عبدالحسیب

محفلین
تقریباً ایک دہائی قبل ایک امریکی سرکاری عہدیدار نے اپنی سوانحِ حیات شائع کی۔ اس کتاب نے عالمی سطح پر ہونے والے معاشی و تجارتی معاہدوں کے متعلق حیرت انگیز انکشافات کیے۔جون پرکنس، ایک امریکی خفیہ ادارے کےایک اعلیٰ افسر کی تصنیف کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن وہ سوالات یا انکشافات جو اس کتاب نے کیے تھے ان کو محض ایک اچھی تخلیق یا محض'افسانہ' سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔۔ 'کنفیشنس آف این ایکنومک ہٹ مین' ایک نہایت ہی خفیہ سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔ جس میں عالمی برادری میں تجارت بین الممالک ، خصوصاً ترقی یافتہ اور غریب ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے پیچھے کارفرما اصل مقصد کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں اس کتاب کے صفحات اُلٹنے کا اتفاق ہوا۔اوراق شمار کرتے وقت یہ محسوس ہوا کہ کم از کم اس کتاب کا مختصر خلاصہ ہی شریک محفل کروں لیکن اپنی کوتاہیوں اور کچھ غیر ضروری مصروفیات کی حیلہ جوئی سے خود کو مطمئن کر لیا کہ 'ہم عدیم الفرصت' ہیں۔ اور آج بھی خود کو 'وعدہ فردا' پر ٹال رہا ہوں۔ بہر کیف یہ چند سطریں سیاہ کرنے کا مقصد یہ کہ دو روز قبل ایک مقامی ویب سائٹ نے ایک حیرت انگیز خبر شائع کی۔ اس خبر کے عنوان پر نظر پڑتے ہی جون پرکنس کی کتاب یاد آگئی۔ دراصل دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ جون پرکنس نے ایک دہائی قبل 'ایکنومک ہٹ مین' کا کردار تخلیق کیا تھا تو آج 'کوبرا پوسٹ' نے ' آن لائن ہٹ مین' نامی ایک مخلوق کی دریافت کی۔اس مخلوق کی دریافت نے ملک کے سیاسی خیموں میں افراتفری مچا دی ہے۔ خبر کی تفصیل میں جانے پر محسوس ہوا کہ اس مخلوق کو صرف سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنا زیادتی ہے۔ اس کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے۔ خیر مزید سیاہی بکھیرنے سے بہتر ہے کہ اہل علم و دانش کی آراء سے مستفید ہوں۔
والسلام
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حسیب بھائی پڑھے بغیر تو کچھ بھی عرض کرنے کی صورت نہیں ہے۔۔۔۔ لہذا میں بھی اہل علم و دانش کی آراء کا منتظر ہوں۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ تو سوشل میڈیا پر پرانی بات ہوئی کہ فیک پروفائل بنا کر کسی کو نقصان دینا یا پھر فرضی لائکس اور فرضی فینز کی مدد سے یہ سب کچھ کرنا۔ پہلے یہ کام محض تجارتی ادارے اپنی سیلز کو بڑھانے یا زیادہ سے زیادہ اشتہارات کی مدد سے آمدنی بڑھانے کے لئے کرتے تھے، اب اسے سیاست کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے :)
معلوماتی بے شک ضرور ہوگا بہت سارے دوستوں کے لئے
 

