کاشفی

محفلین
کیفیاتِ آرزو
(بہزاد لکھنوی)
آپ کا جب مجھے خیال آیا
دل کی ہر آرزو کو حال آیا

کتنا نازک تھا دل کا آئینہ
ٹھیس لگتے ہی ہائے بال آیا

رُخ پہ کیوں کھیلنے لگی شوخی
دل میں کوئی حسین خیال آیا

اُٹھیں تعظیم کو مری نظریں
جب کوئی صاحبِ جمال آیا

ہر تمنّا ہے کچھ پریشان سی
آپ کو ظلم کا خیال آیا

جوش دستِ کرم بڑھا اُن کا
جب بھی لب پر کوئی سوال آیا

ہچکیاں آرہی ہیں اے بہزاد
اُن کو شاید مرا خیال آیا

 
Top