آم ‘ اے سی اور آہ ۔۔۔از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔روزنامہ آج پشاور

Dilkash

محفلین
آم ‘ اے سی اور آہ

میرا ایک دوست ہے جو میری طرح آموں کا بہت شوقین ہے‘ بڑے دنوں کے بعد ملا تو میں نے پوچھا آموں کا سلسلہ کیسے چل رہا ہے۔ اس نے کہا آم بہت مہنگے اور میری قوت خرید سے باہر ہو گئے‘ پھر اس نے کہا آم شیڈنگ شروع کر دی ہے‘ آموں کی جگہ ٹھنڈی ہوا پھانک رہا ہوں اور گرم آہیں بھر رہا ہوں۔

میں نے کہا مطلب؟ اس نے کہا ایک گولک خرید کر اس میں آموں کے پیسے ڈالتا ہوں اور رب کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے گرمی کا ایسا شدید موسم پاکستان کو بخشا۔ مہینے کے آخر میں بجلی کا بل آتا ہے تو گولک توڑ کر اس میں سے آموں کی بچت نکال کر اور آدھے پیسے اپنی طرف سے ڈال کر بل داخل کر آتا ہوں۔ میں نے کہا آم پسندی کا کیا کرتے ہو‘ اس نے کہا شام کو آموں کی ریڑھیوں کے آس پاس منڈلا کر ہر قسم کے آموں کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ اس نے کہا بھائی! اب آم ہمارے ہاتھ سے گئے

آموں کے بدلے ٹھنڈی ہوا خریدتے ہیں‘ آم کی جگہ اے سی‘ سودا مہنگا ہے‘ دل کو خوش رکھنے کے لئے آموں کی قسموں میں سے کیڑے نکالتا ہوں‘ کبھی سوچتا ہوں شوگر ہو جائے گی‘ کبھی ان غریبوں کے بارے میں سوچتا ہوں جنہیں آم میسر ہیں نہ ٹھنڈی ہوا بلکہ جن کے گھروں میں بجلی ہی نہیں ہے۔ پھر اس نے کہا تم کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا اپنا بھی کچھ یہی حال ہے

سوچتا ہوں آموں کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے مگر ٹھنڈی ہوا کے بغیر کھوپڑی ابلنے لگتی ہے‘ اس لئے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر رکھا ہے بلکہ ایک وقت کا کھانا بچانے کے لئے گوشت خوری سے بھی پرہیز اختیار کر رکھا ہے یا پھر 70 روپے فی کلو دہی سے گزارا کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا یہ بڑے مشکل سودے اور سمجھوتے ہیں‘ میں نے کہا مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں‘ رفتہ رفتہ آدمی عادی ہو جاتا ہے جس طرح ہمارا بچپن بغیر بجلی کے گزرا‘ پنکھے کا نام و نشان نہ تھا‘ سکولوں کے کمرے میں بڑے بڑے موٹے کپڑے کے پنکھے ہوتے تھے جو کلاس کے وسط میں لگے ہوتے تھے

ان کے دونوں سروں کے ساتھ رسیاں بندھی ہوتی تھیں‘ دو طالب علم باری باری ان کو کھینچتے رہتے تھے‘ ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے اور پسینوں میں ڈوب جاتے تھے کہ ان پنکھوں کی ہوا رسی کھینچنے والوں کو نہیں لگتی تھی۔ ٹھنڈے پانی اور برف کا تصور نہ تھا‘ شہر کے بعض حصوں میں بعض نیک لوگ ٹھنڈے کھوہ کھدوا رکھتے تھے‘ ان کنوؤں کے سامنے ایسا ہجوم ہوتا تھا جیسے کوئی نئی فلم لگی ہو‘ گھڑے‘ بالٹیاں‘ لوٹے‘ کٹورے لئے بڑے بچے خواتین آتی تھیں‘ بالعموم بچوں اور خواتین کو آؤٹ آف ٹرن پانی دے دیا جاتا تھا بچہ ہونے کے ناطے یہ لاٹری بالعموم ہمارے نام ہی نکلتی تھی۔

اکثر ان کنوؤں پر پانی کے لئے لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور گھڑے ایک دوسرے کے سر پر مار کر سروں اور گھڑوں کو پھوڑا جاتا تھا۔ گرمی اتنی ہی ہوتی تھی لوگ منجے ڈال کر کوٹوں پر سوتے‘ نیچے مزری کی ایک پھوڑی ڈالتے تھے‘ جب اتفاقاً رات کو بارش ہو جاتی تو اسی پھوڑی کو نیچے سے نکال کر بطور چھتری اوڑھ کر سو جاتے تھے۔ عجیب زندگی تھی‘ اب سوچیں تو ہول آتا ہے

