آل محمد

نور وجدان

لائبریرین
وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا

سورہ الانشقاق کا حوالہ دیا ہے

یصلی بمعنی داخل کرنے یا ملانے کے ہیں ....
جہنم میں داخل کرنا

جیسے


قرآ ن پا ک میں ہے : (اِصۡلَوۡہَا الۡیَوۡمَ) (۳۶۔۶۴) آج اس میں داخل ہو جا ؤ۔ (یَصۡلَی النَّارَ الۡکُبۡرٰی) (۸۷۔۱۲) بڑی تیز آگ میں داخل ہو گا ۔ (تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً) (۸۸۔۴) دھکتی آگ میں داخل ہو ں گے ۔ (وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا) (۸۴۔۱۲) اور دوزخ میں داخل ہو گا ۔ اور آیت کریمہ : (وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا ) (۴۔۱۰) اور دو زخ میں ڈالے جا ئیں گے ، میں ایک قرأ ت ضمہ یا (افعال ) کے سا تھ بھی ہے ۔ نیز فر ما یا : (حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا) ( ۵۸۔۸ ) ان کو دو زخ ہی کی سزا کا فی ہے ( یہ ) اسی میں داخل ہو ں گے ۔ (سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ ) (۷۴۔۲۶) ہم عنقریب اسے سقر میں داخل کر یں گے ۔ (وَّ تَصۡلِیَۃُ جَحِیۡمٍ)(۵۶۔۹۴) اور جنہم میں جلنا ۔ اور آیت کریمہ : (لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی) (۹۲۔۱۵۔۱۶) اس میں وہی داخل ہو گا جو بڑا بد بخت ہے جس نے جھٹلا یا اور منہ پھیرا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں لَاَ یَصْلٰھَآ کے معنی لَا یَصْطَلِیْ بِھَا ہیں یعنی دوزخ کے سا تھ وا بستہ اور چمٹے نہیں رہیں گے ۔ اور خلیل نے کہا کہ صَلِیَ الْکَا فِرُالنَّا رَ کے معنی یہ ہیں کہ کا فر نے دو زخ کی تکلیف برا دشت کی جیسے فرما یا : (یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ) (۵۸۔۸) اسی میں داخل ہو ں گے اور وہ بری جگہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ صَلِیَ النَّا رَ کے معنی آ گ میں داخل ہو نے کے ہیں اور اَصْلَا ھَا کے معنی دا خل کر نے کے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے : (فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ) (۴۔۳۰) ہم اسے عنقریب جہنم میں دا خل کر یں گے ۔ اور آیت کریمہ : (ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا) (۱۹۔۷۰) اور ہم ان لو گو ں سے خو ب وا قف ہیں جو اس میں داخل ہو نے کے زیا دہ لا ئق ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صِلیَّا ، صَالٍ، صَالٍ کی جمع ہے (1)صِلَا ئٌ (۱) آگ جلا نے کا ایند ھن (۲) بھنی ہو ئی چیز ۔
 

اربش علی

محفلین
اور اس میں سے زیادہ تر آپ نے غلام احمد پرویز صاحب کی کتاب سے لیا ہے .انہوں نے یہی معانی ہر آیت سے نکال کر لکھے ہیں بالکل جیسے آپ نے لکھے ہیں.
غلام احمد پرویز کی کتاب میں نے دیکھی ہے مگر یہ میں نے آرکائیو ڈاٹ آرگ سے مولانا حمید الدین فراہی کی عربی کتاب، اور اس سائٹ پر موجود تمام پرانے اور مستند عربی لغات سے اخذ کیا ہے۔
پرویز صاحب کی کتاب سے اس لیے نہیں لیا کہ انھوں نے صرف اپنی مرضی کا ایک معنی چن کر (جو کسی لغت میں بھی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملے، الا یہ کہ قیاس کیا جائے) باقی سب مستعمل مفاہیم کو طاقِ نسیاں میں ڈال کر اپنی مرضی کا مقدمہ کھڑا کر دیا ہے، اور تاریخ و حدیث کی تمام کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن کے مواقعِ خطاب کو بھی یکسر نظر انداز کیا ہے۔
 

اربش علی

محفلین
وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا

سورہ الانشقاق کا حوالہ دیا ہے

یصلی بمعنی داخل کرنے یا ملانے کے ہیں ....
جہنم میں داخل کرنا

جیسے


قرآ ن پا ک میں ہے : (اِصۡلَوۡہَا الۡیَوۡمَ) (۳۶۔۶۴) آج اس میں داخل ہو جا ؤ۔ (یَصۡلَی النَّارَ الۡکُبۡرٰی) (۸۷۔۱۲) بڑی تیز آگ میں داخل ہو گا ۔ (تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً) (۸۸۔۴) دھکتی آگ میں داخل ہو ں گے ۔ (وَّ یَصۡلٰی سَعِیۡرًا) (۸۴۔۱۲) اور دوزخ میں داخل ہو گا ۔ اور آیت کریمہ : (وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا ) (۴۔۱۰) اور دو زخ میں ڈالے جا ئیں گے ، میں ایک قرأ ت ضمہ یا (افعال ) کے سا تھ بھی ہے ۔ نیز فر ما یا : (حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا) ( ۵۸۔۸ ) ان کو دو زخ ہی کی سزا کا فی ہے ( یہ ) اسی میں داخل ہو ں گے ۔ (سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ ) (۷۴۔۲۶) ہم عنقریب اسے سقر میں داخل کر یں گے ۔ (وَّ تَصۡلِیَۃُ جَحِیۡمٍ)(۵۶۔۹۴) اور جنہم میں جلنا ۔ اور آیت کریمہ : (لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی الَّذِیۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی) (۹۲۔۱۵۔۱۶) اس میں وہی داخل ہو گا جو بڑا بد بخت ہے جس نے جھٹلا یا اور منہ پھیرا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں لَاَ یَصْلٰھَآ کے معنی لَا یَصْطَلِیْ بِھَا ہیں یعنی دوزخ کے سا تھ وا بستہ اور چمٹے نہیں رہیں گے ۔ اور خلیل نے کہا کہ صَلِیَ الْکَا فِرُالنَّا رَ کے معنی یہ ہیں کہ کا فر نے دو زخ کی تکلیف برا دشت کی جیسے فرما یا : (یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ) (۵۸۔۸) اسی میں داخل ہو ں گے اور وہ بری جگہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ صَلِیَ النَّا رَ کے معنی آ گ میں داخل ہو نے کے ہیں اور اَصْلَا ھَا کے معنی دا خل کر نے کے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے : (فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ) (۴۔۳۰) ہم اسے عنقریب جہنم میں دا خل کر یں گے ۔ اور آیت کریمہ : (ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا) (۱۹۔۷۰) اور ہم ان لو گو ں سے خو ب وا قف ہیں جو اس میں داخل ہو نے کے زیا دہ لا ئق ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صِلیَّا ، صَالٍ، صَالٍ کی جمع ہے (1)صِلَا ئٌ (۱) آگ جلا نے کا ایند ھن (۲) بھنی ہو ئی چیز ۔
یہ سب الفاظ ص ل ی کے مادے سے ہیں، گو کہ کچھ لغات نے ص ل و (جو صلاة كا مادہ ہے) اور ص ل ی کو اکٹھا بیان کیا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
انسان کی حیات طبعی کا محسوس نقطه آغاز

ص ل و (ی)

اگرچه صلوۃ اور اس کے جملہ مشتقات کا تعلق (ص - ل - و) هي سے ھے لیکن علمائے لغت نے اس ضمن میں بعض ایسے مشتقات بھی بیان کئے ہیں جو (ص) - ل - ی) سے متعلق ہیں اور ان سے بھی صلوۃ کے بعض اہم پہلوں پر روشنی پڑتی ھے ، اس لئے اس عنوان میں سادہ کے آخر کا "واو" اور "ی" دونوں ھی آگئے ہیں ۔ ویسے ہم نے (ص) - ل - ی) کا ایک جداگانه عنوان بھی رکھا هے جو آگے آتا ھے ۔ چونکہ صلوۃ" دین کا ایک بنیادی گوشه هے اور قرآن کریم میں یہ اصطلاح اور اس کے متعلقات بڑی کثرت سے آئے ہیں اس لئے یہ عنوان بڑا اہم ، اور اس کے مباحث خاص غور و فکر کے محتاج ہیں . هم انہیں نسبتاً تفصیل سے بیان کرینگے ۔

(1) الصلا - پشت کا درمیانی حصہ - کولھے کا ڈھلوان یا وہ حصہ جس پر جانور کی دم لگے ۔ دم کے دونوں جانب کے حصے صلوان کہلاتے ہیں ۔ اس کی جمع صلوات با اصلاء آتی ہے۔ صلا - يَصْلُو صلوا کے معنی هيس صلا (مذکوره صدر (حصه پر مارنا - صلوتہ ۔ میں نے اس کے صلا پر مارا -

(۲) الصقلا کی نسبت سے، ملقى الفرس تصلية اس وقت کہتے ہیں جب گھوڑ دوڑ میں ، دوسرے نمبر کا گھوڑا ، پہلے نمبر کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے اس طرح دوڑ رھا ھو کہ پچھلے کی کنوتیاں ، پہلے کی سرین سے مل رھی ھوں - اس گھوڑے کو جو آگے جا رها هو ، سابق كهتے هيس اور دوسرے نمبر والے گھوڑے کو ان مصلی ۔ اس سے صافی کے معنے میں تاج -

لغات القرآن

۱۰۳۵

ص ل و (ی)

اگلے کے ساتھ ملے ہوئے پیچھے پیچھے آنا ۔ چنانچہ حضرت علی کی ایک روایت میں ھے سبق رسول الله - وصفى أبو بكر و تلات عمر و خبطتنا فيتنة - "رسول اللہ پہلے تشریف لے گئے ۔ اور آپ کے پیچھے ابو بکر اور ان کے پیچھے عمر بھی چلے گئے ۔ اور ہمیں فتنوں نے پیچھے بد حواس کر دیا -

(۳) تاج میں تھے کہ صلیبی و اصطلی کے معنی لزوم یعنی وابستگی کے ہیں ۔ یعنی کسی کے ساتھ لگے رہنا اور چمٹے رہنا ۔ اسی بنا پر راغب نے کها هے که قرآن کریم میں جو ھے تم تک مين المصابين () - ھم مصلین میں سے نہیں تھے ۔ تو اس کے معنی به هیں که هم انبیاء کے پیچھے پیچھے چلنے والوں میں سے نہیں تھے ۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا هے که اس جہت سے صلوة کے معنی ھونگے احکام الہی سے وابستگی - حدود اللہ کے اندر رہنا اور کتاب الله سر چوم رهنا - لهذا تصلية كر معنى هين


لغات القرآن

۱۰۳۵

ص ل و (ی)

اگلے کے ساتھ ملے ہوئے پیچھے پیچھے آنا ۔ چنانچہ حضرت علی رض کی ایک روایت میں ھے سبق رسول الله - وصفى أبو بكر و تلات عمر و خبطتنا فيتنة - رسول اللہ پہلے تشریف لے گئے ۔ اور آپ کے پیچھے پیچھے ابو بکر اور ان کے پیچھے عمر بھی چلے گئے ۔ اور ہمیں فتنوں نے بد حواس کر دیا * -

(۳) تاج میں ھے کہ صلیبی و اصطلی کے معنی لزوم یعنی وابستگی کے ہیں ۔ یعنی کسی کے ساتھ لگے رھنا اور چمٹے رھنا ۔ اسی بنا پر راغب نے کها هے که قرآن کریم میں جو ھے تم تک مين المصابين () - هم مصلین میں سے نہیں تھے ۔ تو اس کے معنی یہ هیں که هم انبیاء کے پیچھے پیچھے چلنے والوں میں سے نہیں تھے ۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا هے که اس جہت سے صلوة کے معنی ھونگے احکام الہی سے وابستگی - حدود اللہ کے اندر رہنا اور کتاب الله سے چمٹے رہنا ۔ لہذا تصلية کے معنی ہیں اگلے کے پیچھے اس طرح چلنا کہ ان دونوں میں فاصله نه هو لیکن پیچھے چلنے والا آگے جانے والے سے آگے نہ بڑھے بلکہ وابستگی سے اس کا اتباع کرے۔

