آم ‘ اے سی اور آہ
میرا ایک دوست ہے جو میری طرح آموں کا بہت شوقین ہے‘ بڑے دنوں کے بعد ملا تو میں نے پوچھا آموں کا سلسلہ کیسے چل رہا ہے۔ اس نے کہا آم بہت مہنگے اور میری قوت خرید سے باہر ہو گئے‘ پھر اس نے کہا آم شیڈنگ شروع کر دی ہے‘ آموں کی جگہ ٹھنڈی ہوا پھانک رہا ہوں اور گرم آہیں بھر رہا ہوں۔
میں نے کہا مطلب؟ اس نے کہا ایک گولک خرید کر اس میں آموں کے پیسے ڈالتا ہوں اور رب کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے گرمی کا ایسا شدید موسم پاکستان کو بخشا۔ مہینے کے آخر میں بجلی کا بل آتا ہے تو گولک توڑ کر اس میں سے آموں کی بچت نکال کر اور آدھے پیسے اپنی طرف سے ڈال کر بل داخل کر آتا ہوں۔ میں نے کہا آم پسندی کا کیا کرتے ہو‘ اس نے کہا شام کو آموں کی ریڑھیوں کے آس پاس منڈلا کر ہر قسم کے آموں کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ اس نے کہا بھائی! اب آم ہمارے ہاتھ سے گئے
آموں کے بدلے ٹھنڈی ہوا خریدتے ہیں‘ آم کی جگہ اے سی‘ سودا مہنگا ہے‘ دل کو خوش رکھنے کے لئے آموں کی قسموں میں سے کیڑے نکالتا ہوں‘ کبھی سوچتا ہوں شوگر ہو جائے گی‘ کبھی ان غریبوں کے بارے میں سوچتا ہوں جنہیں آم میسر ہیں نہ ٹھنڈی ہوا بلکہ جن کے گھروں میں بجلی ہی نہیں ہے۔ پھر اس نے کہا تم کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا اپنا بھی کچھ یہی حال ہے
سوچتا ہوں آموں کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے مگر ٹھنڈی ہوا کے بغیر کھوپڑی ابلنے لگتی ہے‘ اس لئے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر رکھا ہے بلکہ ایک وقت کا کھانا بچانے کے لئے گوشت خوری سے بھی پرہیز اختیار کر رکھا ہے یا پھر 70 روپے فی کلو دہی سے گزارا کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا یہ بڑے مشکل سودے اور سمجھوتے ہیں‘ میں نے کہا مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں‘ رفتہ رفتہ آدمی عادی ہو جاتا ہے جس طرح ہمارا بچپن بغیر بجلی کے گزرا‘ پنکھے کا نام و نشان نہ تھا‘ سکولوں کے کمرے میں بڑے بڑے موٹے کپڑے کے پنکھے ہوتے تھے جو کلاس کے وسط میں لگے ہوتے تھے
ان کے دونوں سروں کے ساتھ رسیاں بندھی ہوتی تھیں‘ دو طالب علم باری باری ان کو کھینچتے رہتے تھے‘ ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے اور پسینوں میں ڈوب جاتے تھے کہ ان پنکھوں کی ہوا رسی کھینچنے والوں کو نہیں لگتی تھی۔ ٹھنڈے پانی اور برف کا تصور نہ تھا‘ شہر کے بعض حصوں میں بعض نیک لوگ ٹھنڈے کھوہ کھدوا رکھتے تھے‘ ان کنوؤں کے سامنے ایسا ہجوم ہوتا تھا جیسے کوئی نئی فلم لگی ہو‘ گھڑے‘ بالٹیاں‘ لوٹے‘ کٹورے لئے بڑے بچے خواتین آتی تھیں‘ بالعموم بچوں اور خواتین کو آؤٹ آف ٹرن پانی دے دیا جاتا تھا بچہ ہونے کے ناطے یہ لاٹری بالعموم ہمارے نام ہی نکلتی تھی۔