عبدالحسیب

محفلین
یہ تو سوشل میڈیا پر پرانی بات ہوئی کہ فیک پروفائل بنا کر کسی کو نقصان دینا یا پھر فرضی لائکس اور فرضی فینز کی مدد سے یہ سب کچھ کرنا۔ پہلے یہ کام محض تجارتی ادارے اپنی سیلز کو بڑھانے یا زیادہ سے زیادہ اشتہارات کی مدد سے آمدنی بڑھانے کے لئے کرتے تھے، اب اسے سیاست کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے :)
معلوماتی بے شک ضرور ہوگا بہت سارے دوستوں کے لئے
بہت شکریہ قیصرانی بھائی ۔ بے شک اس طرح کے کام کافی عرصہ سے ہو رہے ہیں لیکن اب یہ صرف انفرادی طور پر نہیں رہ گیا۔ اب مخصوص ادارے یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔اور صرف سیاسی مقاصد کے لیے نہیں۔ بلکہ مذہبی فرقہ واریت کو بھی اسی طرح خوب پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں یہاں ایک افواہ پھیل گئی کہ حیدرآباد میں ہند پاک کرکٹ مقابلہ کے بعد پاکستان کا پرچم لہرایا گیا اور اکثریت مخالف نعرہ بازی بھی ہوئی۔ دلیل کے طور پر سوشیل سائٹس پر ایک ویڈیو بھی برق رفتار سے شئیر کی گئی۔ شر پسندی کی انتہا دیکھئے کہ وہ وڈیو 'حیدرآباد، سندھ ' کا تھا۔اس میں اکثریت مخالف نعرے کی ملاوٹ کر کے شر پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ حال ہی میں مظفر نگر فسادات میں بھی اسی قسم کا معاملہ سامنے آیا۔ کوبرا پوسٹ کے سٹرنگ آپریشن میں اسی طرح کے کئی معاملات سامنے آئے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



کنفيشن آف اين اکانومک ہٹ مين – تصوير کا دوسرا رخ

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ آپ نے جس کتاب کا حوالہ ديا ہے وہ امريکہ ميں ہی چھپی ہے اور اس کی تشہير بھی يہاں پر ہوئ ہے۔ کتاب کے مصنف پر اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کی پاداش ميں کوئ پابندياں نہيں لگيں۔ امريکی آئين ميں موجود قوانين اور حقوق اس بات کو يقينی بناتے ہيں کہ کوئ بھی شخص واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص سوچ اور نقطہ نظر کے اظہار ميں مکمل آزاد ہے۔


ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ کسی کتاب يا بيان کی شکل ميں امريکی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں۔


امريکہ کا وہ آئين جو اس بات کو یقينی بناتا ہے کہ ہر شخص اپنے رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے، وہی آئين ہر شخص کو يہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ قانون کی عدالت ميں اپنے الزامات کو ثابت کر کے گناہ کار کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے ہيں۔ اس کتاب کے مصنف کے پاس بھی يہ موقع موجود تھا ليکن انھوں نے اپنے الزامات کو قانون کی عدالت ميں ثابت کرنے کے مقابلے ميں کتاب کی اشاعت کو ترجيح دی۔


اپنی کتاب ميں مصنف پرکنز نے يہ دعوی کيا ہے کہ انھيں اين – ايس – اے نے "اکنامک ہٹ مين" کی حيثيت سے منتخب کيا تھا تاکہ وہ دانستہ مختلف ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر انھيں امريکہ کے زير اثر رکھ سکيں۔ يہ ايک من گھڑت کہانی ہے۔ حقائق اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی کرتے ہيں۔ اس کے برعکس امريکہ نے ماضی کی کئ دہائيوں ميں ايسے اقدامات اور منصوبوں کی حوصلہ افزائ کی ہے جن کا واحد مقصد غريب ممالک کے قرضے معاف کرنا تھا۔


http://www.imf.org/external/np/exr/facts/hipc.htm

پرکنز نے يہ دعوی کيا کہ انھوں نے يہ سب کچھ اين – ايس – اے کے ایماء پر کيا تھا۔ ليکن اس الزام کے ضمن ميں انھوں نے کوئ ثبوت فراہم نہيں کيا۔ انھوں نے اپنی کتاب ميں کہيں بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ اين – ايس – اے ميں کسی شخص نے انھيں زبانی يا تحریری طور پر کوئ ہدايات جاری کی تھيں۔


شايد پرکنز اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اين – ايس – اے کوئ معاشی ادارہ نہيں بلکہ کوڈ بنانے اور توڑنے سے متعلق ايک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے دو مقاصد ہيں۔


امريکی انفارميشن سسٹمز کو ناقابل تسخير بنانے کے ليے نظام وضح کرنا۔


مخالفين کے سسٹمز اور کوڈز میں کمزورياں تلاش کرنا۔


ان دونوں مقاصد کا دوسرے ممالک کی نجی کمپنیوں ميں معاشی ماہرين کی تعنياتی اور ان ممالک کو قرضوں ميں جکڑنے سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔


پرکنز نے سازشی کہانیوں سے اپنی رغبت کا اظہار جنوری 10 2006 کو واشنگٹن کے ايک بک سٹور پر اپنی کتاب کے حوالے سے ايک نمائش کے دوران بھی کيا۔ ايک موقع پر انھوں نے مبينہ طور پر يہ دعوی بھی کيا کہ امريکی حکومت صدر کينيڈی، سينيٹر رابرٹ کينيڈی، مارٹن لوتھر کنگ جونير، بيٹل گروپ کے جان لينن اور ايسے بے شمار سينيٹرز کی اموات کی ذمہ دار ہے جو جہاز کے مختلف حادثات ميں جاں بحق ہوئے تھے۔


پرکنز نے خود اس بات کا اعتراف کيا ہے کہ ان کی کتاب کی مقبوليت کی وجہ يہ ہے کہ يہ ايک دلچسپ جاسوسی کہانی کی طرز پر لکھی گئ ہے جو تيسری دنيا کے ممالک کو معاشی طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے عام تاثر اور تصورات کو کاميابی سے استعمال کرتی ہے۔ يہ درست ہے کہ پرکنز نے معاشی ترقی اور تيزی سے پروان چڑھتی جديد دنيا کے نتيجے ميں ترقی پذير ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے کجھ جائز سوالات اپنی کتاب ميں اٹھائے ہيں۔ ليکن ان کا يہ دعوی کہ وہ اين – ايس – اے کے ايما پر ايک "اکنامک ہٹ مين" کا کردار ادا کر رہے تھے، محض تخلياتی ہے۔
پرکنز کے دعوے کے برعکس امريکہ حکومت نے اپنی پاليسی پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبے کئ غريب ممالک کے قرضوں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھائے ہيں۔


سال 2004 ميں صدر بش نے کئ غريب ممالک کے سرکاری قرضوں کی منسوخی کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس کے ايک سال کے بعد مئ 2005 ميں گلين ايگلز کانفرنس کے دوران جی – ايٹ ممالک نے 18 غريب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے علاوہ نائيجيريا کے 17 بلين ڈالرز کے قرضے معاف کيے جو کہ تاريخ میں معاف کيا جانے والا سب سے بڑا قرضہ ہے۔


ستمبر 2005 ميں يو – ايس ٹريجری ڈيپارٹمنٹ ميں عالمی امور کے انڈر سيکرٹری ٹموتھی ايڈمز نے اس پروگرام کی تفصيلات کچھ يوں بيان کيں


"اس پلان کے نتيجے ميں 18 ايچ – آئ – پی – سی ممالک قرضے کی معافی کے فوری حقدار ہيں۔ ان ممالک ميں بينن، بوليويا، برکينا فاسو، ايتھوپيا، گھانا، گيانا، ہونڈورس، مڈاگاسکر، مالی، موری تانيہ، موضمبيگ، نکراگوا، نايجر، روانڈا، سينی گال، تنزانيہ، يوگنڈا اور زمبيا شامل ہيں۔ ايچ – آئ – پی – سی کے باقی ممالک بھی مخصوص ضابطوں کی تکميل کے بعد اس فہرست ميں شامل ہو جائيں گے۔ ان 18 ممالک کو معاف کيے جانے والے قرضہ 40 بلين ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس ساری عمل کی تکميل تک يہ عدد 60 بلين ڈالرز سے تجاوز کر جائے گا۔"
پرکنز کی سوچ، نقطہ نظر، تخيلاتی اور طلسمی دنياؤں سے ان کی رغبت کو سمجھنے کے لیے ان کی ديگر تنصيفات پر بھی ايک نظر ڈاليں۔

• Psychonavigation: “first hand accounts of how diverse tribal cultures travel beyond time and space by means of visions and dream wanderings;”

• Shapeshifting: “shamanistic techniques for global and personal transformation;” and

• The World Is As You Dream It: “shamanistic techniques from the Amazon and Andes.”



