مصطفیٰ زیدی آہنگ

غزل قاضی

محفلین
آہنگ

میں وہ انجان تمنا ہوں گُہر کے دل میں
جو رموز ِ شب ِ نیساں سے قسم لیتی ہے
میں ہوں آفاق کے سینے کی وہ پہلی دھڑکن
جو فقط سینہؑ شاعر میں جَنَم لیتی ہے

میرے پیکر میں پھر اک بار اتر آیا ہے !
وہ گنہگار کہ جس سا نہیں کوئی معصوم
میں ہوں وہ درد جو راتوں میں کسک اٹھتا ہے
میں ہوں وہ راز جو مجھ کو بھی نہیں ہے معلوم

قابل ِ رشک ہے پندار ِ تعیش کے لئے
مری افسردہ جوانی کی اُداسی کا غرور
کیف ِ ہر عہد ہے ، نیرنگیؑ امروز نہیں
میرے ان خون سے سینچے ہوئے نغموں کا غرور

میں وہ آھنگ ہوں جو سوز کی حد کو چھو لوں
خودبخود ساز کے تاروں میں پگھل جاتا ہے
جو کبھی تاج ِ سلیماں کا نگیں بنتا ہے
اور کبھی محنت ِ مزدور میں ڈھل جاتا ہے

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! کیا اچھا انتخاب ہے۔ شکریہ ٬غزل جی ۔ بس اس مصرع میں غرور کی املا درست کردیں۔
مری افسردہ جوانی کی اُداسی کا غزور
 

فرخ منظور

لائبریرین
آہنگ

میں وہ انجان تمنا ہوں گُہر کے دل میں
جو رموز ِ شب ِ نیساں سے قسم لیتی ہے
میں ہوں آفاق کے سینے کی وہ پہلی دھڑکن
جو فقط سینۂ شاعر میں جَنَم لیتی ہے

میرے پیکر میں پھر اک بار اتر آیا ہے !
وہ گنہگار کہ جس سا نہیں کوئی معصوم
میں ہوں وہ درد جو راتوں میں کسک اٹھتا ہے
میں ہوں وہ راز جو مجھ کو بھی نہیں ہے معلوم

قابل ِ رشک ہے پندار ِ تعیش کے لئے
مری افسردہ جوانی کی اُداسی کا غرور
کیفِ ہر عہد ہے ، نیرنگیِ امروز نہیں
میرے ان خون سے سینچے ہوئے نغموں کا غرور

میں وہ آہنگ ہوں جو سوز کی حد کو چھو کر
خودبخود ساز کے تاروں میں پگھل جاتا ہے
جو کبھی تاج ِ سلیماں کا نگیں بنتا ہے
اور کبھی محنتِ مزدور میں ڈھل جاتا ہے

مصطفیٰ زیدی

(روشنی)​
 
Top