آپ بیتی - ایک کہانی (شیخ نیپا ) - قسط 4

سید رافع

محفلین
شیخ نیپا - سو لفظوں کی کہانی
لڑکے کی گاڑی نیپا چورنگی کی جانب چلی جا رہی تھی۔
حق سادہ ہوتا ہے۔ جب باطل کے سر پر پڑتا ہے تو اسکو پھاڑ کر رکھا دیتا ہے۔
بات سادی ہے۔
عمران علی زینب کے سر پر کھڑا ہے۔
کیا کسی کے ہاتھ میں دم ہے کہ اسکے سر کے بال پکڑ کر ننھی گڑیا کو اسکے گھر پہنچاے؟
کیا کسی کے ہاتھ میں ذو الفقار ہےکہ اگلی سحر قاضی کا فیصلہ ہو اور وہ عمران علی کی گردن اتارے؟
بات ہے یہ سحر ہر سچ کے ساتھ نزدیک ہو گی۔
سات ارب کی آبادی میں چند کروڑ انصاف بھرا سچ بولنے لگیں تو جھوٹ کے مٹکے میں وہ چھید ہو گا کہ ہر غلط گردن اتر جاے گی۔
ہر سچ شجاعت سے بھرپور ہوتا ہے۔
ہر مکر بزدلی سے لدا ہوتا ہے۔
سچ برق رفتار اور مکر بوجھل ہوتا ہے۔
سچ سریع الحساب مکر منکر الحساب۔
سچ بہادر مکر ڈرپوک۔
زینب کے لیے سچ بولنا پڑے گا۔
لڑکے کی گاڑی نیپا کے پاس سڑکوں پر آہستہ چل رہی ہے۔
امام بارگاہ کے اردگرد بیریر کا جا ل ہے۔
لڑکا گاڑی کو دور روکتا ہے۔ ہر طرف گٹر کا پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔
شلوار کے پانچے اوپر کر کے لڑکا گٹر کے پانی کے درمیان کچھ خشک کچھ تر جگہ پر پاوں رکھتا امام بارگاہ کے چھوٹے دروازے پر پہنچتا ہے۔
گارڈ بے ریش، لڑکا ٹوپی لگاے باریش۔
گارڈ فورا پہچان جاتا ہے کہ یہ ہمارے فرقے سے نہیں۔
لڑکا سلام کے بعد کہتا ہے کہ مجھے امام صاحب سے ملنا ہے۔
گارڈ کہتا ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے آیں جماعت کے بعد ملاقات ہو سکتی ہے۔
لڑکا تھکا ہوا ہوتا ہے۔ انتظار کے بجاے اگلے دن کا خیال اسے گاڑی کی طرف واپس لے جاتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا اگلے دن شیخ نیپا کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری


