آپ کی ڈائری سے - ایک محفلین کا پسندیدہ کلام اور تتبصرے

زبیر مرزا

محفلین
السلام علیکم
محفلین یوں تو اپنا پسنسیدہ کلام شئیرکرتے اور اپنے حُسن ذوق کی داد پاتے ہیں
لیکن پسندیدہ کلام اور اس پسندیدگی کی وجوہات اور تاثرات بھی ساتھ ہوں تو لُطف دوبالا ہوجائے
تو جناب سلسلہ کچھ یوں ہے کہ ہرہفتہ ایک مہمان کو مدعو کیا جائے گا اور اس سے پسندیدہ
اشعار، غزلیں اور نظمیں پیش کرنے کی درخواست کی جائے کی تاثرات اور تبصرے سمیت
10 پسندیدہ اشعار
5 پسندیدہ غزلیں
5 پسندیدہ نظمیں
مہمان ایک ہفتے تک اپنا پسندہ کلام مندرجہ بالا ترتیب سے پیش کرسکتے ہیں ایک مکمل ہفتہ آپ کے لیے وقف ہوگا اور آٹھویں دن نیا مہمان اور نئے انتخابِ کلام کے ساتھ
 

زبیر مرزا

محفلین
iris2.gif

اس بزم کے پہلے مہمان@محمود احمد غزنوی
 
بہت مشکل میں ڈال دیا زبیر بھائی۔۔۔میرے ذہن پر تو آجکل پاکستان کی سیاسی صورتحال اور کرنٹ افئیرز کاغلبہ ہے۔۔۔یکایک طوفانِ بدتمیزی میں سے نکل کر گوشہِ شعر و سخن میں پرسکون ہوکر بیٹھنے اور تخیل کی پرواز کیلئے جس یکسوئی اور peace of mindکی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے تو یہ کام بہت مشکل لگ رہا ہے۔۔لیکن آپکی محبت سر آنکھوں پر۔۔۔انشاءاللہ کچھ پرسکون ہونے کے بعد اس دھاگے کا رخ کروں گا۔۔۔
بہت نوازش۔۔۔:)
 

سیما علی

لائبریرین
گنہ کا بو جھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجا لت سے سر جھکا کے چلے

مقام یوں ہوا اس کار گاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے

ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے

ملی نہ پھولوں کی چادر تو اہل بیت کرام
مزار شاہ پہ لخت جگر چڑھا کے چلے
اس سلام کا مقطع بہت مشہور ہوا تھا :
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چل


میر انیس کی غزل گوئی ترک کرنے سے تعلق رکھتے ہیں قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ یہی میر انیس کی آخری غزل ہو گی ۔
” البتہ میر صا حب کے سلاموں میں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جو غزل کا باعث ہوسکتے ہیں۔۔۔۔
میر انیس کا رویہ اس زمانے کی شاعری سے بالکل مختلف ہے۔ انیس صرف دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔
بعض غزل گو شا عروں کے سلسلے میں میر انیس
کے چند جملے جو
آزاد کے حوالے سے درج کیے جاتے ہیں دیکھیے ۔۔۔ ذوق کے بارے میں آزاد نے انیس کی رائے جاننا چاہی ۔
انیس کا جواب تھا :
” فر مایا کہ میاں سید میر کے بعد پھر دلی میں ایسا شاعر کون ہوا ہے ۔ “۔۔۔۔۔
(آب حیات ص نمبر ۸۴۵۔ محمد حسین آزا د)


” میر انیس کے سامنے ایک صا حب نے یہ مصرع پڑھا
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
میر صاحب نے یہ مصرع لگایا
عرق گل ہے مناسب اسے دینا صیا د۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کیا خوبصورت رباعی
غالب کے انتقال پر میر انیس کی ایک رباعی

گلزارِ جہاں سے باغِ جنت میں گئے
مرحوم ہوئے جوارِ رحمت میں گئے

مدّاحِ علی کا مقام اعلیٰ ہے
غالب اسد اللہ کی خدمت میں گئے
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
” انیس کی شاعرانہ عظمت
کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوﺅں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا ا تار چڑھاﺅ اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بےجا نہیں ۔“
 

سیما علی

لائبریرین
تصوف کا رنگ
خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار ہیں؀
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
 

سیما علی

لائبریرین
غزل کا رنگ
خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی کیفیات؀
درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج
اس کو چھیڑا برا کیا تو نے
رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
 

سیما علی

لائبریرین
چاہت

دُور افق پر نظر جمائے۔
جذبوں کا اک دیپ جلائے۔
تیری چاہ میں رسوا ہوکر۔
تنہا ہو کر۔
کب سے کھڑا ہوں سوچ میں گم صم
تیری اس پتھر نگری میں۔
کب تک باقی رہ پائے گی۔
کرچی کرچی ہوجائے گی۔
نازک سی یہ چاہت جانم۔
اس دل کو کیسے سمجھائیں۔
کتنی تلخ حقیقت ہے جو۔
دو پہروں کا سورج بن کر۔
چبھتی جاتی ہے آنکھوں میں۔
گھٹتی جاتی ہے سانسوں میں۔
کس کی خاطر ویرانوں میں۔
خوشبو بن کر پھیل رہی ہے۔
نازک سی یہ چاہت جانم۔
بے مایہ سی چاہت جانم۔
محمود غزنوی
 

سیما علی

لائبریرین
غنچے تری زندگی پہ دل ہلتا ہے
بس ایک تبسم کے لئے کھلتا ہے
غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے !

جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
دلوں کو جوڑتی ہے سلسلہ بناتی ہے
ہر امتحاں میں دعا راستہ بناتی ہے

یہ سیلِ سرکش و سفاک کا ہدف، مرے گھر
کوئی دن اور کہ خلقِ خدا بناتی ہے

یہ زندگی جو ابھی دھوپ ہے، ابھی سایہ
ہر آن ایک نیا دائرہ بناتی ہے

ہزار بار یہ دیکھا گیا کہ ہجر کی رات
بجھے چراغ کی لو خود ہوا بناتی ہے

صدا، سکوت کی منزل میں بھی بشرطِ خلوص
زمانہ کیسا بھی ہو، ہم نوا بناتی ہے

افتخار عارف
 
Top