(۴) ان تصریحات سے صلوة کا بنیادی مفہوم واضح ھوجاتا ھے۔ لیکن اس کے سمجھنے کے لئے پہلے ایک مختصر سی تمہید کا سمجھ لینا ضروری ھے ۔ سوال یه هی که خدا اور بندے کا تعلق کیا ھے ؟ خدا ، اس ذات (Personality) کا نام ھے جو بلند ترین ، مکمل ترین ، مستحکم ترین ، اور حسین ترین ھے ۔ اس نے انسان کو بھی ذات (Personality) عطا کی ھے ( اور اسے روحنا“ کہکر پکارا ھے ۔ دیکھئے عنوان (روح) - به ذات ، ذات خداوندی کے مقابلہ میں محدود اور پست درجہ کی ھے ۔ اسے اپنی نشوونما کے نئے صفات خداوندی کو اپنے سامنے بطور نصب العین رکھنا ھوتا ھے - هم خدا کی ذات کے متعلق کچھ نہیں سمجھ سکتے البتہ اس نے اپنی جو صفات وحی کے ذریعہ قرآن کریم میں) بیان کی ہیں ان صفات کا اپنے اندر اجاگر کرتے جانا انسانی ذات کی نشو و نما کا موجب بنتا ھے ۔ قرآن کریم نے صفات خداوندی کو الاسماء الحسنی سے تعبیر کیا ھے ۔ لہذا انسان کا فریضه یه هے که ان اسماء (صفات) خداوندی کو اپنے سامنے بطور معیار رکھ کر ، ان کے پیچھے پیچھے چلتا جائے ۔

قرآن کریم کی سب سے پہلی سورت میں ھمیں جو دعا سکھائی گئی ھے (یعنی جس نصب العین کے حصول کو ھمارے لئے مقصد زندگی تجویز کیا گیا ھے) تاج -



لغات القرآن

۱۰۳۵

ص ل و (ی)

اگلے کے ساتھ ملے ہوئے پیچھے پیچھے آنا ۔ چنانچہ حضرت علی رض کی ایک روایت میں ھے سبق رسول الله - وصلتى أبو بكر و ثلاث عمر و خبطتنا فتنة - رسول اللہ پہلے تشریف لے گئے ۔ اور آپ کے پیچھے ابو بکر اور ان کے پیچھے عمر بھی چلے گئے ۔ اور ہمیں فتنوں نے بد حواس کر دیا *

(۳) تاج میں ھے که صلیبی و اصطلی کے معنی لزوم یعنی وابستگی کے ہیں ۔ یعنی کسی کے ساتھ لگے رہنا اور چمٹے رہنا ۔ اسی بنا پر راغب نے کها هے که قرآن کریم میں جو ھے تم نمک مين المصليين (7) - هم مصلین میں سے نہیں تھے ۔ تو اس کے معنی یہ هیں که هم انبیاء کے پیچھے پیچھے چلنے والوں میں سے نہیں تھے ۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا هے که اس جہت سے صلوة کے معنی ھونگے احکام الہی سے وابستگی - حدود اللہ کے اندر رہنا اور کتاب اللہ سے چمٹے رہنا ۔ لہذا تصلية کے معنی ہیں اگے کے پیچھے اس طرح چلنا کہ ان دونوں میں فاصله نه هو لیکن پیچھے چلنے والا آگے جانے والے سے آگے نہ بڑھے بلکہ وابستگی سے اس کا اتباع کرے۔

(م) ان تصریحات سے صلوة کا بنیادی مفهوم واضح ھوجاتا ھے۔ لیکن اس کے سمجھنے کے لئے پہلے ایک مختصر سی تمہید کا سمجھ لینا ضروری ھے ۔ سوال یه هی که خدا اور بندے کا تعلق کیا ھے ؟ خدا ، اس ذات (Personality) کا نام ھے جو بلند ترین ، مکمل ترین ، مستحکم ترین ، اور حسین ترین ھے ۔ اس نے انسان کو بھی ذات (Personality) عطا کی ھے ( اور اسے روحنا کہ کر پکارا ھے ۔ دیکھئے عنوان روح - به ذات ، ذات خداوندی کے مقابلہ میں محدود اور پست درجہ کی ھے ۔ اسے اپنی نشوونما کے لئے صفات خداوندی کو اپنے سامنے بطور نصب العین رکھنا ھوتا ھے - هم خدا کی ذات کے متعلق کچھ نہیں سمجھ سکتے البتہ اس نے اپنی جو صفات وحی کے ذریعہ قرآن کریم میں) بیان کی ہیں ان صفات کا اپنے اندر اجاگر کرتے جانا انسانی ذات کی نشو و نما کا موجب بنتا ھے ۔ قرآن کریم نے صفات خداوندی کو الاسماء الحسنی سے تعبیر کیا ہے ۔ لہذا انسان کا فریضه به هی که ان اسماء (صفات) خداوندی کو اپنے سامنے بطور معیار رکھ کر ، ان کے پیچھے پیچھے چلتا جائے ۔

قرآن کریم کی سب سے پہلی سورت میں ہمیں جو دعا سکھائی گئی ھے ( یعنی جس نصب العین کے حصول کو ھمارے لئے مقصد زندگی تجویز کیا گیا ہے) تاج -


لغات القرآن

١٠٣٦

ص ل و (ی)

وه یه هے که اهدنا الصراط المستقيم ( 6 ) - یعنی اس توازن بدوش راستے کی طرف راہنمائی کی تمنا جو ھمیں انسانیت کی منزل مقصود تک لے جائے ۔ اور سورة هود ميں هے ان ربي على صيراط مستقييم. (1) - میرا رب صراط مستقیم پر ھے ۔ یعنی جس صراط مستقیم پر چلنے کے لئے مومنین سے کہا گیا ھے وہ وہی راسته هے جس پر خدا کائنات کو چلا رھا ھے ۔ هم اس راستے پر کتاب الله کے ساتھ وابستہ رہنے سے چل سکتے ہیں ۔ لہذا صلوة کا بنیادی مفهوم هي كتاب الله کے ساتھ پوری پوری وابستگی سے اپنے اندر ( على حد بشریت صفات خداوندی کا منعکس کئے جانا ۔

(ه) سورة نور ميس هي الم ترا أن الله يسبح له من في السموات والارض والطير صفت - كتلة قد عليم صلاته وتسبيحه (1) - " کیا تو نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ وہ ھے که اسی کی تسبیح کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں ۔ اور پر پھیلائے ہوئے پرند بھی - هر ایک اپنی اپنی صلوة اور تسبیح کو جانتا ھے " ۔ یعنی کائنات کی . هر شے اپنی صلوۃ اور تسبیح کو اچھی طرح جانتی ہے - به ظاهر هے کہ کائنات کی ہر شے ( اپنی فطری جبلت کی رو سے ) جانتی ہے کہ اس کے فرائض منصبی کیا ہیں ۔ اسے کسی راستے پر چلنا اور کس منزل تک پہنچنا ہے ۔ اسکی جد وجہد کے دوائر کونسے ہیں ۔ اسی چیز کو ان کی صلوۃ اور تسبیح سے تعبیر کیا گیا ھے ( تسبیح کے لئے دیکھئے عنوان س - ب - ح ) -

یه بهی ظاهر هی که انسان کو ان چیزوں کا علم ( حیوانات کی طرح ) جباتی طور پر نہیں دیا گیا ۔ اسے یہ سب کچھ وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے ۔ جہانتک اسکی طبعی ضروریات کا تعلق هے ، انسان ان چیزوں کا علم، عقل و فکر اور تجربه و مشاهده سے حاصل کر سکتا ہے لیکن جہانتک اس کی "انسانیت" کے تقاضوں کا تعلق هے یه چیزیں وحی کے ذریعے ہی معلوم هو سكتى ہيں - لهذا انسان کو یہ جاننے کے لئے کہ اسکی صلوة و تسبیح کیا ھے ، وحی کا ماننا اور جاننا ضروری ھے ۔ اور اس مقصد کی تکمیل کیلئے وحی کے دیے ھوٹے پروگرام پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ اسے قرآن کریم نے اقامت صلوة کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا ہے ۔ ( وَيُقيمون الصلوة ) - يعنى قوانین خداوندی کا اتباع کرنا ۔

لیکن وحی کے دئے ھوئے پروگرام پر عمل پیرا هونا (اقامت صلوة) انفرادی طور پر ممکن نہیں ۔ یہ صرف اجتماعی نظام کے ماتحت ھو سکتا ھے ۔


لغات القرآن

۱۰۳۷

ص ل و (ی)

بهی وجه هے که قرآن کریم نے اسکے لئے جمع کے صیغے استعمال کئے ہیں ۔ حتکہ ایک اسلامی مملکت کا فریضه هی به بتایا ھے اللذين إن متكتنفهم في الأرض أقاموا الصلوة واتوا التركواة وأمروا بالمعروف و تهو اعن المنكر (٢٢) - به وه لوگ هیں که جب انہیں زمین میں اقتدار حاصل هوگا تو به اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوة کرینگے ( زکوة کے مفہوم کے لئے دیکھئے عنوان زک و ) اور معروف کا حکم دینگے اور منکر سے روکینگے ۔ انہی کو دوسری جگه التراكيمون السياجيد ون (7) كها ھے ۔ یعنی رکوع کرنے والے ۔ سجدہ کرنے والے ۔ ( رکوع اور سجدة کیلئے دیکھئے عنوانات - ر- ک - ع اور س - ج - د ) - اور یہی وجه هے که دوسری جگہ اقامت صلوة اور امور مملکت کیلئے با همی مشاورت کا اکھٹا ذکر کیا گیا هے- أقاموا الصلوة وأمرهم شورى بينهم (۳) " وه اقامت صلوة کرتے ہیں اور ان کے معاملات با همی مشورہ سے طے پاتے ہیں ۔ اور چونکه جماعت مومنین کی زندگی کے تمام امور قوانین خداوندی ( كتاب الله) کے مطابق سر انجام پاتے ہیں اسلئے سورۃ اعراف میں تمسك بالكتاب اور اقامت صلوۃ کو ساتھ ساتھ رکھا گیا ھے (1) - لهذا اقامت صلوة سے مفہوم ھے ایسا نظام ) یا معاشرہ قائم کرنا جسمیں تمام افراد ، قرآن کریم کے قوانین کا اتباع کرتے چلے جائیں ، اور یوں کتاب الله کے ساتھ وابستہ رہیں ۔ اس مقصد کی مزید وضاحت کیلئے قرآن کریم میں صافی کے مقابلہ میں توکی کا لفظ آیا ہے (م) - تو لقی کے معنے میں صحیح راستہ سے رو گردانی کرنا - گریز کی را هیں نکالنا - پھر جانا - سنه موڑ لینا ۔ اس لئے صلی کے معنے هوئے قوانین خداوندی کے مطابق صحیح راستہ پر چلتے جانا ۔ نظام خداوندی کے متعین کردہ فرائض منصبی کو ادا کرتے جانا ۔ علامه حمید الدین فراہی نے اسی اعتبار سے کہا ھے کہ صلوۃ کے ایک معنی کسی کی طرف بڑھنے ، رخ کرنے اور متوجه ھونے کے ہیں (مفردات القرآن) - سورة علق میں ھے - أَرَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عبدا إذا صلى (٩٠) - یعنی جب خدا کا بندہ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنا چاهتا هے تو یه ( مخالف ) اسکے راستے میں رکاوٹیں ڈالتا ھے ۔

ان فرائض منصبی کا دائرہ بہت وسیع ھے اور زندگی کا کوئی گوشه ایسا نہیں جسکو به محیط نه هو - چنانچه سورة هود میں هے که حضرت شعیب ۴ سے ان کی قوم نے کہا که اصلوتک تامرک أن تترك ما يعبد أبناؤنا أو أن تفعل في أسوالينا ما نشو (4) " كيا تيرى صلوة تجھے یہ حکم دیتی هے که هم اسے چھوڑ دیں جس کی عبادت ہمارے باپ

