسلامی اصول عالمی اچھائی کے اصولوں سے مختلف ہیں؟
اسلام کے اپنے بھی گوہر ہیں اور عالمی ورچوز بھی اسلامی ورچوز کا حصہ ہیں”۔ عمران نے کہا”۔
اباجان نے کہا اب ہم سب جانتے ہیں کہ آراتے اوراچھائیاں کیا ہیں۔
ایک دن تم اور ہم اچھائیوں کو ایک ایک کر کے دیکھیں گے۔
اماں جان نے دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجائی۔
٭ ٭ ٭
اماں جان کے مسالے دار چکن تکہ، اباجان کے نان ، ممتاز آنٹی کا قورمہ اورصوبیہ آنٹی کی لیمب بریانی سے کھانے کی میز سجی ہوئ تھی۔ یاسیمن، آسیہ اورسانیہ نے میز کو گلاب اور چنبیلی کے پھولوں سے مہکایا تھا۔ مجھے آنٹی ممتاز اور انکل نصیر کے پاس جگہ ملی۔
آنٹی نے سوال کیا”۔ تم اور یاسیمن کل سنیما گے تھے۔ کون سی فلم دیکھی؟ "
" ہم نے انڈین فلم ' بلیک ' دیکھی”۔ سعدیہ نے کہا۔
انکل نصیر بولے”۔ اچھا اسکے بجائے تم ہمیں بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا۔ ہم تم کو بتاتے ہیں کے تم نے کیا دیکھا۔ ایک غریب لڑکی کی امیر لڑکے سے محبت دیکھی یا شاید ایک امیر لڑکی کی غریب لڑکے سے محبت دیکھی۔ والدین اور رشتے داروں کی مخالفت دیکھی۔ سات گانوں میں لباسوں کو بدلتا دیکھا۔کچھ لڑائ اور بھلائ دیکھی اور بعد میں سب کو ملتا دیکھا”۔
آنٹی نے مجھے آنکھ مار کر انکل سے کہا”۔ مر بے حیا”۔
آنٹی نے کہا”۔ اِن کو تو بکنے دو۔تم مجھ کو بتاؤ اس فلم کے متعلق”۔
" آنٹی" میں نے کہا”۔یہ فلم دوسری انڈین فلموں سے بہت مختلف ہے۔پہلی بار ڈائیریکٹر سنجے لیلہ بھان سالیی نے ایک ایسی کہانی چنی ہے جس میں ایک عورت اور آدمی کا عشق نہیں۔ دوسرے اس میں گانے اور لباس بھی نہیں تبدیل ہوئے ۔ رانی مکرجی اور امیتابچن کا کردار ایک استاد اور شاگرد کا ہے۔ رانی مکرجی ایک اندھی اور بہری لڑکی ہے اور امیتابچن اندھوں کوآنکھوں والی دنیا میں رہنا سکھانے کا استاد ہے۔ جب اندھی لڑکی اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اس زندگی کے رنگوں کو دماغ سے جانے اسکے استاد کو الزایئمر کامرض ہو جاتا ہے شاگردہ اپنے استاد کو اسکی بھولی ہولی زندگی یا دیلانے کی زمیداری قبول کرتی ہے۔ رانی اور امیتابچن نے کمال اداکاری کی ہے۔
“ آنٹی آپ دیکھیں نا ، آئیشہ کپور نے اندھی لڑکی کے بچپن کا کردار اتنی خوبصورتی سے کیا ہے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس کو ایک فلم ایوارڈ ملنا چاہیے۔ دوسرے ساری فلم صرف ایک خوب صورت گھر میں بنی ہے اور لوکیشن بھی بہت خوبصورت ہے۔ یہ فلم نیوز ی لینڈ کے ایک شہر کرایسٹ چرچ میں بنی ہے“۔
مجھے وہ ڈائیلاگ اچھا لگا " جب رانی کہتی ہے کہ ہاں یہ صحیح ہے کہ زندگی ایک بڑی آیسکریم ہے اس سے پہلے کی پگھل جائے آّؤ اسے کھالیں”۔ سعدیہ نے کہا۔
انکل نے کہا ."میں تواب آرام کروں گا۔اگر آنکھ لگ جائے تو چائے کے وقت سے پہلے مجھےجگادینا"۔
آہستہ آہستہ سب بزرگ آرام کرنے چلے گئے۔
٭ ٭ ٭
سِمل نے منہ بنا کر کہا”۔ یہ ورچو کا موضوع تو میرے سرکے اوپر سےگزر گیا”۔
جمیل نے ہنس کہا۔”مجھ پتہ تھا کہ تم رودوگی۔اگر ہم تم سے پوچھیں کہ گوہرِصفت (اچھائی) کیا ہے؟" تو تم فوراً سے پیشتر کہوگی۔ "گوہر تو جال کا گلوکار ہے۔اور ' عادت ' اسکا پہلا گانا تھا۔
سِمل نے قہقہ مار کر کہا “۔ میرا بھائ بدھو ہے۔مجھے “جنون بینڈ“ پسند ہے”۔