اس زمانے میں لوگوں میں صبر بھی تھا‘ جب پنکھا نہیں تھا تو نہیں تھا‘ اے سی کا تصور تک نہ تھا مگر آم ایک روپے کے دو تین سیر مل جاتے تھے‘ تربوز ٹھنڈا کرنے کا کوئی سامان نہ تھا اس لئے رات کو تربوز کے ساتھ رسی باندھ کر اسے کسی ٹھنڈے کنوئیں میں لٹکا دیا جاتا تھا‘ کبھی تو تربوز و رسی دونوں غائب ہوتے تھے۔

صبح کے وقت لوگ ٹھنڈا پانی پیتے تھے یعنی گڑ کے شربت‘ رات کی بھیگی نرم میٹھی خوبانیاں کھاتے تھے‘ اب جب سب کچھ موجود ہے تو آم ناقابل خرید اور اے سی کا بل ناقابل ادائیگی ہو گیا ہے۔ اے سی کے سامنے سے ہٹیں تو بیماروں کا بخار تیز ہو جاتا ہے‘ باہر سے آؤ تو کپڑے جسموں سے چپکے ہوتے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگلے زمانے کو برا کہوں یا آج کے زمانے کو کوسوں۔ یہ کہانیاں صدیوں سے اسی طرح چلتی آ رہی ہیں اور اسی طرح جاری رہیں گی‘ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہوں گے۔

Dated : 2010-07-18 00:00:00
 

Dilkash

محفلین
یہ پاکستان ریلوے ہے


میری ایک شاعر ادیب بہن قدسیہ قدسی سفر‘ سیر و سیاحت کا بڑا شوق رکھتی ہیں‘ دنیا کے کئی ممالک دیکھ چکی ہیں‘ ہمیشہ اچھے موسم میں ہوائی سفر کرتی ہیں۔ پتہ نہیں اس بار ان کے جی میں کیا چرایا کہ اس ہوشربا گرمی کے عالم میں ایران کے سفر پر روانہ ہوئیں وہ بھی بذریعہ پاکستان ریلوے اور آ کر اس سفر کے جو کربناک قصے سنائے ہیں ان سے ہر وہ شخص واقف ہے جس نے کبھی ریل کا سفر کیا ہو۔ میں نے بیس پچیس سال ہو گئے ریل کا سفر چھوڑ رکھا ہے‘ بیچ میں ایک مرتبہ بذریعہ ریل کار راولپنڈی تک جانے کا اتفاق ہوا مگر راستے میں کیمبل پور سے ہی واپس لوٹ آیا اور پشاور سٹیشن پہنچتے ہی کانوں کو ہاتھ لگایا کہ آئندہ ریل کا سفر نہیں کروں گا۔

ٹرین چلی تھی تو تھوڑی دیر بعد واش روم جانے کی ضرورت پیش آئی‘ اندر گھسا تو دروازے نے بند ہونے سے انکار کر دیا‘ نہ کنڈے نہ چٹخنیاں‘ دروازہ پکڑ کر بند کرتا تو حاجت غائب‘ دروازہ چھوڑتا تو ستر غائب۔ پانی کا نلکا کھولا تو اندر سے گرم گرم آہیں برآمد ہوئیں‘ بجلی جلانے کے لئے سوئچ کو ہاتھ لگا تو اس نے کرنٹ مارا‘ اوپر دیکھا تو بلب غیر حاضر تھا‘ رو دھو کر واپس نکل آیا۔ ریلوے کی چھک چھک مجھے بھی اچھی لگتی ہے اور میرا استاد بشیر تو اس پر فدا ہے‘ وہ فی سبیل اللہ چھٹی کے دن جب تک ریل کار چلتی تھی اس میں بیٹھ کر پنڈی تک جاتا اور پھر سٹیشن سے ہی واپس آ جاتا۔

چھک چھک سے دل و دماغ و روح کو بھر کر‘ ہماری اس بہن کو بھی اس سے زیادہ برے حالات میں سفر کرنا پڑا۔ خود کردہ را علاجے نیست اور وہ کس کے آکھے میں آ کر پشاور سے کوئٹہ کے لئے روانہ ہو گئیں‘ وہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ اکیسویں صدی آ گئی ہے‘ کوئی تبدیلی ریلوے کے اندر بھی آئی ہو گی مگر معاملہ پہلے سے دگرگوں ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایک کئی صفحات پر مشتمل اپنی سفری روداد لکھ بھیجی ہے‘ میں اسے من و عن تو نہیں لکھ سکتا‘ اس میں وزیر ریلوے کی شان میں قصائد بھی شامل ہیں چونکہ میں ڈرپوک ہوں اور پشاور سے تعلق رکھنے والے وزیر ریلوے سے سخت ڈرتا ہوں اس لئے اس حصے کو چھوڑ دیتا ہوں‘ وہ بے چارے تو خود اپنے محکمے اور حکومت کے ہاتھوں نالاں ہیں جو قبل از مسیح کے زمانے کے انجن تبدیل کرنے پر تیار نہیں۔