دادا اختیار کئے چلے آرھے ھیں ۔ یا هم اپنے مال و دولت کو بھی اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہ کریس " ؟ یعنی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی که به کیسی صلوة هے جو معاشیات تک کو بھی اپنے دائرے کے اندر لے لیتی ھے ۔ اس سے بھی صلوۃ کا مفہوم واضح هو جاتا هے ۔ یعنی زندگی کے هر شعبے میں ، قوانین خداوندی کے مطابق عمل کرنے کا تمام صلوة هے - حقیقت به هی که ( تفصیل اس اجمال کی کتنی ہی طویل کیوں نه هو ) بات سمت سمٹاکر یہاں آجاتی ھے کہ انسان اپنے معاملات کا فیصلہ اپنی مرضی (خواهشات اور جذبات ) کے مطابق کرنا چاھتا ھے یا وحی خداوندی کے مطابق ؟ اپنے تمام معاملات کو وحی خداوندی کے تابع رکھنے کا نام " اقامت صلوة " ھے ۔ چنانچہ سورۃ مریم میں " اقامت صلوة " اور " اتباع جذبات کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر اس مفہوم کو واضح کر دیا گیا ھے ۔ ارشاد ھے فخلف من بعدهيم خلف أضاعمو الصلوة واتبعوا الشهوات (2) - ( انبیائے کرام کے بعد ) ،، ایسے نا خلف پیدا ھو گئے کہ انہوں نے صلوۃ کو ضائع کر دیا اور اپنے جذبات و خیالات ( اپنی خواهشات ) کے پیچھے چلنے لگ گئے، گویا انسان کا اپنی خواہشات کے پیچھے چلنا صلوة کو ضائع کر دینا ھے اور قوانین خداوندی کے پیچھے چلنا صلوة کا قائم رکھنا ھے ۔ سورة انعام میں محافظت صلوة " کو آخرت اور کتاب الله پر ایمان رکھنے کے مرادف قرار دیا گیا ھے ۔ (و) - اسی بنا پر ابن قتیبہ نے الصلوة کے معنی الدین کئے ھیں * ۔ یعنی اقامت صلوة در حقیقت اقامت دین ھے ۔

(1) الصامی کے معنی آگ اور ایندھن کے ھیں ۔ اس سے صدیقی عصاه على النساء کے معنے ہیں ، اس نے اپنی لکڑی (لاٹھی) کو آگ دکھا کر نرم اور سیدھا کیا ۔ سلب ماخذ کے اعتبار سے صدی کے ایک معنی یہ بھی هیں که اس نے آگ کو ہٹایا اور دور کیا - (روح المعانى) .

اس اعتبار سے دیکھئے تو صلوة کے معنی ھونگے اپنی خامیوں کو رفع کرنا ۔ صاحب المنار نے کہا هے که صلوه قولاً وعملاً اس حقیقت کا اعتراف هے که هم اپنی خامیوں کو رفع کرنے کے لئے، نقائص سے بالاتر ایک ذات کی راهنمائی کے محتاج ہیں ۔ اسی جہت سے قرطبی نے کہا هے که صلوه در حقیقت خداکی محکومیت اور اطاعت کو کہتے ہیں ۔

القرطين - جلد اول - صفحه ۱۳ ، به معنی محیط اور اقرب الموارد نے بھی دئے ہیں ۔


لغات القرآن

ص ل و (ی)

(2) صلوہ کے ایک معنی جھکانا اور کسی کو اپنی طرف مائل کرنا بھی ہیں ۔ اس جہت سے صلوہ کا مفہوم ھوگا - کائنات کو مسخر کرنا اور اسے اپنے تابع فرمان بنانا

(۸) الصلوہ کے ایک معنی تعظیم کے بھی ھیں ** ۔ یعنی اپنے عملی پروگرام سے کائنات کو نشو و نما دینے والے رب العالمین) کی عظمت کو ثابت کرنا ۔ اس سے اقامت صلوہ اور ایتائے زکوہ کا با همی تعلق واضح هو جاتا ھے ۔ یعنی قوانین خداوندی کے مطابق ایسا پروگرام مرتب کرنا اور اس پر عملا چلنا جس سے تمام نوع انسان کی نشو و نما ہوتی جائے ۔

(۹) صلوہ کے جو مختلف مفاهیم اوپر بیان ھوئے ھیں ، ان سے ظاھر ھے کہ ایک عبد مومن ، زندگی کے جس گوشے میں بھی قوانین خداوندی کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کرتا ھے ، وہ قریضه صلوة هي کو ادا کر رها ھوتا ھے ۔ اس کے لئے وقت ، مقام یما شکل کا تعین ضروری نہیں - لیکن قرآن کریم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں صلوہ کا لفظ ایک خاص قسم کے عمل کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاً

(1) يا يتهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قمتم إلى الصلوة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وامسحوا برع وسكم وأرجلكم إلى الكعبيين - (1)

اے ایمان والو! جب تم صلوہ کے لئے کھڑے ہو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو ۔ اور اپنے سروں کا مسح کر لیا کرو ۔ اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو - ،، اس کے بعد ھے کہ اگر تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کر لیا کرو ۔

( ب ) سورة نساء میں ھے بنا بنهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تقر بنوا الصلوة و أنتم سكارى - حتى تعلموا مَا تَقُولُونَ ( )

اے ایمان والو تم صلوہ کے قریب نہ جاؤ در آنحالیکه تم حالت سكر نشه یا نیند میں ھو - تا آنکه تم جو کچھ منہ سے کہو اسے سمجھو کہ کیا کہہ رھے ھو ۔ اس کے بعد پھر تیمم کا ذکر ھے ۔ بعض لوگوں کا خیال ھے کہ اس میں مساجد میں جانے کا ذکر ھے ۔ لیکن به بحث الگ ھے -

P (ج) نبی اکرم سے ارشاد هے که اذا كنت فينهيم فاقمت لهم الصلوة فلتقم طائفة منهم معك

* محیط - ** تاج


لغات القرآن

۱۰۴۰

ص ل و (ی)

و ليَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ - فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِيكُمْ - وَلاتِ طائفة أخرى لم يُصَلُّوا فَلْيَصَلُّوا معك وَلَيَاخُذُوا حيدرهُمْ وَأَسْلِحَتَهُم

-()...

اور جب تو ان کے درمیان ھو - پھر ان کے لئے قیام عالوہ کرے ۔ تو چاہئے کہ ان میں سے ایک گروہ تیرے ساتھ کھڑا ہو ، اور چاہئے کہ وہ اپنے ہتھیار لے لیں ۔ پھر جب وہ سجدہ کرچکیں تو وہ تمہارے پیچھے ھو جائیں، اور چاھئے که دوس را گروه جنہوں نے صلوة ادا نہیں کی وہ تیرے ساتھ صلوہ ادا کریں۔ اور وہ اپنے بچاؤ کا سامان) اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔ اس کے بعد ھے فاذا قضيتم الصلوة فاذْكُرُوا الله قياما و قعودا و على جنوبكُمْ - فَإِذَا طَمَا نَنتم فاقيموا الصلوة ...... ( ) - پھر جب تم صلوة ادا کر چکو تو کھڑے ۔ بیٹھے ۔ لیٹے جس طرح جی چاھے الله کا ذکر کرو - پھر جب تم اطمینان کی حالت میں ھو تو قیام صلوہ کرو۔ اس سے پہلی آیت یہ هي فاذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا مين الصلوة إن خفتم أن يفتينكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا .. (1) - اور جب تم زمین میں سفر کرو تو اس میں تمہارے لئے ھرچ کی بات نہیں که تم صلوة کو کم ۔ اس که كفار ( مخالفین) تمہیں تکلیف کر لو اگر تمہیں ڈر ھو پہنچائینگے

ضمن میں ( ۳۹ ) بھی دیکھئے ۔

صلوة کے کم کرنے کا طریق ( م ) میں بیان ھو چکا ھے ۔

(د) سورة مائدة میں هے و إذا ناديتم إلى الصلوة اتتخذوها هرُوا وَ لَعِبا ...... ( ) - اور جب تم صلوۃ کے لئے آواز دیتے هو تو (مخالفین اسے ہنسی اور مذاق (کھیل) بنا لیتے ہیں . سورة الجمعة میں ھے إذا تؤدي للصلوة مين يقوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وَذَرُوا البيع - ذ اليكم خير لكم إن كنتم تعلمون - فاذا قضيت الصلوة فانتشروا في الأرض و ابتغوا من فضل الله واذا كروا الله كثيرا لتعليكم تفلحون .... ( ) - جب جمعہ کے دن یا اجتماع کے وقت) صلوة کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی آجایا کرو اور کاروبار کو چھوڑ دیا کرو ۔ اگر تمہیں اس کی اہمیت کا علم ھو تو تم اس حقیقت کو محسوس کر لوگے کہ یہ تمہارے لئے کسقدر) بہتر ھے ۔ پھر جب صلوة ختم ھو جائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل کو تلاش کرو ۔ اور


لغات القرآن

ص ل و (ی)

الله کا بہت ذکر کرو - تاكه تم كامياب هو جاؤ ۔ اس کے بعد ھے کہ ان لوگوں کی حالت یه هے کہ انہیں جب کاروبار یا کھیل تماشا نظر آجاتا ھے تو اس کی طرف بھاگ جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں ۔ ان سے کہو که جو کچھ اللہ کے ماں سے تمہیں مل سکتا ھے وہ کھیل اور کاروبار سے کہیں بہتر ہے ۔ اور اللہ بہترین رزق دینے والا ھے ۔ (۲) ۔

تصریحات بالا سے واضح هی که قرآن کریم میں صلوۃ کا لفظ ان اجتماعات کے لئے بھی آیا ھے جنہیں عام طور پر نماز کے اجتماعات کہا جاتا ھے ۔ نماز کا لفظ عربی زبان کا نہیں ۔ پہلوی زبان کا ھے) ۔ ان اجتماعات کے سلسلہ میں ایک بات خاص طور پر سمجھنے کے قابل ھے ۔ جیسا که (ع - ب -د) کے عنوان میں وضاحت سے بتایا جائیگا ، قرآن کریم کی رو سے خدا کی عبادت

سے مفہوم اس : قسم کی پرستش یا پوجا پاٹ نہیں جو عام طور پر اهل مذاہب کے ہاں پائی جاتی ہے ۔ قرآن کریم کی رو سے عبادت کا مفہوم خدا کے قوانین و احکام کی اطاعت - یا اللہ کی محکومیت اختیار کرنا ھے ۔ ظاهر هے که الله کی یه محکومیت ، زندگی کے ہر سانس اور کاروبار حیات کے ہر شعبہ میں اختیار کی جائے گی ۔ اس کی عملی شکل وہ نظام مملکت ہے جو قرآنی اصولوں کے مطابق متشکل کیا جاتا ہے ۔ اسی نظام کے حاملین کے متعلق فرمایا وَ الَّذِينَ اسْتَجَابُو اليربهم وأقاموا الصلوة و أمرهم شورى بينهم و مارزقناهم ينفقون ( ) - یه وه لوگ ہیں جو اپنے نشو و نما دینے والے کی اطاعت کرتے ہیں ۔ اور اقامت صلوة کرتے ہیں ۔ اور ان کا معامله با همی مشورہ سے طے ھوتا ھے ۔ اور جو کچھ ہم انہیں دیتے ہیں وہ اسے نوع انسانی کی ربوبیت کے لئے کھلا رکھتے ہیں۔ ان آ آیات میں ، اطاعت خداوندی - اقامت صلوۃ اور امور مملکت کے طے کرنے کے لئے باہمی مشاورت کا ارتباط غور طلب ہے ۔ ظاهر هے که قوانین خداوندی کے نفاذ کے متعلق ضروری امور کا فیصلہ کرنے کے لئے باہمی مشاورت کی ضرورت ہوگی اور مشاورت کے لئے اجتماعات بھی ضروری ھونگے ۔ وسیع معنوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو به اجتماعات بجائے خویش اقامت صلوة هي کا ایک حصه هونگے ۔ ليكن ان اجتماعات میں ایک اور حقیقت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ جیسا که ر - ک - ع ) اور (س) - ج ۔ (د) کے عنوانات میں لکھا جا چکا ہے، انسان اپنے جذبات کا اظہار جسم کے اعضا کی محسوس حرکات سے بھی کرتا ہے ، اور یه چیز اس میں ایسی راسخ هو چکی ھے کہ اس سے یہ حرکات خود بخود سرزد ھوتی رھتی ہیں - غم و غصه ، خوشی ، تعجب ، عزم و اراده ، های اور نه ،