جہاں تک امريکی حکومت کے ايما پر پرکنز کے منصوبوں کا تعلق ہے تو حقائق ان کی خوابی دنيا سے يکسر مختلف ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عبدالحسیب

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



کنفيشن آف اين اکانومک ہٹ مين – تصوير کا دوسرا رخ

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ آپ نے جس کتاب کا حوالہ ديا ہے وہ امريکہ ميں ہی چھپی ہے اور اس کی تشہير بھی يہاں پر ہوئ ہے۔ کتاب کے مصنف پر اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کی پاداش ميں کوئ پابندياں نہيں لگيں۔ امريکی آئين ميں موجود قوانين اور حقوق اس بات کو يقينی بناتے ہيں کہ کوئ بھی شخص واقعات کے حوالے سے اپنی مخصوص سوچ اور نقطہ نظر کے اظہار ميں مکمل آزاد ہے۔


ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ کسی کتاب يا بيان کی شکل ميں امريکی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں۔


امريکہ کا وہ آئين جو اس بات کو یقينی بناتا ہے کہ ہر شخص اپنے رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہے، وہی آئين ہر شخص کو يہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ آپ قانون کی عدالت ميں اپنے الزامات کو ثابت کر کے گناہ کار کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے ہيں۔ اس کتاب کے مصنف کے پاس بھی يہ موقع موجود تھا ليکن انھوں نے اپنے الزامات کو قانون کی عدالت ميں ثابت کرنے کے مقابلے ميں کتاب کی اشاعت کو ترجيح دی۔


اپنی کتاب ميں مصنف پرکنز نے يہ دعوی کيا ہے کہ انھيں اين – ايس – اے نے "اکنامک ہٹ مين" کی حيثيت سے منتخب کيا تھا تاکہ وہ دانستہ مختلف ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر انھيں امريکہ کے زير اثر رکھ سکيں۔ يہ ايک من گھڑت کہانی ہے۔ حقائق اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی کرتے ہيں۔ اس کے برعکس امريکہ نے ماضی کی کئ دہائيوں ميں ايسے اقدامات اور منصوبوں کی حوصلہ افزائ کی ہے جن کا واحد مقصد غريب ممالک کے قرضے معاف کرنا تھا۔


http://www.imf.org/external/np/exr/facts/hipc.htm

پرکنز نے يہ دعوی کيا کہ انھوں نے يہ سب کچھ اين – ايس – اے کے ایماء پر کيا تھا۔ ليکن اس الزام کے ضمن ميں انھوں نے کوئ ثبوت فراہم نہيں کيا۔ انھوں نے اپنی کتاب ميں کہيں بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ اين – ايس – اے ميں کسی شخص نے انھيں زبانی يا تحریری طور پر کوئ ہدايات جاری کی تھيں۔


شايد پرکنز اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اين – ايس – اے کوئ معاشی ادارہ نہيں بلکہ کوڈ بنانے اور توڑنے سے متعلق ايک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے دو مقاصد ہيں۔


امريکی انفارميشن سسٹمز کو ناقابل تسخير بنانے کے ليے نظام وضح کرنا۔


مخالفين کے سسٹمز اور کوڈز میں کمزورياں تلاش کرنا۔


ان دونوں مقاصد کا دوسرے ممالک کی نجی کمپنیوں ميں معاشی ماہرين کی تعنياتی اور ان ممالک کو قرضوں ميں جکڑنے سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہے۔


پرکنز نے سازشی کہانیوں سے اپنی رغبت کا اظہار جنوری 10 2006 کو واشنگٹن کے ايک بک سٹور پر اپنی کتاب کے حوالے سے ايک نمائش کے دوران بھی کيا۔ ايک موقع پر انھوں نے مبينہ طور پر يہ دعوی بھی کيا کہ امريکی حکومت صدر کينيڈی، سينيٹر رابرٹ کينيڈی، مارٹن لوتھر کنگ جونير، بيٹل گروپ کے جان لينن اور ايسے بے شمار سينيٹرز کی اموات کی ذمہ دار ہے جو جہاز کے مختلف حادثات ميں جاں بحق ہوئے تھے۔