اکثر ان کنوؤں پر پانی کے لئے لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور گھڑے ایک دوسرے کے سر پر مار کر سروں اور گھڑوں کو پھوڑا جاتا تھا۔ گرمی اتنی ہی ہوتی تھی لوگ منجے ڈال کر کوٹوں پر سوتے‘ نیچے مزری کی ایک پھوڑی ڈالتے تھے‘ جب اتفاقاً رات کو بارش ہو جاتی تو اسی پھوڑی کو نیچے سے نکال کر بطور چھتری اوڑھ کر سو جاتے تھے۔ عجیب زندگی تھی‘ اب سوچیں تو ہول آتا ہے
اس زمانے میں لوگوں میں صبر بھی تھا‘ جب پنکھا نہیں تھا تو نہیں تھا‘ اے سی کا تصور تک نہ تھا مگر آم ایک روپے کے دو تین سیر مل جاتے تھے‘ تربوز ٹھنڈا کرنے کا کوئی سامان نہ تھا اس لئے رات کو تربوز کے ساتھ رسی باندھ کر اسے کسی ٹھنڈے کنوئیں میں لٹکا دیا جاتا تھا‘ کبھی تو تربوز و رسی دونوں غائب ہوتے تھے۔
صبح کے وقت لوگ ٹھنڈا پانی پیتے تھے یعنی گڑ کے شربت‘ رات کی بھیگی نرم میٹھی خوبانیاں کھاتے تھے‘ اب جب سب کچھ موجود ہے تو آم ناقابل خرید اور اے سی کا بل ناقابل ادائیگی ہو گیا ہے۔ اے سی کے سامنے سے ہٹیں تو بیماروں کا بخار تیز ہو جاتا ہے‘ باہر سے آؤ تو کپڑے جسموں سے چپکے ہوتے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگلے زمانے کو برا کہوں یا آج کے زمانے کو کوسوں۔ یہ کہانیاں صدیوں سے اسی طرح چلتی آ رہی ہیں اور اسی طرح جاری رہیں گی‘ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہوں گے۔
Dated : 2010-07-18 00:00:00
میرا ایک دوست ہے جو میری طرح آموں کا بہت شوقین ہے‘ بڑے دنوں کے بعد ملا تو میں نے پوچھا آموں کا سلسلہ کیسے چل رہا ہے۔ اس نے کہا آم بہت مہنگے اور میری قوت خرید سے باہر ہو گئے‘ پھر اس نے کہا آم شیڈنگ شروع کر دی ہے‘ آموں کی جگہ ٹھنڈی ہوا پھانک رہا ہوں اور گرم آہیں بھر رہا ہوں۔
میں نے کہا مطلب؟ اس نے کہا ایک گولک خرید کر اس میں آموں کے پیسے ڈالتا ہوں اور رب کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے گرمی کا ایسا شدید موسم پاکستان کو بخشا۔ مہینے کے آخر میں بجلی کا بل آتا ہے تو گولک توڑ کر اس میں سے آموں کی بچت نکال کر اور آدھے پیسے اپنی طرف سے ڈال کر بل داخل کر آتا ہوں۔ میں نے کہا آم پسندی کا کیا کرتے ہو‘ اس نے کہا شام کو آموں کی ریڑھیوں کے آس پاس منڈلا کر ہر قسم کے آموں کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ اس نے کہا بھائی! اب آم ہمارے ہاتھ سے گئے
آموں کے بدلے ٹھنڈی ہوا خریدتے ہیں‘ آم کی جگہ اے سی‘ سودا مہنگا ہے‘ دل کو خوش رکھنے کے لئے آموں کی قسموں میں سے کیڑے نکالتا ہوں‘ کبھی سوچتا ہوں شوگر ہو جائے گی‘ کبھی ان غریبوں کے بارے میں سوچتا ہوں جنہیں آم میسر ہیں نہ ٹھنڈی ہوا بلکہ جن کے گھروں میں بجلی ہی نہیں ہے۔ پھر اس نے کہا تم کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا اپنا بھی کچھ یہی حال ہے