لغات القرآن

ص ل و (ی)

وغیرہ قسم کے جذبات اور فیصلوں کا اظہار ، انسان کی طبعی حرکات سے بلا ساخته ھوتا رھتا ھے ۔ بہی کیفیت جذبات عزت و احترام اور اطاعت و انقیاد کے اظہار کی ہے ۔ تعظیم کے لئے انسان کا سر بلا اختیار نیچے جھک جاتا ہے ۔ اطاعت کے انے سر تسلیم خم هو جاتا هے.. اگرچه قرآن کریم عمل کی روح اور حقیقت پر نگاہ رکھتا ھے ، اور محض (Formalism) کو کوئی وزن نہیں دیتا ، لیکن جہاں کسی جذبہ کی روح اور حقیقت کے اظہار کے لئے (Form) کی ضرورت ہو ، اس سے روکتا بھی نہیں ، بشرطیکہ اس (Forni) هی کو مقصود بالذات نه سمجه ليا جائے ۔ صلوۃ کے سلسلہ میں قیام و سجدہ وغیرہ کی جو عملی شکل ہمارے سامنے آئی ھے ، وہ اسی مقصد کے لئے ہے ۔ یہ بھی ظاهر هے کہ جب ان جذبات کا اظهار ، اجتماعی شکل میں ہو ، تو اظہار جذبات کی محسوس حرکات میں هم آهنگی کا ھونا نهایت ضروری ھوتا ھے، ورنہ اجتماع میں انتشار ابھرتا دکھائی دیگا - احترام و عظمت ، القياد و اطاعت ، اور فرمان پذیری و خود سپردگی کے والہانہ جذبات کے اظہار میں نظم وضبط کا ملحوظ رکھنا ، بجائے خویش بہت بڑی تربیت نفس ھے ۔ یہ اس حقیقت کا آئینه دار هی که

بے قراری ہے کس قرار کے ساتھ جير هے دل په اختیار کے ساتھ

یه هے جذبات اطاعت و تسلیم کے اظہار کی وہ منضبط شکل (صلوة) جسے قرآن كريم ، جماعت مومنین کی مجالس و مشاورت کا ضروری حصہ قرار دیتا ہے ۔ جسطرح آجکل عماری ماں جلسوں کی کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا جاتا هے اگرچه به چیز محض رسم ادا کر دی جاتی ھے) - (وَ الَّذِينَ استجابو اليربيهيم و أقامو الصلوة - و أمرهم شورى بينهم ) ان اجتماعات کی اہمیت کے پیش نظر ، قرآن کریم نے انہيں كتابا موقوتا ) کہا ہے ۔ اس کے ایک معنی میں خاص طور پر مقرر کرده فریضه - اور دوسرے معنی میں ایسا فریضہ جو وقت پر ادا کیا جاتا ھے - اجتماعات کے لئے وقت کی پابندی جس قدر ضروری ھے وہ ظاھر ھے ۔ اسی لئے سورة الجمعه کی جو آیت پہلے درج کی جا چکی ھے ، اس میں خاص طور پر کہا گیا ھے کہ جب اس اجتماع کے لئے بلایا جائے ، تو اسے تمام دیگر مصروفیات پر ترجیح دو تمام کاروبار چھوڑ کر فوراً اس طرف آجاؤ اور جب تک اس سے فارغ نه هوجاؤ کسی اور کام کی طرف دھیان مت دو ایسا نه هو که تمها را امیر ، تمہارے سامنے ضروری معاملات پیش کر رھا ھو ، ان کی اہمیت سمجھا رھا ھو ، اور تم کاروبار کے لئے باھر نکل جاؤ ۔ و تتركوك قنانيا) -


لغات القرآن

۱۰۴۳

ص ل و (ی)

یوں تو جماعت مومنین کی ساری زندگی دن رات صبح شام قوانين خداوندی کی اطاعت اور انکے نفاذ کی تگ و تاز میں گذرتی ہے، لیکن اجتماعات کے لئے خاص اوقات کا تعین ضروری هوتا هی خواه به اجتماعات معمولاً منعقد مول با هنگامی طور پر بلائے جائیں - ذهن انسانی کی توہم پرستیوں نے ، جہاں زندگی کے اور گوشوں میں سعد و نحس کے افسانے تراشے تھے وہاں دن اور رات کے بعض اوقات کے لئے بھی اسی قسم کے تصور قائم کر رکھے تھے ۔ سورج نکلتے وقت فلاں کام نہیں کرنا چاہئے ۔ زوال کے وقت یوں نہیں کرنا چاہئے ۔ دن اور رات کے ملتے وقت فلاں کام نہیں کرنا چاہئے ۔ وغیره وغیره - قرآن کریم نے جہاں اور توہم پرستیوں کا خاتمہ کر دیا وهاں اوقات کے سلسلہ میں بھی یه کم کر بات واضح کر دی هے کہ دن اور رات میں نہ کوئی ساعت نحس هی نه سعد - اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ھوتا کہ فلاں وقت فلاں کام نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک اجتماعات صلوة کا تعلق ہے - أقيم الصلوة يدلوي الشمس إلى غسق القيل و قرآن الفجر .... ( ) تم دلوک الشمس سے رات کی تاریکی تک اقامت صلوة کر سکتے ھو ۔ اور صبح کے وقت کا قرآن بھی (د) - ل - (ک) کے عنوان میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ دلوک میں ، صبح سے شام تک کا سارا وقت آجاتا هے ، بالخصوص جب سورج کے بلند ھوئے - نصف النہار تک پہنچنے، مائل به زوال هونے اور غروب ھو جانے کی مختلف منازل کو ( خاص طور پر ( اس میں شامل کرنا مقصود هو - ان مختلف منازل کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود ، ان توہم پرستیوں کی تردید تھا جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ھے ۔ انہی کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ھے جن میں کہا گیا هے که و أقيم الصلوة طرفي النهار و زلفا مين القيل ( و ) - دن کے دونوں اطراف اور رات کے حصول میں اقامت صلوة كرو -

ان اوقات کا ذکر تو خصوصیت سے لفظ صالوہ کے ساتھ کیا گیا ہے، ویسے ت دین کے سلسلہ میں جماعت مومنین کی تگ و تاز کے سلسلہ میں (جسے قرآن كريم تسبيح ، تحمید و تذکیر کے اصطلاحات سے تعبیر کرتا ھے دن ، رات کے تمام اوقات کا ذکر آیا ھے ۔ دیکھئے ( ۱۳۰ ) و ( ) و ( ) و ( 2 ) وغيره .

سورہ نور میں صلوۃ الفجر اور صلوة العشاء كا ذكر (ضمنا) آیا ھے جہاں کہا کیا ھے کہ تمہارے ان کے ملازمین کو چاھئے کہ وہ تمہاری (Privacy)


نغات القرآن

۱۰۴۴

ص ل و (ی)

کے اوقات میں ، اجازت لیکر کمرے کے اندر آیا کریں ۔ یعنی مین قبل صلوة الفجر وحين تضعون ثيابكم مشين الظهيرة وسين بعد صلوه العشاء ( ) صلوۃ الفجر سے پہلے۔ اور جب تم دوپہر کو کپڑے اتار دیدیتے هو - اور صلوة العشاء کے بعد - اس سے واضح هے که رسول الله کے زمانہ میں اجتماعات صلوہ کے لئے کم از کم به دو اوقات متعین تھے ۔ جبھی تو قرآن کریم نے ان کا ذکر نام لیکر کیا ہے ۔ 1.".

جہاں تک صلوۃ میں کچھ پڑھنے کا تعلق ہے ، یه هم دیکھ چکے میں که قرآن کریم نے کہا ھے کہ تمہیں معلوم ھونا چاھئیے کہ تم کیا پڑھ رھے ھو (۳) دوسرے مقام میں هے ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها - وابتغ بين ذالك سبيلا (۱۴) ۔ اور اپنی صلوۃ کو نه تو بلند آواز سے ادا کر اور نہ خاموشی سے ۔ ان دونوں کے درمیان راسته اختیار کر " بعض لوگوں کا خیال ھے اس آیت میں صلوة سے مراد عمام دعا یا ذکر ھے ۔ نماز نہیں ۔ لیکن به خیال صحیح نظر نہیں آتا ۔ "ذکر" کے متعلق قرآن کریم میں به صراحت موجود ھے (۲۵) که اسے خاموشی سے دل میں کرنا چاهئے - به آواز بلند نہیں ۔ ( ذکر سے مراد ، قانون خداوندی کی یاد ھے ۔ اسلئے مندرجہ بالا آیت میں صلوۃ سے مراد " نماز هی هو سکتی ھے ۔ قرطبی نے اس کے معنی قراءت لکھے ھیں ۔

تصريحات بالا سے ظاهر هے که ان مقامات میں صلوۃ سے مراد اجتماعات ھیں ۔ ( اس کے لئے فعل صاقی - یصلی آتا ہے ) ۔ اس کا مطلب به هی که قرآن کریم . نے جہاں " اقیمو الصلوة " كها هے وهان ، به هیئت مجموعی ، اس سے مراد ھے ، اقامت دین - ) یعنی نظام خداوندی کی تشکیل و استحکام ) - قوانین و احکام خداوندی کا اتباع - ان فرائض منصبی کی ادائیگی جو ایک عبد مومن پر عائد ھوتے ھیں ۔ لیکن بعض مقامات پر اس سے مراد ہیں اجتماعات صلوہ جو خود دین کے نظام کا جزو ہیں ۔ متعلقه مقامات میں به دیکھنا ضروری هو گا که وهان اقامت صلوۃ سے مقصود کیا تھے ۔ اسی طرح جہاں جہاں " مصلین " آیا هے وهاں بهی به دیکھنا ھوگا کہ اس سے مراد جماعت مومنین ) به هیئت مجموعی) هے یا صرف اجتماعات صلوۃ میں شرکت کرنے والے، اس لئے کہ قرآن کریم نے ان "مصلتين " کا بھی ذکر کیا ھے جو شرف انسانیت کی بلندیوں پر ھیں ( دیکھئے (۲۴۵) ۔ اور ان کا بھی جن کے لئے تباھی ھے (ک) .

لغات القرآن

Screenshot has been saved to Pictures/

Screenshot

لغات القرآن

۱۰۳۵

ص ل و (ی)

(۱۰) صلى عليته - راغب نے لکھا ھے کہ اس کے معنی ہیں تعظیم کرنا ۔ دعا دینا - حوصله افزائی کرنا - پروان چڑھانا - نشوونما دینا ۔ کسی قسم کی خرابی یا فساد پیدا نه هونے دینا * ۔

ان معانی کو سامنے رکھنے سے قرآن کریم کے ان مقامات کا مفہوم واضح ھو جاتا ھے جن میں یہ مادہ علی کے صلہ کے ساتھ آیا ھے ۔ مثلاً سورة احزاب میں جماعت مومنین سے کہا گیا هے هو الذي يصلي عليكم و ملكته (۳۳) - خدا اور اس کے ملائکہ ( کائناتی قوتیں) تمہاری حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ تمہاری نشو و نما کا سامان بہم پہنچاتے ہیں ۔ تمہاری کوششوں کو پروان چڑھاتے ہیں يه ان مومنین کے متعلق ھے جن کی بابت دوسری جگه کها گیا هے که جب انہیں اقامت دین کے سلسلہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ ان سے گھبرائے نہیں ۔ حوصلہ نہیں ھارتے ، بلکه ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ اولئك عليهم صلوات مين ربهم (١٥٠) - به لوگ خدا کے نزدیک مستحق تبریک و تہنیت ہیں ۔ انہیں خدائی تائید و نصرت حاصل ھے ۔ خدا ان کی حوصلہ افزائی کرتا ھے ۔ ان کی کوششوں کو کامیاب بناتا ہے ۔ ان کی نشو و نما کرتا ھے ۔ ورها عام جماعت مومنین کے متعلق ۔ خود نبی اکرم کے متعلق ھے به إن الله وملائكته يصلون على النبي ...) - خدا اور اس کے ملائکہ نبی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اس کے پروگرام کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ اس کے بعد ھے - يا بنهَا الَّذِينَ آمَنُوا - صالو اعلَيْه وَسَلموا تسليما - ( ۳ ) - " اے جماعت مومنین ! تم بھی اپنے نبی کے پروگرام کو کامیاب بنانے میں اس کا ساتھ دو ۔ اس کی کوششوں کو پروان چڑھانے میں اسکی مدد کرو ۔ اور اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ اس کی پوری پوری اطاعت کرو (0) - وَتَعَزُّ رُوهُ وَ تَوَيروه (1) - ( تاكه ) تم اسکی مدد کرو - اسکی عزت و توقیر کرو۔ مومنین کے متعلق دوسری جگه کاهی و عزروه و نصروه (1) - جنہوں نے اسکی تائید و تعظیم کی ۔ اس کی مدد کی۔ اسطرح که واتبعوا النور الذي انزل معه (1) جو روشن ( کتاب ( ھم نے اس کے ساتھ نازل کی ھے اس کا اتباع کیا ۔ یہ ھے