پرکنز نے خود اس بات کا اعتراف کيا ہے کہ ان کی کتاب کی مقبوليت کی وجہ يہ ہے کہ يہ ايک دلچسپ جاسوسی کہانی کی طرز پر لکھی گئ ہے جو تيسری دنيا کے ممالک کو معاشی طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے عام تاثر اور تصورات کو کاميابی سے استعمال کرتی ہے۔ يہ درست ہے کہ پرکنز نے معاشی ترقی اور تيزی سے پروان چڑھتی جديد دنيا کے نتيجے ميں ترقی پذير ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے کجھ جائز سوالات اپنی کتاب ميں اٹھائے ہيں۔ ليکن ان کا يہ دعوی کہ وہ اين – ايس – اے کے ايما پر ايک "اکنامک ہٹ مين" کا کردار ادا کر رہے تھے، محض تخلياتی ہے۔
پرکنز کے دعوے کے برعکس امريکہ حکومت نے اپنی پاليسی پر عمل کرتے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے دبے کئ غريب ممالک کے قرضوں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھائے ہيں۔


سال 2004 ميں صدر بش نے کئ غريب ممالک کے سرکاری قرضوں کی منسوخی کا باقاعدہ اعلان کيا تھا۔ اس کے ايک سال کے بعد مئ 2005 ميں گلين ايگلز کانفرنس کے دوران جی – ايٹ ممالک نے 18 غريب ممالک کے قرضے معاف کرنے کے علاوہ نائيجيريا کے 17 بلين ڈالرز کے قرضے معاف کيے جو کہ تاريخ میں معاف کيا جانے والا سب سے بڑا قرضہ ہے۔


ستمبر 2005 ميں يو – ايس ٹريجری ڈيپارٹمنٹ ميں عالمی امور کے انڈر سيکرٹری ٹموتھی ايڈمز نے اس پروگرام کی تفصيلات کچھ يوں بيان کيں


"اس پلان کے نتيجے ميں 18 ايچ – آئ – پی – سی ممالک قرضے کی معافی کے فوری حقدار ہيں۔ ان ممالک ميں بينن، بوليويا، برکينا فاسو، ايتھوپيا، گھانا، گيانا، ہونڈورس، مڈاگاسکر، مالی، موری تانيہ، موضمبيگ، نکراگوا، نايجر، روانڈا، سينی گال، تنزانيہ، يوگنڈا اور زمبيا شامل ہيں۔ ايچ – آئ – پی – سی کے باقی ممالک بھی مخصوص ضابطوں کی تکميل کے بعد اس فہرست ميں شامل ہو جائيں گے۔ ان 18 ممالک کو معاف کيے جانے والے قرضہ 40 بلين ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ اس ساری عمل کی تکميل تک يہ عدد 60 بلين ڈالرز سے تجاوز کر جائے گا۔"
پرکنز کی سوچ، نقطہ نظر، تخيلاتی اور طلسمی دنياؤں سے ان کی رغبت کو سمجھنے کے لیے ان کی ديگر تنصيفات پر بھی ايک نظر ڈاليں۔

• Psychonavigation: “first hand accounts of how diverse tribal cultures travel beyond time and space by means of visions and dream wanderings;”

• Shapeshifting: “shamanistic techniques for global and personal transformation;” and

• The World Is As You Dream It: “shamanistic techniques from the Amazon and Andes.”



جہاں تک امريکی حکومت کے ايما پر پرکنز کے منصوبوں کا تعلق ہے تو حقائق ان کی خوابی دنيا سے يکسر مختلف ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اس معلوماتی شراکت کے لیے بے حد شکریہ فواد بھائی۔
بے شک جون پرکنس کی تصنیف ایک جاسوسی طرز پر لکھی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ محظ ایک تخیل ہے۔ ہاں اس کتاب پر لفظ بہ لفظ اتفاق کرنا بھی مغالطہ ہی ہوگا۔ کتاب کے آخر میں جو باب وار حوالہ جات موجود ہیں اس سے اتنا تو اندازہ ہوتا ہے کہ مکمل نہ صحیح کتاب میں کچھ تو حقائق موجود ہیں۔ بہر حال فی الوقت موضوع 'ایکنومک ہٹ مین 'نہیں بلکہ 'آن لائن ہٹ مین'ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی 'ایکنومک ہٹ مین' پر بھی گفتگو ہو۔
والسلام
 

عبدالحسیب

محفلین
satire ہوتے ہوئے بھی اس وڈیو میں کافی حد تک سچ بیان کیا گیا ہے۔
درحقیقت،عوامی سطح پر حق بیانی کے لیے محض یہی ایک وسیلہ نظر آتا ہے آج کل۔ ورنہ تلخ یا سادہ بیانی کو لوگ 'احمقانہ' کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔
 
Top