سعدیہ نے کہا ۔“ مجھے تو جال پسند ہے”۔
“ لڑکیوں ‘ فیوزن ‘ سے بہتر تو کوئ بینڈ نہی ہے “ ۔سانیہ بولی۔
مجھے تو علی ظفر کا البم ' شرارت ' بہت اچھا لگتا ہے نا۔ سعدیہ نے کہا۔
“ مجھے بھی پسند ہے لیکن کیا تم نے البم کبھی سناہے؟ چلو ہم تمہارے کمرے میں اس کو سنتے ہیں”۔
٭ ٭ ٭
عمران نے جمیل سے کہا”۔ تم نےخبرسنی کہ پاکستان اور انڈیا مل کرکرکٹ ورلڈ کپ ٢٠١١ کو ایشیا میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
"نہیں، میں نے تو نہیں سنا۔ کب کی خبر ہے”۔
"چیئرمین شہریار نے صبع اعلان کیاہے"۔ عمران نے جواب دیا۔
میں نے کہا۔ “ہاں پاکستان اور انڈیامل کر کرکٹ ورلڈ کپ ١٩٨٧ میں سری لنکا لائے تھے”۔
“ عمران نے پوچھا”۔ اُن ملکوں کو اس کا تجربہ ہے؟
“ اچھا ہے”۔ میں نے جواب دیا "
“ کرکٹ ورلڈ کپ ٢٠٠٧ کہاں ہو رہا ہے؟”
“ وہ تو ویسٹ انڈیز میں ہوگا”۔ جمیل نے کہا۔
میں نے کہا۔ ” تم نے سنا کہ پاکستان نے انڈیا کی مہمان فٹ بال ٹیم کو نیشیل بنک آف پاکستان کپ فرینڈشپ میں 3۔ سے 0 ہرادیا”۔
” یہ تو شاندار خبر ہے۔” جمیل اور عمران نے ایک ساتھ کہا۔
” چلو یار ' ای۔ایس۔پی۔این ' پر اسپورٹس کا کوئ پروگرام دیکھیں”۔ جمیل بولا۔
٭ ٭ ٭
شام سہانی تھی۔ اماں جان اور سعدیہ دونوں سوئمنگ پُول کے قریب آرام دہ کرسیوں پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھاہوا تھا۔اباجان حسب معمول کتب خانہ میں تھے۔ تمام رشتے داراور احباب جاچکے تھے۔
میں نے ماں سے پوچھا۔ ”اچھائی کیا ہوتی ہیں؟
“ تم کیوں پوچھتے ہو؟ کیا ابو کی باتیں کافی نہیں؟ " ماں نے کہا۔
" ہاں ابو نے ہمیں اچھائی کو سمجھنے میں مدد دی۔ مگر میں آپ کا خیال بھی جاننا چاہتا ہوں”۔
“ ماں نے جھک کرسعدیہ کا ماتھا چوما۔ اور کہا”۔میرے خیال میں محبت انسان کی سب سے بڑی اچھائی ہے۔جو تمام اچھائیوں کواپنے اندر سمالیتی ہے۔
“ محبت، اباجان نے تو اس کا ذکر ہم سے نہیں کیا؟ "میں نے حیرت سے کہا۔
ماں نے کہا۔ ” انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں اور تمارے ابو تمیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں۔اس لیے تم سقرا ط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو”۔
" لیکن محبت میں نے اور تمھارے ابو نے تم اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کی تھی”۔
" مگر امی محبت تمام اچھائیوں کو کسے سما سکتی ہے؟ محبت کیا ہے؟" سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔
ماں نے کہا “۔ اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ ، رشتہ اورتعلق، شفقت ، بے قراری اور پروا ہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی یکجہتی سے پیدا ہوتاہے”۔
" امی ، امی “۔ سعدیہ چلائ”۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔
ماں مسکرائیں۔” اچھا، اچھا”۔
" میں تم سے محبت کرتی ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سچ ہے؟
" امی یہ کیسا سوال ہے؟" سعدیہ نے ماں کی ناک موڑتے ہوے کہا”۔میں تو سارے جہاں سے زیادہ آپ سے محبت کرتی ہوں”۔
“ مجھ سے بھی زیادہ “۔میں نے ہنس کر کہا۔
“ بھول جائیے بھائ جان۔ آپ کا نمبر تیسرا ہے“۔ سعدیہ نے اماں کو آنکھ مار کر کہا۔