مومنین کی طرف سے صلوا علیہ کے فریضہ کی ادائیگی کا طریق ۔ . Screenshot has been saved to Pictures/ مین پر اور نبی اکرم پر ۔ اور یہ ہے جس Screenshot صلوة و سلام نبی اکرم پر ۔

خود

راغب و تاج -

آپ نے غور فرمایا که صلواعَلَيْهِ وَسَلموا تسليما كا حكم کتنے عظیم عملی پروگرام کا متقاضی ہے ۔ یعنی قوانین خداوندی کی پوری پوری اطاعت سے اس دین کو تمام ادیان عالم پر غالب کرنا جسے نبی اکرم * لیکر تشریف لائے تھے ۔ دوسری طرف نبی اکرم سے کہا گیا ہے کہ جب جماعت مومنین کے افراد ، اتفاق فی سبیل الله کے لئے تیرے پاس اپنی کمائی لیکر آئیں تو اسے قبول کر، وصل عليتهيم - إن صلوتك سكن التهم () - اور ان کی حوصلہ افزائی کر ۔ اس لئے کہ تیری طرف سے حوصلہ افزائی ان کے لئے موجب ، ) Appreciation ) تحسین و تبریک ، )Encouragement( تسكين ھوتی ھے ۔ وہ اس انفاق في سبيل الله کو قر بات عنيد الله وصلوات الرسول (۹۹) کا موجب سمجھتے ہیں ۔ یعنی قرب خداوندی کا باعث اور رسول کی طرف سے تحسین و تبریک اور حوصلہ افزائی کا موجب - قرب خداوندی کے لئے ق - ر - ب کا عنوان دیکھئے ) ۔

(11) لغت عبرانی میں صلوات یہودیوں کی عبادت گاہوں کو بھی کہتے ہیں ۔ (۲) میں یہ لفظ انہی معنوں میں آیا ھے ۔

صلی

صلى اللحم بتصليه بالنار صلياً - اسنے گوشت کو بھون لیا ۔ اسنے گوشت کو بھوننے کیلئے اسے آگ میں ڈال دیا * ۔

الصفی کے اصل معنی آگ جلانے کے ہیں ۔ صلیبی بالنار - اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی ۔ وہ آگ میں جلا - صديت الشقاة - میں نے بکری کو بھون لیا ** - أصلاه النقار وصلاه - اس نے اسے جلنے کیلئے میں داخل کر دیا ۔ اسکا ٹھکانہ آگ میں بنا دیا *** ۔

الصلاء - بهنی ھوئی چیز آگ جلانے کیلئے ایندھن * ۔

صال - وہ جو آگ میں بھنے ۔ جو جہنم کی طرف جائے ۔ متن هو صال الجحيم (۳) - الصلبی : جانا ، آگ کی تکلیف برداشت کرنا (1) ۔

سورة اعلی میں هي الذي يصلى النقار الأكبری (۴) جو بہت بڑی آگ میں داخل هوتا ( يا بهنتا ) هے -

سورة حاقة ميں هي ثم الجَحِيمَ صَلوة (2) - پھر اسے جہنم میں داخل کرو - سورہ مدثر میں ھے ما صليته سقدر (۴) ۔ میں اسے دوزخ میں تاج - ** راغب - محيط ***

لغات القرآن

۱۰۴۷

ص م د

داخل کرونگا - سوره واقعه ميں هي تتصلية جحيم (97) جهنم ميس جلانا - اصطلى ) استانى ( آگ تاپنا اور اس سے گرمی حاصل کرنا ۔ لعلكم تعطلون (٢) -

ص م ت
 

اربش علی

محفلین
یہ غلام احمد پرویز کی اتنی مدلل بات ہے.اپنی مرضی کے معانی کہیں سے نہیں لیے انہوں نے
دیکھیں یہ بات سمجھیں کہ زبانیں کس طرح کام کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک لفظ ہے "سود"، جس کا عربی متبادل الربوا ہے۔ اب جب بھی آپ سود کا لفظ سنیں گی، یا کوئی عربی گو الربا کا لفظ سنے گا، اس کے ذہن میں فوراً نقشہ ابھر آئے گا کہ کس چیز کی بات ہو رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ اس کا مادہ دیکھے گا، پھر لغت میں جائے گا،اس کے تمام متعلقات دیکھ کر اس کا ماخذ تلاش کرے گا، اور پھر اس کے معنی کی تاویل کرے گا۔ آپ سود بمعنی ربا کا لفظ سن کر یہ نہیں سوچیں گی، کہ یہ لفظ فارسی سے آیا ہے، اس کے معنی فائدہ کے ہوتے ہیں، یہاں زر کی بات ہو رہی ہے، تو یہ زر پر ناجائز فائدہ ہو گا۔ کوئی عربی گو الربا سن کر یہ نہیں سوچے گا کہ ربوۃ بلند ٹیلے کو کہتے ہیں، رب و کے مادے کا معنی بلند کرنا ہے، زر پر بلندی یعنی اس پر منافع۔۔۔۔۔ اور آگے کی تاویلیں۔
کیوں؟؟ اسے کیوں اس سب کی ضرورت نہیں؟ اس لیے کہ یہ سب محکم، مستعمل اور مانوس اصطلاحات (ٹرمینولوجیز) ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس اصطلاح کا یہ معنی ہے، یہ دائرۂ کار ہے۔ کسی کو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں، اس لفظ کا ماخذ تلاش کر کے اس کی از سرِ نو تعریف کی حاجت نہیں۔
قرآن عربی زبان میں عربوں پر نازل ہوا۔ آپ کے خیال میں کیا وہ اپنی ہی زبان سے ناواقف ہوں گے؟ آپ کے خیال میں کیا انھیں لفظ صلاۃ سن کر غلام احمد پرویز صاحب کی طرح تاویل کرنی پڑی ہوگی، کہ اس کا مادہ فلاں ہے، اس سے مشتق افعال اور اسما یہ یہ ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ لفظ صلاۃ ان کے لیے ایک مانوس اصطلاح تھی، اسی معنی میں جس کے لیے ہمارے پاس نماز کی اصطلاح موجود ہے۔
آپ کو بظاہر پرویز صاحب کی باتیں محقق اور مدلل لگ رہی ہیں، مگر یہ سب قیاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے میں نے جاوید احمد غامدی صاحب کا قول نقل کیا کہ غلام احمد پرویز نے گھر بیٹھے اپنی ہی عربی ایجاد کر لی ہے۔ ان کے مطابق یہ لغت اٹھائیں گے، ایک طرف قرآن رکھیں گے، تاریخ، حدیث، اور سب سے بڑھ کراہلِ زبان کی سمجھ کو چولھے میں جھونک کر لفظوں کا کھیل کھیلیں گے، اور زمین کو آسمان سے ملا دیں گے۔ قاری پڑھ کر مسحور ہو جائے گا، کہ اتنی مدلل گفتگو!! جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ لنگویسٹکس کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی جانچ سکتا ہے کہ یہ سب قیاس کے سوا کچھ نہیں۔
پرویز صاحب کے دعوے کے مطابق صلاۃاگر اتناعظیم نظام ہے اسلام میں، تو تاریخ میں، یا حدیث میں، یا سنت جو ہم تک تواتر سے پہنچی ہے، اس کے بارے میں ذرا سا بھی اشارہ کیوں موجود نہیں؟ نماز بحیثیت طریقۂ عبادت کا ذکر آپ کو جابجا قرآن و حدیث میں ملے گا، سنت کے ذریعے سے ہم سب کو معلوم ہے کہ پانچ وقت نماز فرض کی گئی ہے، پڑھنے کا یہ طریقہ ہے۔ مگر پرویز صاحب کے اس نظام سے سب بے خبر کیوں ہیں؟ کیا اتنا بنیادی اہمیت کا حامل نظام جو ان کے مطابق دین کی اصل ہے، تاریخ کے اوراق سے یکسر غائب ہو گیا، اور ہم بے چاروں کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر صرف اچانک پرویز صاحب کو یاد آیا کہ یہ نظام ہم سے غائب ہو گیا، اور باقی مسلمان اور تمام علما اب تک لاعلم ہیں؟
نماز جو ایک طریقۂ عبادت ہے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پرویز صاحب کے دعوے کے برعکس قرآن میں جہاں کہیں اقامتِ صلات کا ذکر ہے، اس سے مراد نماز ہی ہے، جیسا کہ حضور نے سمجھایا، اور سب اہلِ عرب نے سمجھا، اور تواتر سے نسل در نسل ہم تک منتقل ہوا۔
نماز کی تاریخ کے لیے جاوید احمد غامدی صاحب کا مضمون پیش کر رہا ہوں:

نماز کی تاریخ

نماز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنی خود مذہب کی ہے ۔ اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اِس کے مراسم اور اوقات بھی کم و بیش متعین رہے ہیں۔ ہندوؤں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اِسی کی یادگاریں ہیں ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اِس کی تعلیم دی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دین ابراہیمی کی تجدید کے لیے ہوئی ، اُس میں بھی اِس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ام القریٰ کی وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تو اِس کا مقصد یہ بتایا کہ ’رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ [16] ( پروردگار، اِس لیے کہ وہ اِس گھر میں نماز کا اہتمام کریں)۔ اِس موقع پر اُنھوں نے دعا فرمائی: ’رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘ [17] (پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی)۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ’کَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ‘ [18] ( وہ اپنے لوگوں کو نماز کی تلقین کرتا تھا)۔ سیدنا شعیب کو اُن کی قوم نے طعنہ دیا کہ ’اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا‘ [19] ( کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے) ۔ سیدنا اسحق اور سیدنا یعقوب کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے: ’اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ‘ [20] ( اُن کو نیک کام کرنے اور نماز کا اہتمام رکھنے کا حکم بھیجا)۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی تو حکم دیا گیا: ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ‘ [21] ( میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو)۔ زکریا علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہوا ہے: ’وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ‘ [22] (جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا )۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے: ’وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ‘ [23] ( اُس نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ نماز کا اہتمام کروں)۔ لقمان عرب کے حکیم تھے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: ’یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘ [24] (بیٹے، نماز کا اہتمام رکھو)۔ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ’اِنِّیْ مَعَکُمْ، لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ...لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘ [25] ( میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا ...تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا )۔ قرآن کی گواہی ہے کہ زمانۂ رسالت میں یہود و نصاریٰ کے صالحین نماز کا اہتمام کرتے تھے :

مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۱۳)
’’ اِن میں ایک گروہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ وہ راتوں کو اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے اور (اُس کے سامنے) سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی انبیا علیہم السلام کی تصدیق اور اُن کی لائی ہوئی شریعت کی پابندی کا جو عہد اُنھوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا، اُس پر پوری طرح قائم ہیں۔

یہی بات اُس زمانے کے مشرکین عرب کے متعلق بھی بیان ہوئی ہے :

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.(الماعون ۱۰۷: ۴۔۵)
’’سو بربادی ہے (حرم کے پروہت) اِن نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے غافل ہیں۔‘‘

یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ قریش بیت اللہ کے متولی تھے اور اپنی اِس حیثیت کے پیش نظر اپنی مذہبیت کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے نمازیں بھی ادا کر لیتے تھے۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قائم کردہ سنت کی جو کچھ باقیات رہ گئی تھیں، یہ نمازیں اُسی کے مطابق ادا کی جاتی تھیں۔

جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے :
وأدرکن أعجازًا من اللیل بعد ما
أقام الصلٰوۃ العابد المتحنف
’’اور اِن سواریوں نے رات کے پچھلے حصے کو پا لیا ، جب کہ عبادت گزار حنیفی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ ‘‘

اعشیٰ وائل کا شعر ہے :
وسبح علی حین العشیات والضحٰی
ولا تعبد الشیطان، واللّٰہ فاعبدا
’’اور صبح و شام تسبیح کرو، [26] اور شیطان کی عبادت نہ کرو ، بلکہ اللہ کی عبادت کرو۔‘‘
روایتوں میں بھی یہود و نصاریٰ اور دین ابراہیمی کے پیرووں کی نماز کا ذکر ہوا ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر نے یا غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو دونوں میں نماز پڑھے اور اگر ایک ہی ہو تو تہ بند باندھ لے ، اُسے نماز میں یہودیوں کی طرح چادر بنا کر لپیٹے نہیں ۔ [27]

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نماز پڑھتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے ۔ [28]

یہودونصاریٰ کی نماز کا ذکر بائیبل میں بھی جگہ جگہ ہوا ہے اور جس طرح قرآن نے بعض مقامات پر نماز کو اللہ کا نام لینے، قرآن پڑھنے ، دعا کرنے ، تسبیح کرنے اور رکوع و سجود کرنے سے تعبیر کیا ہے ، اِسی طرح بائیبل میں بھی نماز کو اِس کے ارکان سے تعبیر کیا گیاہے ۔

پیدایش میں ہے :
’’اور وہاں سے کوچ کر کے (ابراہیم) اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عی مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۱۲: ۸)
’’تب ابراہیم سجدہ ریز ہو گیا اور خدا نے اُس سے ہم کلام ہو کر فرمایا ۔ ‘‘ (۱۷: ۳)
’’سو وہ مرد وہاں سے مڑے اور سدوم کی طرف چلے ، پر ابراہیم خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا ۔‘‘ (۱۸: ۲۲)
’’تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو ۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘ (۲۲: ۵)
’’اور (اسحق) نے وہاں قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۲۶: ۲۵)

خروج میں ہے :
’’تب لوگوں نے اُن کا یقین کیا اور یہ سن کر کہ خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر لی اور اُن کے دکھوں پر نظر کی ، اُنھوں نے اپنے سرجھکا کرسجدہ کیا۔‘‘ (۴: ۳۱)

زبور میں ہے :
’’اے خداوند، تو صبح کو میری آواز سنے گا ۔ میں سویرے ہی تیرے حضور میں نماز کے بعد انتظار کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۳)
’’لیکن میں تیری شفقت کی کثرت سے تیرے گھر میں آؤں گا ۔ میں تیرا رعب مان کر تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۷)
’’پر میں تو خداوند کو پکاروں گا اور خداوند مجھے بچا لے گا ۔ صبح و شام اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور نالہ کروں گا اور وہ میری آواز سن لے گا ۔ ‘‘ (۵۵: ۱۶۔۱۷)
’’سمندر اُس کا ہے ۔ اُسی نے اُس کو بنایا ہے اور اُسی کے ہاتھوں نے خشکی کو بھی تیار کیا۔ آؤ، ہم رکوع و سجود کریں اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں، کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے ۔ ‘‘ (۹۵: ۵۔۶)
’’میں تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا اور تیری شفقت اور سچائی کی خاطر تیرے نام کا شکر کروں گا ، کیونکہ تو نے اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت دی ہے ۔ ‘‘ (۱۳۸: ۲)

سلاطین اول میں ہے:
’’جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اور اُس گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اور تجھ سے مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم بنی اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور اُن کو اُس ملک میں جو تو نے اُن کے باپ دادا کو دیا ، پھر لے آنا۔‘‘ (۸: ۳۳۔ ۳۴)

یرمیاہ میں ہے :
’’تو خداوند کے گھر کے پھاٹک پر کھڑا ہو اور وہاں اِس کلام کی منادی کرا دو کہ اے یہوداہ کے سب لوگو جو خداوند کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے اِن پھاٹکوں سے داخل ہوتے ہو، خداوند کا کلام سنو۔‘‘ (۷: ۲)

دانیال میں ہے :
’’جب دانیال کو معلوم ہوا کہ نوشتہ پر دستخط ہو گئے تو وہ اپنے گھر آیا اور اپنی کوٹھڑی کا دروازہ جو بیت المقدس کی طرف تھا، کھول کر اور دن میں تین مرتبہ گھٹنے ٹیک کر اپنے پروردگار کے حضور میں اُسی طرح نماز پڑھتا اور تسبیح و تحمید کرتا رہا ، جس طرح پہلے کرتا تھا۔ ‘‘ (۶: ۱۰)
’’اور میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور نماز اور دعاؤں کے ذریعے سے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا طالب ہوا ۔ ‘‘ (۹: ۳)

متی میں ہے :
’’اور لوگوں کو رخصت کر کے (یسوع) تنہا نماز پڑھنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔‘‘(۱۴: ۲۳)
’’اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا : یہیں بیٹھے رہنا ، جب تک کہ میں وہاں جا کر نماز پڑھ لوں۔ ‘‘ (۲۶: ۳۶)
’’پھر ذرا آگے بڑھا اور سجدہ ریز ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے یوں دعا کی کہ اے میرے باپ، اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے ۔ ‘‘ (۲۶: ۳۹)

مرقس میں ہے :
’’اور وہ صبح سویرے اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہ اُس جگہ نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ (۱: ۳۵)

لوقا میں ہے :
’’اور اُن سے کہا: تم سوتے کیوں ہو ، اٹھو اور نماز پڑھو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔‘‘ (۲۲: ۴۶)

اعمال میں ہے :
’’پطرس اور یوحنا نماز کے وقت ، یعنی دن کی نویں گھڑی میں ۲۹؂ [29] ہیکل کو جا رہے تھے ۔ ‘‘ (۳: ۱)
’’دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس ساتویں گھڑی ۳۰؂ [30] کے قریب کوٹھے پر نماز پڑھنے کو چڑھا۔‘‘ (۱۰: ۹)
’’اور اُس پر غور کر کے اُس یوحنا کی ماں مریم کے گھر آیا جو مرقس کہلاتا ہے ۔ وہاں بہت سے آدمی جمع ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘‘ (۱۲: ۱۲)
’’اور سبت کے دن ہم شہر کے دروازے کے باہر ندی کے کنارے گئے ، جہاں نماز کا معمول تھا اور بیٹھ کر اُن عورتوں سے جو اکٹھی ہوئی تھیں ، کلام کرنے لگے ۔ ‘‘ (۱۶: ۱۳)
’’اور آدھی رات کے قریب پولس اور سیلاس نماز پڑھ رہے اور اللہ کی تسبیح کر رہے تھے اور قیدی (اُن کی یہ تسبیح و مناجات) سن رہے تھے ۔ ‘‘ (۱۶: ۲۵)
’’اُس نے یہ کہہ کر گھٹنے ٹیکے اور اُن سب کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ [31] (۲۰: ۳۶)

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ہمیشہ سے پانچ وقت ہی ادا کی جاتی رہی ہے ۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ یہ بات خود جبریل امین نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ [32] اِس میں شبہ نہیں کہ یہود کے ہاں اب تین نمازیں ہیں اور اوپر کے اقتباسات میں بھی ایک جگہ تین ہی نمازوں کا ذکر ہوا ہے ، لیکن لوئی گنز برگ نے یروشلم کی تالمود پر اپنی تحقیقات میں واضح کیا ہے کہ یہود کے ہاں بھی یہ رواج بالکل اُسی طرح ہوا ، جس طرح ہمارے ہاں اہل تشیع نے جمع بین الصلوٰتین کے طریقے پر ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کو اکٹھا کر کے پانچ نمازوں کو عملاً تین نمازوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ اُس نے بتایا ہے کہ تالمود کے زمانے میں یہود دن میں پانچ وقت نماز کے لیے جمع ہوتے تھے : تین مرتبہ اُن نمازوں کے لیے جو اِس وقت بھی ادا کی جاتی ہیں اور دو مرتبہ ’ شیما‘ کی تلاوت کے لیے ۔ تاہم بعد میں بعض عملی دشواریوں کے پیش نظر صبح اور شام کی دو دو نمازوں کو جمع کر کے وہ صورت پیدا کر لی گئی جو اب رائج ہے ۔ [33]

نزول قرآن کے بعد اب سورۂ فاتحہ نماز کی دعا ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے اِس طرح کی دعا تمام الہامی کتابوں میں نازل کی گئی ۔

تورات کی دعا یہ ہے :
’’خداوند، خداوند، خداے رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیمااور شفقت اور وفا میں غنی ۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کار کا بخشنے والا، لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا ، بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے ۔‘‘ [34] (خروج ۳۴: ۶۔۷)

زبور کی دعا یہ ہے :
’’اے خداوند، اپنا کان جھکا اور مجھے جواب دے ، کیونکہ میں مسکین اور محتاج ہوں ۔ میری جان کی حفاظت کر، کیونکہ میں دین دار ہوں ۔ اے میرے خدا، اپنے بندے کو جس کا توکل تجھ پر ہے ، بچا لے ۔ یارب ، مجھ پر رحم کر، کیونکہ میں دن بھر تجھ سے فریاد کرتا ہوں ۔ یا رب ، اپنے بندے کی جان کو شاد کر دے، کیونکہ میں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں ۔ اِس لیے کہ تو یارب، نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے ۔
اے خداوند ، میری دعا پر کان لگا اور میری منت کی آواز پر توجہ فرما۔ میں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دعا کروں گا ، کیونکہ تو مجھے جواب دے گا ۔ یا رب ، معبودوں میں تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صنعتیں بے مثال ہیں۔ یا رب ، سب قو میں جن کو تو نے بنایا آ کر تیرے حضور سجدہ کریں گی اور تیرے نام کی تمجید کریں گی ، کیونکہ تو بزرگ ہے اور عجیب و غریب کام کرتا ہے ۔ تو ہی واحد خدا ہے ۔
اے خداوند ، مجھ کو اپنی راہ کی تعلیم دے ۔ میں تیری راستی میں چلوں گا ۔ میرے دل کو یک سوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں ۔ یا رب ، میرے خدا ، میں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ میں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا، کیونکہ مجھ پر تیری بڑی شفقت ہے ۔ اور تو نے میری جان کو پاتال کی تہ سے نکالا ہے ۔
اے خدا، مغرور میرے خلاف اٹھے ہیں اور تند خو جماعت میری جان کے پیچھے پڑی ہے اور اُنھوں نے تجھے اپنے سامنے نہیں رکھا۔ لیکن تو یا رب ، رحیم وکریم خدا ہے ۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت و راستی میں غنی۔ میری طرف متوجہ ہو اور مجھ پر رحم کر۔ اپنے بندے کو اپنی قوت بخش اور اپنی لونڈی کے بیٹے کو بچا لے ۔ مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھا تاکہ مجھ سے عداوت رکھنے والے اُسے دیکھ کر شرمندہ ہوں ، کیونکہ تو نے اے خداوند، میری مدد کی اور مجھے تسلی دی ہے ۔ ‘‘(۸۶: ۱۔۱۷)

انجیل کی دعا یہ ہے :
’’اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے ۔ تیری بادشاہی آئے ۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ، زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے ، تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا، بلکہ برائی سے بچا ، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین ۔ ‘‘ (متی ۶: ۹۔۱۳)

یہ نماز کی تاریخ ہے ۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب لوگوں کو اِس کا حکم دیا تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اِس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِس کی تفصیلات بیان کرتا۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اُسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ ، وہ اُسی طرح اِسے ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اِس کا ماخذ اب مسلمانوں کا اجماع اور اُن کا عملی تواتر ہے ۔ اِس کی تفصیلات ہم اِسی سے اخذ کر کے آگے کے مباحث میں بیان کریں گے۔