سوچتا ہوں آموں کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے مگر ٹھنڈی ہوا کے بغیر کھوپڑی ابلنے لگتی ہے‘ اس لئے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر رکھا ہے بلکہ ایک وقت کا کھانا بچانے کے لئے گوشت خوری سے بھی پرہیز اختیار کر رکھا ہے یا پھر 70 روپے فی کلو دہی سے گزارا کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا یہ بڑے مشکل سودے اور سمجھوتے ہیں‘ میں نے کہا مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں‘ رفتہ رفتہ آدمی عادی ہو جاتا ہے جس طرح ہمارا بچپن بغیر بجلی کے گزرا‘ پنکھے کا نام و نشان نہ تھا‘ سکولوں کے کمرے میں بڑے بڑے موٹے کپڑے کے پنکھے ہوتے تھے جو کلاس کے وسط میں لگے ہوتے تھے
ان کے دونوں سروں کے ساتھ رسیاں بندھی ہوتی تھیں‘ دو طالب علم باری باری ان کو کھینچتے رہتے تھے‘ ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے اور پسینوں میں ڈوب جاتے تھے کہ ان پنکھوں کی ہوا رسی کھینچنے والوں کو نہیں لگتی تھی۔ ٹھنڈے پانی اور برف کا تصور نہ تھا‘ شہر کے بعض حصوں میں بعض نیک لوگ ٹھنڈے کھوہ کھدوا رکھتے تھے‘ ان کنوؤں کے سامنے ایسا ہجوم ہوتا تھا جیسے کوئی نئی فلم لگی ہو‘ گھڑے‘ بالٹیاں‘ لوٹے‘ کٹورے لئے بڑے بچے خواتین آتی تھیں‘ بالعموم بچوں اور خواتین کو آؤٹ آف ٹرن پانی دے دیا جاتا تھا بچہ ہونے کے ناطے یہ لاٹری بالعموم ہمارے نام ہی نکلتی تھی۔
اکثر ان کنوؤں پر پانی کے لئے لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور گھڑے ایک دوسرے کے سر پر مار کر سروں اور گھڑوں کو پھوڑا جاتا تھا۔ گرمی اتنی ہی ہوتی تھی لوگ منجے ڈال کر کوٹوں پر سوتے‘ نیچے مزری کی ایک پھوڑی ڈالتے تھے‘ جب اتفاقاً رات کو بارش ہو جاتی تو اسی پھوڑی کو نیچے سے نکال کر بطور چھتری اوڑھ کر سو جاتے تھے۔ عجیب زندگی تھی‘ اب سوچیں تو ہول آتا ہے
اس زمانے میں لوگوں میں صبر بھی تھا‘ جب پنکھا نہیں تھا تو نہیں تھا‘ اے سی کا تصور تک نہ تھا مگر آم ایک روپے کے دو تین سیر مل جاتے تھے‘ تربوز ٹھنڈا کرنے کا کوئی سامان نہ تھا اس لئے رات کو تربوز کے ساتھ رسی باندھ کر اسے کسی ٹھنڈے کنوئیں میں لٹکا دیا جاتا تھا‘ کبھی تو تربوز و رسی دونوں غائب ہوتے تھے۔
صبح کے وقت لوگ ٹھنڈا پانی پیتے تھے یعنی گڑ کے شربت‘ رات کی بھیگی نرم میٹھی خوبانیاں کھاتے تھے‘ اب جب سب کچھ موجود ہے تو آم ناقابل خرید اور اے سی کا بل ناقابل ادائیگی ہو گیا ہے۔ اے سی کے سامنے سے ہٹیں تو بیماروں کا بخار تیز ہو جاتا ہے‘ باہر سے آؤ تو کپڑے جسموں سے چپکے ہوتے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگلے زمانے کو برا کہوں یا آج کے زمانے کو کوسوں۔ یہ کہانیاں صدیوں سے اسی طرح چلتی آ رہی ہیں اور اسی طرح جاری رہیں گی‘ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہوں گے۔
Dated : 2010-07-18 00:00:00