انجن اس قدر بوسیدہ اور ازکار رفتہ ہیں کہ کسی قدیم عجائب گھر میں رکھنے کے لائق ہیں یا پھر تول کر بیچنے کے۔ ریلوے کا خسارہ 40 ارب روپے تک پہنچ گیا‘ اکثر ٹرینیں گھاٹے میں چل رہی ہیں اور وقت کی پابندی نام کی کوئی چڑیا اس نظام میں نہیں پائی جاتی۔ میرے ایک ستم ظریف دوست کا کہنا ہے کہ وہ ایک مرتبہ ریلوے سٹیشن پر کسی کو لینے کے لئے گئے تو ٹرین وقت سے پہلے آ گئی‘ اس نے استعجاب کا اظہار کیا تو معلوم ہوا کہ اس ٹرین نے کل اس وقت پہنچنا تھا صرف 24 گھنٹے لیٹ ہے۔ بہن قدسیہ کی ٹرین بھی جگہ جگہ رکتی ہچکولے کھاتی‘ پتہ نہیں کتنی جگہ رکی اور سبی و جیکب آباد پہنچ کر انجن نے دانت دکھا دیئے اور چلنے سے انکار کر دیا۔

اندازہ کریں دو خواتین اور ایک مرد بلکہ ساری ٹرین کی سواریوں کا چوبیس گھنٹے سبی و جیکب آباد میں کیا حشر ہوا ہو گا۔ قدسیہ صاحبہ کے شوہر عابد صاحب کی ڈیوٹی یہ بھی تھی کہ وہ واش روم کا دروازہ زور سے پکڑ کر کھڑے رہیں دھکے کھائیں اور ان کی ساتھی خواتین واش روم استعمال کریں۔ وہاں ہر سواری دوسری سواری سے درخواست کرتی تھی کہ خدارا آ کر ذرہ دروازہ باہر سے پکڑیں۔ مجھے برطانیہ کی ٹرینیں یاد آ گئیں جون کے مہینے میں 18 درجہ حرارت تھا‘ ٹرینیں ایسی صاف ستھری کہ آدمی کا جی واش روم سے نکلنے کو نہ چاہے‘ گرم ٹھنڈا پانی‘ بجلی‘ ٹشو پیپر‘ ایئرکنڈیشنر تک کا بندوبست تھا حالانکہ 18 درجہ حرارت میں اے سی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

اس دوران ایک انگریز نے ٹرین اوورسیئر سے کہیں کہہ دیا کہ ان کے اپارٹمنٹ کا اے سی کام نہیں کر رہا ہے‘ یہ سن کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے‘ بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے‘ ہاتھ باندھ کر معافی مانگی‘ ٹھنڈے پانی کی فری بوتلیں بھجوائیں اور تسلی دی کہ میکینک پہلے ہی کام شروع کر چکا ہے۔ گھنٹے آدھ کے بعد اے سی چل پڑا جس کا احساس تک نہ ہوا کیونکہ گرمی تھی ہی نہیں پھر بھی ریلوے آفیسر نے سب سواریوں کو نوید دی کہ آپ کا لندن سے بلیک پول کا کرایہ فری ہو گیا ہے اور انہوں نے ری فنڈ واؤچر سب کو تھما دیئے۔ گاڑی لیٹ ہونے‘ بجلی کے آنے جانے یا پانی اور دوسری سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا

گھڑی کی سوئیاں غلط ہو سکتی ہیں ریلوے کا ٹائم ٹیبل نہیں‘ سب کچھ کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ایک جگہ میں ریلوے کا ٹکٹ خرید رہا تھا خاتون نے سر اٹھا کر میرے سر کی طرف دیکھا اور کہا سینئر سٹیزن اور میرا آدھا کرایہ معاف کر دیا۔ اس نے نہیں پوچھا کہ میری عمر کتنی ہے‘ میرا تعلق کس ملک سے ہے۔ غرض کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔

ٹرین کے سفر کے لحاظ سے یورپ سب سے اچھی جگہ ہے‘ وہاں ہر چند گھنٹوں کے بعد نیا ملک آ جاتا ہے اس لئے سیاحت کرنے والے لوگ رات کو سفر کرتے‘ آرام دہ بستروں میں سوتے اور ہوٹل کا کرایہ بچا لیتے ہیں۔ جس نے یورپ و امریکہ نہیں دیکھا اسے پتہ ہی نہیں ریل کیا ہوتی ہے اور ریل کا سفر کیا ہوتا۔ مجھے اپنی بہن سے دلی ہمدردی ہے بس اس سے وہی کچھ کہنا ہے جو میں سب سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں رہنا ہے تو پاکستانیوں کی طرح رہو‘ ریل کے بے آب و روشنی و کنڈا واش روموں پر گزارا کریں۔

Dated : 2010-07-19 00:00:00
 

فرخ منظور

لائبریرین
شئیر کرنے کا شکریہ دلکش صاحب۔ چونکہ یہ کالم "آپ کا کالم" نہیں ہے اس لئے ایسے کالم "جہانِ نثر" زمرے میں پوسٹ کیا کریں۔ بہت شکریہ!
 
Top