حواشی:
18 ابراہیم ۱۴: ۳۷۔
17 ابراہیم ۱۴: ۴۰۔
18 مریم ۱۹: ۵۵۔
19 ہود ۱۱: ۸۷۔
20 الانبیاء ۲۱: ۷۳۔
21 طٰہٰ ۲۰: ۱۴۔
22 آل عمران ۳: ۳۹۔
23 مریم ۱۹: ۳۱۔
24 لقمان ۳۱: ۱۷۔
25 المائدہ ۵: ۱۲۔
26 قرینہ دلیل ہے کہ ’ تسبیح‘ کا لفظ یہاں نماز کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر یہ اِسی مفہوم میں آیا ہے۔
27 ابوداؤد، رقم ۶۳۵۔
28 مسلم، رقم ۶۳۵۹۔
29 اِس سے مراد تیسرا پہر ہے ، یعنی عصر کا وقت۔
30 مراد ہے دوپہر، یعنی ظہر کا وقت۔
31 بائیبل کے یہ تمام اقتباسات اُس کے عربی ترجمے کے مطابق ہیں جو براہ راست یونانی زبان سے ہوا ہے۔
32 ابوداؤد ، رقم ۳۹۳۔
33 Judaism in Islam، ابراہام کیٹش ۱۰۔
34 سیدنا ابراہیم کی ذریت کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کے اُس خاص قانون کا حوالہ ہے جس کے تحت قومی حیثیت سے اُن کے جرائم کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں دی جاتی رہی ہے۔


اب اگر پرویز صاحب تاریخ ہی سے منکر ہوں تو کیا کر سکتے ہیں!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تاریخ سے
دیکھیں یہ بات سمجھیں کہ زبانیں کس طرح کام کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک لفظ ہے "سود"، جس کا عربی متبادل الربوا ہے۔ اب جب بھی آپ سود کا لفظ سنیں گی، یا کوئی عربی گو الربا کا لفظ سنے گا، اس کے ذہن میں فوراً نقشہ ابھر آئے گا کہ کس چیز کی بات ہو رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ اس کا مادہ دیکھے گا، پھر لغت میں جائے گا،اس کے تمام متعلقات دیکھ کر اس کا ماخذ تلاش کرے گا، اور پھر اس کے معنی کی تاویل کرے گا۔ آپ سود بمعنی ربا کا لفظ سن کر یہ نہیں سوچیں گی، کہ یہ لفظ فارسی سے آیا ہے، اس کے معنی فائدہ کے ہوتے ہیں، یہاں زر کی بات ہو رہی ہے، تو یہ زر پر ناجائز فائدہ ہو گا۔ کوئی عربی گو الربا سن کر یہ نہیں سوچے گا کہ ربوۃ بلند ٹیلے کو کہتے ہیں، رب و کے مادے کا معنی بلند کرنا ہے، زر پر بلندی یعنی اس پر منافع۔۔۔۔۔ اور آگے کی تاویلیں۔
کیوں؟؟ اسے کیوں اس سب کی ضرورت نہیں؟ اس لیے کہ یہ سب محکم، مستعمل اور مانوس اصطلاحات (ٹرمینولوجیز) ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس اصطلاح کا یہ معنی ہے، یہ دائرۂ کار ہے۔ کسی کو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں، اس لفظ کا ماخذ تلاش کر کے اس کی از سرِ نو تعریف کی حاجت نہیں۔
قرآن عربی زبان میں عربوں پر نازل ہوا۔ آپ کے خیال میں کیا وہ اپنی ہی زبان سے ناواقف ہوں گے؟ آپ کے خیال میں کیا انھیں لفظ صلاۃ سن کر غلام احمد پرویز صاحب کی طرح تاویل کرنی پڑی ہوگی، کہ اس کا مادہ فلاں ہے، اس سے مشتق افعال اور اسما یہ یہ ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ لفظ صلاۃ ان کے لیے ایک مانوس اصطلاح تھی، اسی معنی میں جس کے لیے ہمارے پاس نماز کی اصطلاح موجود ہے۔
آپ کو بظاہر پرویز صاحب کی باتیں محقق اور مدلل لگ رہی ہیں، مگر یہ سب قیاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے میں نے جاوید احمد غامدی صاحب کا قول نقل کیا کہ غلام احمد پرویز نے گھر بیٹھے اپنی ہی عربی ایجاد کر لی ہے۔ ان کے مطابق یہ لغت اٹھائیں گے، ایک طرف قرآن رکھیں گے، تاریخ، حدیث، اور سب سے بڑھ کراہلِ زبان کی سمجھ کو چولھے میں جھونک کر لفظوں کا کھیل کھیلیں گے، اور زمین کو آسمان سے ملا دیں گے۔ قاری پڑھ کر مسحور ہو جائے گا، کہ اتنی مدلل گفتگو!! جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ لنگویسٹکس کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی جانچ سکتا ہے کہ یہ سب قیاس کے سوا کچھ نہیں۔
پرویز صاحب کے دعوے کے مطابق صلاۃاگر اتناعظیم نظام ہے اسلام میں، تو تاریخ میں، یا حدیث میں، یا سنت جو ہم تک تواتر سے پہنچی ہے، اس کے بارے میں ذرا سا بھی اشارہ کیوں موجود نہیں؟ نماز بحیثیت طریقۂ عبادت کا ذکر آپ کو جابجا قرآن و حدیث میں ملے گا، سنت کے ذریعے سے ہم سب کو معلوم ہے کہ پانچ وقت نماز فرض کی گئی ہے، پڑھنے کا یہ طریقہ ہے۔ مگر پرویز صاحب کے اس نظام سے سب بے خبر کیوں ہیں؟ کیا اتنا بنیادی اہمیت کا حامل نظام جو ان کے مطابق دین کی اصل ہے، تاریخ کے اوراق سے یکسر غائب ہو گیا، اور ہم بے چاروں کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر صرف اچانک پرویز صاحب کو یاد آیا کہ یہ نظام ہم سے غائب ہو گیا، اور باقی مسلمان اور تمام علما اب تک لاعلم ہیں؟
نماز جو ایک طریقۂ عبادت ہے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پرویز صاحب کے دعوے کے برعکس قرآن میں جہاں کہیں اقامتِ صلات کا ذکر ہے، اس سے مراد نماز ہی ہے، جیسا کہ حضور نے سمجھایا، اور سب اہلِ عرب نے سمجھا، اور تواتر سے نسل در نسل ہم تک منتقل ہوا۔
نماز کی تاریخ کے لیے جاوید احمد غامدی صاحب کا مضمون پیش کر رہا ہوں:

نماز کی تاریخ

نماز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنی خود مذہب کی ہے ۔ اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اِس کے مراسم اور اوقات بھی کم و بیش متعین رہے ہیں۔ ہندوؤں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اِسی کی یادگاریں ہیں ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اِس کی تعلیم دی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دین ابراہیمی کی تجدید کے لیے ہوئی ، اُس میں بھی اِس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ام القریٰ کی وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تو اِس کا مقصد یہ بتایا کہ ’رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ [16] ( پروردگار، اِس لیے کہ وہ اِس گھر میں نماز کا اہتمام کریں)۔ اِس موقع پر اُنھوں نے دعا فرمائی: ’رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘ [17] (پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی)۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ’کَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ‘ [18] ( وہ اپنے لوگوں کو نماز کی تلقین کرتا تھا)۔ سیدنا شعیب کو اُن کی قوم نے طعنہ دیا کہ ’اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا‘ [19] ( کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے) ۔ سیدنا اسحق اور سیدنا یعقوب کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے: ’اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ‘ [20] ( اُن کو نیک کام کرنے اور نماز کا اہتمام رکھنے کا حکم بھیجا)۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی تو حکم دیا گیا: ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ‘ [21] ( میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو)۔ زکریا علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہوا ہے: ’وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ‘ [22] (جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا )۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے: ’وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ‘ [23] ( اُس نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ نماز کا اہتمام کروں)۔ لقمان عرب کے حکیم تھے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: ’یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘ [24] (بیٹے، نماز کا اہتمام رکھو)۔ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ’اِنِّیْ مَعَکُمْ، لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ...لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘ [25] ( میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا ...تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا )۔ قرآن کی گواہی ہے کہ زمانۂ رسالت میں یہود و نصاریٰ کے صالحین نماز کا اہتمام کرتے تھے :

مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۱۳)
’’ اِن میں ایک گروہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ وہ راتوں کو اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے اور (اُس کے سامنے) سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی انبیا علیہم السلام کی تصدیق اور اُن کی لائی ہوئی شریعت کی پابندی کا جو عہد اُنھوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا، اُس پر پوری طرح قائم ہیں۔

یہی بات اُس زمانے کے مشرکین عرب کے متعلق بھی بیان ہوئی ہے :

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.(الماعون ۱۰۷: ۴۔۵)
’’سو بربادی ہے (حرم کے پروہت) اِن نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے غافل ہیں۔‘‘

یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ قریش بیت اللہ کے متولی تھے اور اپنی اِس حیثیت کے پیش نظر اپنی مذہبیت کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے نمازیں بھی ادا کر لیتے تھے۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قائم کردہ سنت کی جو کچھ باقیات رہ گئی تھیں، یہ نمازیں اُسی کے مطابق ادا کی جاتی تھیں۔

جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے :
وأدرکن أعجازًا من اللیل بعد ما
أقام الصلٰوۃ العابد المتحنف
’’اور اِن سواریوں نے رات کے پچھلے حصے کو پا لیا ، جب کہ عبادت گزار حنیفی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ ‘‘

اعشیٰ وائل کا شعر ہے :
وسبح علی حین العشیات والضحٰی
ولا تعبد الشیطان، واللّٰہ فاعبدا
’’اور صبح و شام تسبیح کرو، [26] اور شیطان کی عبادت نہ کرو ، بلکہ اللہ کی عبادت کرو۔‘‘
روایتوں میں بھی یہود و نصاریٰ اور دین ابراہیمی کے پیرووں کی نماز کا ذکر ہوا ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر نے یا غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو دونوں میں نماز پڑھے اور اگر ایک ہی ہو تو تہ بند باندھ لے ، اُسے نماز میں یہودیوں کی طرح چادر بنا کر لپیٹے نہیں ۔ [27]

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نماز پڑھتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے ۔ [28]

یہودونصاریٰ کی نماز کا ذکر بائیبل میں بھی جگہ جگہ ہوا ہے اور جس طرح قرآن نے بعض مقامات پر نماز کو اللہ کا نام لینے، قرآن پڑھنے ، دعا کرنے ، تسبیح کرنے اور رکوع و سجود کرنے سے تعبیر کیا ہے ، اِسی طرح بائیبل میں بھی نماز کو اِس کے ارکان سے تعبیر کیا گیاہے ۔

پیدایش میں ہے :
’’اور وہاں سے کوچ کر کے (ابراہیم) اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عی مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۱۲: ۸)
’’تب ابراہیم سجدہ ریز ہو گیا اور خدا نے اُس سے ہم کلام ہو کر فرمایا ۔ ‘‘ (۱۷: ۳)
’’سو وہ مرد وہاں سے مڑے اور سدوم کی طرف چلے ، پر ابراہیم خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا ۔‘‘ (۱۸: ۲۲)
’’تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو ۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘ (۲۲: ۵)
’’اور (اسحق) نے وہاں قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۲۶: ۲۵)

خروج میں ہے :
’’تب لوگوں نے اُن کا یقین کیا اور یہ سن کر کہ خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر لی اور اُن کے دکھوں پر نظر کی ، اُنھوں نے اپنے سرجھکا کرسجدہ کیا۔‘‘ (۴: ۳۱)

زبور میں ہے :
’’اے خداوند، تو صبح کو میری آواز سنے گا ۔ میں سویرے ہی تیرے حضور میں نماز کے بعد انتظار کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۳)
’’لیکن میں تیری شفقت کی کثرت سے تیرے گھر میں آؤں گا ۔ میں تیرا رعب مان کر تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۷)
’’پر میں تو خداوند کو پکاروں گا اور خداوند مجھے بچا لے گا ۔ صبح و شام اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور نالہ کروں گا اور وہ میری آواز سن لے گا ۔ ‘‘ (۵۵: ۱۶۔۱۷)
’’سمندر اُس کا ہے ۔ اُسی نے اُس کو بنایا ہے اور اُسی کے ہاتھوں نے خشکی کو بھی تیار کیا۔ آؤ، ہم رکوع و سجود کریں اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں، کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے ۔ ‘‘ (۹۵: ۵۔۶)
’’میں تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا اور تیری شفقت اور سچائی کی خاطر تیرے نام کا شکر کروں گا ، کیونکہ تو نے اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت دی ہے ۔ ‘‘ (۱۳۸: ۲)