“ محبت کرنا ایک گہرا جذبہ ہے”۔ ماں نے کہا۔
" تم مجھ سے کیوں محبت کرتی ؟ "
آپ میری امی ہیں۔” سعدیہ نے ماں کے گال چوم کرکہا”۔
ماں نے کہا۔ ”رشتہ اور تعلق “
" کیا تم کو یاد ہے، تم نے اس ننھی سی بلی کو اپنے کمرے میں، اپنے بستر میں پناہ دی تھی”۔
" امی وہ بچاری تو بھوکی، بارش میں سردی سے مررہی تھی”۔ سعدیہ نے شکایت کی۔
اور جب ہمارے شہر کا میونسپل بورڈ اوکھ کا سو سال پرانا درخت کاٹنا چاہتاتھا ۔ہم سب لوگ درخت کے چاروں طرف گھیرا ڈال کربیٹھے تھے تا کہ درخت کو کٹنے سے بچائیں تم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اور جب پولیس نے ہم کو جانے کو کہا اور ہم نہیں گئے ۔تب پولیس نے ہم سب کی آنکھوں میں لال مرچ ڈال دی ۔ تم روئیں مگر تم نے کہا۔ ماں ہم نہیں ہٹیں گے۔ یہ درخت ہم سب سے پہلے یہاں تھا جب ہم یہاں نہیں تھے۔ یہ ہمارے ایکو سسٹم میں برابر کا شریک ہے۔
جب سعدیہ کو یاد آیا کہ تمام کوششوں باوجوددرخت کاٹاگیا۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
" اس کو ہم عصر کی پروا ہ کرنا کہتے ہیں”۔ اماں جان نے کہا۔
” اللہ کی تمام مخلوق ہماری ہم عصر ہے”۔
" اور جب کبھی تمہارے بھیا کالج سے وقت پر واپس نہیں آتے۔ توکون با ر بار پوچھتا ہے، امی ، بھائ جان نے کال کیا؟" ۔
" وہ تو میں اس لئے پوچھتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ہیں کہ میں وقت پر واپس آؤں گا۔ میں انکی پروا تھوڑی کرتی ہوں”۔ سعدیہ نے شرارت سے کہا۔
ماں نے کہا۔” اس کو بے قراری کہتے ہیں”۔
اور جب ہمارے ملک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس حملے کے خلاف کون سب لوگوں کے ساتھ ہر بدھ کی شام کو موم بتیاں لے کر شاپنگ مال کے سامنے احتجاج کرنے کھڑا ہوتا ہے۔
سعدیہ مستی سے بولی۔ “بھائ جان”۔
ماں نے کہا۔" یہ دوسرے انسانوں کی پروا ہ کرنا ہے”۔
اللہ نے اس کائنات میں ایک بنیادی یکجہتی بنائی ہے اور ایک مقناطیسی لگاؤ ہر چیز کی بناوٹ میں ملا دیا ہے۔ اس یکجاپن اور مقناطیسی لگاؤ کو ہم اخلاقی محبت کہتے ہیں۔اب یہ انسان کا کام کہ وہ اس اچھائی کو ۔۔۔ سعدیہ با توں کے دوران میں سوگی۔
ماں نے کہا۔ “چلو سب کے سونے کا وقت ہو گیا ہے"۔
میں نے ہمیشہ کی طرح آج بھی ننھی کو گود میں اُٹھایا۔ سعدیہ نے اپنے بازو میرے گلے میں ڈال دیے۔ماں ہمارے پیچھے چلیں۔ کوریڈور میں اباجان کو شبِ خیر کیا۔ میں نے سعدیہ کو دھیرے سے اسکے بستر پرگرادیا اورجھک کراُسکا ماتھا چوما”۔ شبِ خیر میری ننھی”۔ ماں دروازے پر کھڑی تھی۔
سعدیہ نے ایک آنکھ کو کھول کر کہا”۔ کیا آپ ہمشہ اس طرح مجھے اس طرح سلائیں گے؟"
میں نے کہا۔” ہاں مگر شرط یہ ہے کہ تو ایک تین فٹ کے بونے سے شادی کر ے گی اور ماں کو دروازے پر ایک ڈنڈا لیکر میری حفاظت کرنی ہوگی" ۔
سعدیہ نے آنکھیں بند کر کے کہا”۔ بھائی جان تمہاری دوست سہانہ سچ کہتی ہے تم الّو ہو، تم پاگل ہو”۔ اور ۔۔۔وہ نیند کی دنیا میں چلی گی۔
میرے کمرے میں ریڈیو بج رہا تھا۔ میں نے ریڈیو کو پانچ منٹ کے ٹائمر پر لگادیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ ماں نے میرے اوپر چادر اورکمبل کو ٹھیک کیا۔اور میرے ماتھے کو چوم کر شبِ خیر کہا۔ پانچ منٹ میں گہری نیند میں تھا۔

.
 
Top