جاوید اختر آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے - جاوید اختر

کاشفی

محفلین
غزل
(جاوید اختر)
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے

ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے

ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے

آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے

عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے
 

کاشفی

محفلین
:) اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
عشق ہے، اِک نقشِ محکم، عشق ہے، نقشِ جلی
حسن ہے امروز، کل وہم و گماں ہو جائے گا

بہت شکریہ غزل کی پسندیدگی کے لیئے۔۔۔خوش رہیئے۔۔۔

بہت خوب ۔
نصرت کی آواز میں سنیں ۔۔
ڈیلی موشن
یوٹیوب

بہت شکریہ۔ خوش رہیئے۔۔
 
جگجیت کی اور نصرت کی آواز میں تو کئی دفعہ سماعت سے گزی ہے لیکن اشعار کی صورت میں پہلی دفعہ پڑھی ہے شکریہ کاشفی بھائی
 
Top