سلاطین اول میں ہے:
’’جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اور اُس گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اور تجھ سے مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم بنی اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور اُن کو اُس ملک میں جو تو نے اُن کے باپ دادا کو دیا ، پھر لے آنا۔‘‘ (۸: ۳۳۔ ۳۴)

یرمیاہ میں ہے :
’’تو خداوند کے گھر کے پھاٹک پر کھڑا ہو اور وہاں اِس کلام کی منادی کرا دو کہ اے یہوداہ کے سب لوگو جو خداوند کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے اِن پھاٹکوں سے داخل ہوتے ہو، خداوند کا کلام سنو۔‘‘ (۷: ۲)

دانیال میں ہے :
’’جب دانیال کو معلوم ہوا کہ نوشتہ پر دستخط ہو گئے تو وہ اپنے گھر آیا اور اپنی کوٹھڑی کا دروازہ جو بیت المقدس کی طرف تھا، کھول کر اور دن میں تین مرتبہ گھٹنے ٹیک کر اپنے پروردگار کے حضور میں اُسی طرح نماز پڑھتا اور تسبیح و تحمید کرتا رہا ، جس طرح پہلے کرتا تھا۔ ‘‘ (۶: ۱۰)
’’اور میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور نماز اور دعاؤں کے ذریعے سے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا طالب ہوا ۔ ‘‘ (۹: ۳)

متی میں ہے :
’’اور لوگوں کو رخصت کر کے (یسوع) تنہا نماز پڑھنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔‘‘(۱۴: ۲۳)
’’اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا : یہیں بیٹھے رہنا ، جب تک کہ میں وہاں جا کر نماز پڑھ لوں۔ ‘‘ (۲۶: ۳۶)
’’پھر ذرا آگے بڑھا اور سجدہ ریز ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے یوں دعا کی کہ اے میرے باپ، اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے ۔ ‘‘ (۲۶: ۳۹)

مرقس میں ہے :
’’اور وہ صبح سویرے اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہ اُس جگہ نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ (۱: ۳۵)

لوقا میں ہے :
’’اور اُن سے کہا: تم سوتے کیوں ہو ، اٹھو اور نماز پڑھو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔‘‘ (۲۲: ۴۶)

اعمال میں ہے :
’’پطرس اور یوحنا نماز کے وقت ، یعنی دن کی نویں گھڑی میں ۲۹؂ [29] ہیکل کو جا رہے تھے ۔ ‘‘ (۳: ۱)
’’دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس ساتویں گھڑی ۳۰؂ [30] کے قریب کوٹھے پر نماز پڑھنے کو چڑھا۔‘‘ (۱۰: ۹)
’’اور اُس پر غور کر کے اُس یوحنا کی ماں مریم کے گھر آیا جو مرقس کہلاتا ہے ۔ وہاں بہت سے آدمی جمع ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘‘ (۱۲: ۱۲)
’’اور سبت کے دن ہم شہر کے دروازے کے باہر ندی کے کنارے گئے ، جہاں نماز کا معمول تھا اور بیٹھ کر اُن عورتوں سے جو اکٹھی ہوئی تھیں ، کلام کرنے لگے ۔ ‘‘ (۱۶: ۱۳)
’’اور آدھی رات کے قریب پولس اور سیلاس نماز پڑھ رہے اور اللہ کی تسبیح کر رہے تھے اور قیدی (اُن کی یہ تسبیح و مناجات) سن رہے تھے ۔ ‘‘ (۱۶: ۲۵)
’’اُس نے یہ کہہ کر گھٹنے ٹیکے اور اُن سب کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ [31] (۲۰: ۳۶)

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ہمیشہ سے پانچ وقت ہی ادا کی جاتی رہی ہے ۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ یہ بات خود جبریل امین نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ [32] اِس میں شبہ نہیں کہ یہود کے ہاں اب تین نمازیں ہیں اور اوپر کے اقتباسات میں بھی ایک جگہ تین ہی نمازوں کا ذکر ہوا ہے ، لیکن لوئی گنز برگ نے یروشلم کی تالمود پر اپنی تحقیقات میں واضح کیا ہے کہ یہود کے ہاں بھی یہ رواج بالکل اُسی طرح ہوا ، جس طرح ہمارے ہاں اہل تشیع نے جمع بین الصلوٰتین کے طریقے پر ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کو اکٹھا کر کے پانچ نمازوں کو عملاً تین نمازوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ اُس نے بتایا ہے کہ تالمود کے زمانے میں یہود دن میں پانچ وقت نماز کے لیے جمع ہوتے تھے : تین مرتبہ اُن نمازوں کے لیے جو اِس وقت بھی ادا کی جاتی ہیں اور دو مرتبہ ’ شیما‘ کی تلاوت کے لیے ۔ تاہم بعد میں بعض عملی دشواریوں کے پیش نظر صبح اور شام کی دو دو نمازوں کو جمع کر کے وہ صورت پیدا کر لی گئی جو اب رائج ہے ۔ [33]

نزول قرآن کے بعد اب سورۂ فاتحہ نماز کی دعا ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے اِس طرح کی دعا تمام الہامی کتابوں میں نازل کی گئی ۔

تورات کی دعا یہ ہے :
’’خداوند، خداوند، خداے رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیمااور شفقت اور وفا میں غنی ۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کار کا بخشنے والا، لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا ، بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے ۔‘‘ [34] (خروج ۳۴: ۶۔۷)

زبور کی دعا یہ ہے :
’’اے خداوند، اپنا کان جھکا اور مجھے جواب دے ، کیونکہ میں مسکین اور محتاج ہوں ۔ میری جان کی حفاظت کر، کیونکہ میں دین دار ہوں ۔ اے میرے خدا، اپنے بندے کو جس کا توکل تجھ پر ہے ، بچا لے ۔ یارب ، مجھ پر رحم کر، کیونکہ میں دن بھر تجھ سے فریاد کرتا ہوں ۔ یا رب ، اپنے بندے کی جان کو شاد کر دے، کیونکہ میں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں ۔ اِس لیے کہ تو یارب، نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے ۔
اے خداوند ، میری دعا پر کان لگا اور میری منت کی آواز پر توجہ فرما۔ میں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دعا کروں گا ، کیونکہ تو مجھے جواب دے گا ۔ یا رب ، معبودوں میں تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صنعتیں بے مثال ہیں۔ یا رب ، سب قو میں جن کو تو نے بنایا آ کر تیرے حضور سجدہ کریں گی اور تیرے نام کی تمجید کریں گی ، کیونکہ تو بزرگ ہے اور عجیب و غریب کام کرتا ہے ۔ تو ہی واحد خدا ہے ۔
اے خداوند ، مجھ کو اپنی راہ کی تعلیم دے ۔ میں تیری راستی میں چلوں گا ۔ میرے دل کو یک سوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں ۔ یا رب ، میرے خدا ، میں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ میں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا، کیونکہ مجھ پر تیری بڑی شفقت ہے ۔ اور تو نے میری جان کو پاتال کی تہ سے نکالا ہے ۔
اے خدا، مغرور میرے خلاف اٹھے ہیں اور تند خو جماعت میری جان کے پیچھے پڑی ہے اور اُنھوں نے تجھے اپنے سامنے نہیں رکھا۔ لیکن تو یا رب ، رحیم وکریم خدا ہے ۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت و راستی میں غنی۔ میری طرف متوجہ ہو اور مجھ پر رحم کر۔ اپنے بندے کو اپنی قوت بخش اور اپنی لونڈی کے بیٹے کو بچا لے ۔ مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھا تاکہ مجھ سے عداوت رکھنے والے اُسے دیکھ کر شرمندہ ہوں ، کیونکہ تو نے اے خداوند، میری مدد کی اور مجھے تسلی دی ہے ۔ ‘‘(۸۶: ۱۔۱۷)

انجیل کی دعا یہ ہے :
’’اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے ۔ تیری بادشاہی آئے ۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ، زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے ، تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا، بلکہ برائی سے بچا ، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین ۔ ‘‘ (متی ۶: ۹۔۱۳)

یہ نماز کی تاریخ ہے ۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب لوگوں کو اِس کا حکم دیا تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اِس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِس کی تفصیلات بیان کرتا۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اُسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ ، وہ اُسی طرح اِسے ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اِس کا ماخذ اب مسلمانوں کا اجماع اور اُن کا عملی تواتر ہے ۔ اِس کی تفصیلات ہم اِسی سے اخذ کر کے آگے کے مباحث میں بیان کریں گے۔

حواشی:
18 ابراہیم ۱۴: ۳۷۔
17 ابراہیم ۱۴: ۴۰۔
18 مریم ۱۹: ۵۵۔
19 ہود ۱۱: ۸۷۔
20 الانبیاء ۲۱: ۷۳۔
21 طٰہٰ ۲۰: ۱۴۔
22 آل عمران ۳: ۳۹۔
23 مریم ۱۹: ۳۱۔
24 لقمان ۳۱: ۱۷۔
25 المائدہ ۵: ۱۲۔
26 قرینہ دلیل ہے کہ ’ تسبیح‘ کا لفظ یہاں نماز کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر یہ اِسی مفہوم میں آیا ہے۔
27 ابوداؤد، رقم ۶۳۵۔
28 مسلم، رقم ۶۳۵۹۔
29 اِس سے مراد تیسرا پہر ہے ، یعنی عصر کا وقت۔
30 مراد ہے دوپہر، یعنی ظہر کا وقت۔
31 بائیبل کے یہ تمام اقتباسات اُس کے عربی ترجمے کے مطابق ہیں جو براہ راست یونانی زبان سے ہوا ہے۔
32 ابوداؤد ، رقم ۳۹۳۔
33 Judaism in Islam، ابراہام کیٹش ۱۰۔
34 سیدنا ابراہیم کی ذریت کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کے اُس خاص قانون کا حوالہ ہے جس کے تحت قومی حیثیت سے اُن کے جرائم کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں دی جاتی رہی ہے۔


اب اگر پرویز صاحب تاریخ ہی سے منکر ہوں تو کیا کر سکتے ہیں!
بہت شکریہ آپکا

آپکی پوسٹ اور پرویز صاحب کی پوسٹ میں مماثلت دکھائی تھی. نماز کا ذکر بھی کیا ہے پانچ وقت کی نماز کا ....
میرا کام جاننا ہے
اس سے سروکار نہیں فلاں کے بارے فلاں کے نظریات کیا ہیں

آپ نے کچھ حوالے بائبل سے دیے اور شاید کچھ تورات سے... بائبل کے خروج کا مطالعہ تو میں نے کیا ہے ....دانیال .... متی....وغیرہ شاید تورات کی کتب ہیں ...

میں نے معانی کے لیے محض پرویز صاحب پر اکتفا نہیں کیا ہے قران کی ہر سورہ سے اسکے معانی نکال کر سمجھ رہی ہوں. ... .. مزید احادیث کی رو سے جاننے کی سعی بھی ہے.... جستجو کا دامن جتن وسیع ہوتا ہے علم اس قدر وسعت پاجاتا ہے....جاوید احمد غامدی کی کتاب لغت کی موجود ہے؟
 

اربش علی

محفلین
میں نے معانی کے لیے محض پرویز صاحب پر اکتفا نہیں کیا ہے قران کی ہر سورہ سے اسکے معانی نکال کر سمجھ رہی ہوں. ... .. مزید احادیث کی رو سے جاننے کی سعی بھی ہے.... جستجو کا دامن جتن وسیع ہوتا ہے علم اس قدر وسعت پاجاتا ہے....جاوید احمد غامدی کی کتاب لغت کی موجود ہے؟
اگر آپ کو الفاظ کے ماخذ، اور تمام استعمالات کے لیے لغت کی تلاش ہے تو یہ لغت مفید ہو گا۔
An Arabic-English Lexicon by Edward William Lane
 
Top