شیخ نیپا - سو لفظوں کی کہانی
رات کے ساڑھے آٹھ بجے لڑکاامام بارگاہ کے دروازے پر پہنچتا ہے۔
جماعت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
کچھ مرد عورتیں گیٹ کے باہر خوش مزاجی سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر و عافیت دریافت کر رہے ہوتے ہیں۔
جبکہ پلیٹوں اور چمچوں کے ٹکرانے کا شور امام بارگاہ کے چھوٹے دروازے کے باہر سے سنا جا سکتا تھا۔
لڑکا گارڈ کو سلام کرتا ہے۔ گارڈ پہچان گیا ہوتا ہے مسکرا کر جواب دیتا ہے۔
میں بلاتا ہوں امام صاحب کو ۔ گارڈ پلٹتے ہوے لڑکے کو اپنے جانے کا مقصد بارآور کراتا ہے۔
جو ایک نظر رسول کو دیکھے وہ صحابی۔ جس کو رسول خود پالیں وہ علی۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جس سے راضی ہونے کے قصے قرآن میں وہ صحابی۔ جس کو ہر مسلمان مرد و عورت ہر دو رکعت میں بیٹھ کر سلام بھیجے وہ علی کی آل۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جس کی پیٹھ پر رسول سواری کریں غار ثور تک وہ ا بوبکر۔ جو بستر نبوت پر سو جاے وہ علی۔یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جو غار میں غم زدہ ہو اور رسول تسلی دیں وہ ابوبکر۔ جو بستر نبوت پر ایسی میٹھی نیند سوے کہ کم از کم اس رات تو موت نہ آے گی وہ علی۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جو تین روز اونٹنی کا دودھ لے کر آے وہ ابو بکر۔ جس کے سپرد رسول تمام امانتیں سپرد کریں وہ علی۔یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
صحابی کے معنی صحبت رسول پانے والا کچھ گھنٹے کچھ دن۔ اہل بیت کے معنی رسول کے گھر میں رہنے والا سارا دن اور پوری رات ہر روز اور سارا سال۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
بات یہ ہے کہ علم کا دور دورہ زینب کو بچاے گا۔
اور علم علی سے ہے۔
علی شہر علم کا دروازہ۔
ہر علم علی کے ذریعے شہر سے باہر نکلتا ہے۔
ہر علم حاصل کرنے والے کو اس سخت و کڑک دروازے سے گزر کر ہی شہر میں داخلہ ملتا ہے۔
ابو بکر وہ کہ سورہ توبہ کا علم و آیات دے کر حج پر بھیجے جایں۔
لیکن جبرایل فرمان الہی لے کر پہنچیں کہ علی کو بھیجیں کہ آیات ابوبکر نہیں علی سنایں گے۔
علی صاحب تلاوت ہیں کہ قرآن کے نور کو گھوڑے پر سوار ہونے کے دوران تلاوت کر لیں۔
علی شہر علم میں مانند دروازہ جڑے ہیں سو علم میں شہر سے سب سے زیادہ متصل۔
سو بعد از نبی سب سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والے۔
سو بعد از نبی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے۔
سو امام کہ اللہ پکارتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ ڈرنے والوں کو امام بنایں گے۔
سو انکا سقیفہ بنی ساعدہ پر راضی نہ ہونا محض علم اور اللہ سے ڈرنے کے سبب ہے اور عین حق ہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ ایک حادثہ ہے۔
ویسا ہی حادثہ کہ بعض قبایل معانعین زکوۃ ہوتے ہیں اور بعض میں مسلیمہ جیسے نبوت کا دعوی کرتے ہیں۔
یعنی تصور کریں کہ علی و عباس ابھی قبر مبارک کی تیاری میں مصروف ہیں۔
ابوبکر و عمر پاس بیٹھے ہیں اور انصار کے چند لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ انکا امام کون ہو!
ان کا خلیفہ کون ہو!
کیا یہ کام مسجد نبوی میں اطمینان سے نہیں ہونا چاہیے تھا کہ مسلمان ذرا رسول کی نماز جنازہ سے تو فارغ ہو لیتے!
اگر بوجہ علم کہ انبیا کی میراث علم ہوتی ہے فاطمہ فدک حاصل نہیں کر پاتیں تو علی کو سقیفہ کی بیعت سے بڑھ کر امام اور خلیفہ ہونے کا حق بھی عین یہی علم ہے۔
امام صاحب چھوٹے گیٹ سے باہر آتے ہیں۔ وہ ایک بے ریش عالم مرد تھے۔
گارڈ دو کرسیاں گیٹ کے باہر رکھ دیتا ہے۔
لڑکے کا مدعا سننے کے بعد وہی فرماتے ہیں جو شیخ انچولی نے فرمایا۔
کہتے ہیں ہمارے ہاں طلاق قرآن کے طریقے پر ہے۔
شیخ نے سچ فرمایا۔
وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں اجتہاد شب و روز جاری ہے۔
فرماتے ہیں کہ اہل سنت میں اجتہاد کے دروازے بند ہیں۔ صدیوں سے!
کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں لاکھوں کی تعداد میں ورق ہیں جن کو اہل احباب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
وہ عام مردوں کی رسای سے دور ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں زکوہ سونے اور چاندی پر ہے۔ روپے اور بینک کی رقم پر نہیں کہ جنس تبدیل ہو گی۔
شیخ ایک کتاب لڑکے کو دیتے ہیں جو مکالمہ ہے ایرانی عالم اور الازہر یورنیورسٹی کے عالم کے درمیان۔
کہتے ہیں مطالعہ کے بعد آیں۔
لڑکا مصافحہ کر کے گاڑی کی راہ لیتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا کتاب کے مطالعے کے بعد شیخ نیپا کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری

شیخ نیپا - سو لفظوں کی کہانی
شیخ نے پچھلی دفعہ چلتے چلتے کہا تھاکہ اب لڑکے سے شیخ کے گھر پر ملاقات ہو گی اور کتاب دی۔
کتاب بوجہ اخلاص اور حب اہلبیت میں دی گی۔
لیکن کتاب جعلی اور گڑھی ہوی تھی۔
صحف ابرہیم اور ابراہیم آگے تھے تو زبور اور داود کی کیا ضرورت؟
ابرہیم کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کو زمین پسند آ گی سو انہوں نے صحف ابراہیم میں تبدیلی کی تاکہ زمین انکے پاس رہے۔
زبور آگی تھی توریت اور موسی کی کیا ضرورت؟
داود کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کوحکومت پسند آ گی سو انہوں نے زبور میں تبدیلی کی تاکہ حکومت انکے پاس رہے۔
توریت آ گی تھی تو انجیل اور عیسی کی کیا ضرورت؟
موسی کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کو اپنی بڑای پر غرور ہو گیا تھا سو انہوں نے توریت میں تبدیلی کی تاکہ فخر سلامت رہے۔
انجیل آگی تھی تو محمد عربی اور قرآن کی کیا ضرورت؟
عیسی کے رفع آسمانی کے بعد شاید کچھ مردوں میں زہد اتنا بڑھا کہ انہوں نے انجیل میں تبدیلی کی تاکہ رہبانیت میں پناہ ملے۔
قرآن آ گیا اور اسکی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لے لی۔
اب محمد عربی کے پردہ فرمانے کے بعد لوگوں نے قرآن پر کتابیں لکھیں۔ لوگوں نے ان کتابوں کے رد میں کتابیں لکھیں۔ کتابوں کے نام وہی رکھے جو اچھی کتاب کے تھے لیکن اندر کچھ لکھ دیا کچھ اڑا دیا۔ کچھ نے کتابیں لکھیں جن میں محمد عربی کی کہی گی باتیں تھیں۔ کچھ نے اس سے ملتی جلتی کتابیں لکھیں جو باتیں محمد عربی نے نہ کہیں تھیں۔ان سب مردوں کا مقصد بھی وہی تھا، دنیا۔ کسی کو حکومت عزیز تھی۔ کسی کو حکومت گرانا مقصود تھا۔کسی کو حکومت سے خوف تھا۔ کسی کو حکومت سے مال چاہیے تھا۔ کسی کے اندر اتنی عزیمیت نہ تھی کہ لکھ کر اپنی جان گنواتا یا قید ہوتا۔ لڑکے نے اس قسم کی درجنوں کتابیں دیکھیں تھیں لیکن ان کتب کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
الازہر فاطمید کے دور کی ہزار سالہ پرانی یادگار ہے۔یہ چودہویں اسماعیلی امام ال معیذ کے کہنے پر ایک ہزار سال قبل بنی۔
شیخ کی کتاب میں الازہر یورنیورسٹی کے شیخ ایک ایرانی شیخ سے سوال کرتے ہیں۔
یوں یہ خط و کتابت جاری رہتی ہے اور بالآخر ایک کتاب کی صورت میں شایع کر دی جاتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں۔
یہ کتاب پڑھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصری شیخ بھی دراصل ایک ایرانی عالم ہیں۔
مصری شیخ کے سوال اسقدر بودے ہیں کہ الازہر تو کجا کوی درس نظامی کا طالب علم بھی اس سے بہتر انداز میں سوال کرے۔
کتاب کا مقصد وہی دنیا یا کسی حکومت کا فروغ اور بس۔
لڑکا گارڈ کو سلام کرتا ہے۔ اور شیخ کا پوچھتا ہے۔
شیخ عراق گے ہوے تھے۔
لڑکا کتاب گارڈ کو واپس دیتا ہے اور اب اسکے قدم گاڑی کی جانب تھے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکاشیخ عایشہ منزل کی امام بارگاہ پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری
 
Top