آمرے قریب تر، دل مرا اُداس ہے

آمرے قریب تر ، دل مرا اُداس ہے
خواب دیکھ دیکھ کر ، دل مرا اُداس ہے

سرمئی سی شام ہے اور اِک اکیلا میں
جام ہاتھ میں مگر ، دل مرا اُداس ہے

راج وحشتوں کا ہے ، تک رہی ہے چھت مجھے
کاٹنے لگا ہے گھر ، دل مرا اُداس ہے

سخت دھوپ میں مرا دن گزر گیا، مگر
چاندنی ہے رات بھر، دل مرا اُداس ہے

فکر پر محیط ہیں ، ہجر کی اذیتیں
ہر خوشی ہے بے اثر ، دل مرا اُداس ہے

آگئیں اداسیاں کیوں ؟ یہ میرے شعر میں
کیوں ہر ایک شعر پر ، دل مرا اُداس ہے

چن رہا تھا میں ابھی سنگ اپنی راہ کے
ختم ہوگیا سفر، دل مرا اُداس ہے

زندگی گزار کر ، رات دن یہ سوچ کر
زندگی ہے مختصر ، دل مرا اُداس ہے

شاد اُڑ کے آئے گا وہ ہوا کے دوش پر
ہو اگر اسے خبر دل مرا اُداس ہے

اشرف شادؔ
 
Top