یہ غلام احمد پرویز کی اتنی مدلل بات ہے.اپنی مرضی کے معانی کہیں سے نہیں لیے انہوں نے
دیکھیں یہ بات سمجھیں کہ زبانیں کس طرح کام کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک لفظ ہے "سود"، جس کا عربی متبادل الربوا ہے۔ اب جب بھی آپ سود کا لفظ سنیں گی، یا کوئی عربی گو الربا کا لفظ سنے گا، اس کے ذہن میں فوراً نقشہ ابھر آئے گا کہ کس چیز کی بات ہو رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ اس کا مادہ دیکھے گا، پھر لغت میں جائے گا،اس کے تمام متعلقات دیکھ کر اس کا ماخذ تلاش کرے گا، اور پھر اس کے معنی کی تاویل کرے گا۔ آپ سود بمعنی ربا کا لفظ سن کر یہ نہیں سوچیں گی، کہ یہ لفظ فارسی سے آیا ہے، اس کے معنی فائدہ کے ہوتے ہیں، یہاں زر کی بات ہو رہی ہے، تو یہ زر پر ناجائز فائدہ ہو گا۔ کوئی عربی گو الربا سن کر یہ نہیں سوچے گا کہ ربوۃ بلند ٹیلے کو کہتے ہیں، رب و کے مادے کا معنی بلند کرنا ہے، زر پر بلندی یعنی اس پر منافع۔۔۔۔۔ اور آگے کی تاویلیں۔
کیوں؟؟ اسے کیوں اس سب کی ضرورت نہیں؟ اس لیے کہ یہ سب محکم، مستعمل اور مانوس اصطلاحات (ٹرمینولوجیز) ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس اصطلاح کا یہ معنی ہے، یہ دائرۂ کار ہے۔ کسی کو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں، اس لفظ کا ماخذ تلاش کر کے اس کی از سرِ نو تعریف کی حاجت نہیں۔
قرآن عربی زبان میں عربوں پر نازل ہوا۔ آپ کے خیال میں کیا وہ اپنی ہی زبان سے ناواقف ہوں گے؟ آپ کے خیال میں کیا انھیں لفظ صلاۃ سن کر غلام احمد پرویز صاحب کی طرح تاویل کرنی پڑی ہوگی، کہ اس کا مادہ فلاں ہے، اس سے مشتق افعال اور اسما یہ یہ ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ لفظ صلاۃ ان کے لیے ایک مانوس اصطلاح تھی، اسی معنی میں جس کے لیے ہمارے پاس نماز کی اصطلاح موجود ہے۔
آپ کو بظاہر پرویز صاحب کی باتیں محقق اور مدلل لگ رہی ہیں، مگر یہ سب قیاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے میں نے جاوید احمد غامدی صاحب کا قول نقل کیا کہ غلام احمد پرویز نے گھر بیٹھے اپنی ہی عربی ایجاد کر لی ہے۔ ان کے مطابق یہ لغت اٹھائیں گے، ایک طرف قرآن رکھیں گے، تاریخ، حدیث، اور سب سے بڑھ کراہلِ زبان کی سمجھ کو چولھے میں جھونک کر لفظوں کا کھیل کھیلیں گے، اور زمین کو آسمان سے ملا دیں گے۔ قاری پڑھ کر مسحور ہو جائے گا، کہ اتنی مدلل گفتگو!! جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ لنگویسٹکس کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی جانچ سکتا ہے کہ یہ سب قیاس کے سوا کچھ نہیں۔
پرویز صاحب کے دعوے کے مطابق صلاۃاگر اتناعظیم نظام ہے اسلام میں، تو تاریخ میں، یا حدیث میں، یا سنت جو ہم تک تواتر سے پہنچی ہے، اس کے بارے میں ذرا سا بھی اشارہ کیوں موجود نہیں؟ نماز بحیثیت طریقۂ عبادت کا ذکر آپ کو جابجا قرآن و حدیث میں ملے گا، سنت کے ذریعے سے ہم سب کو معلوم ہے کہ پانچ وقت نماز فرض کی گئی ہے، پڑھنے کا یہ طریقہ ہے۔ مگر پرویز صاحب کے اس نظام سے سب بے خبر کیوں ہیں؟ کیا اتنا بنیادی اہمیت کا حامل نظام جو ان کے مطابق دین کی اصل ہے، تاریخ کے اوراق سے یکسر غائب ہو گیا، اور ہم بے چاروں کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر صرف اچانک پرویز صاحب کو یاد آیا کہ یہ نظام ہم سے غائب ہو گیا، اور باقی مسلمان اور تمام علما اب تک لاعلم ہیں؟
نماز جو ایک طریقۂ عبادت ہے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پرویز صاحب کے دعوے کے برعکس قرآن میں جہاں کہیں اقامتِ صلات کا ذکر ہے، اس سے مراد نماز ہی ہے، جیسا کہ حضور نے سمجھایا، اور سب اہلِ عرب نے سمجھا، اور تواتر سے نسل در نسل ہم تک منتقل ہوا۔
نماز کی تاریخ کے لیے جاوید احمد غامدی صاحب کا مضمون پیش کر رہا ہوں:
نماز کی تاریخ
نماز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنی خود مذہب کی ہے ۔ اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اِس کے مراسم اور اوقات بھی کم و بیش متعین رہے ہیں۔ ہندوؤں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اِسی کی یادگاریں ہیں ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اِس کی تعلیم دی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دین ابراہیمی کی تجدید کے لیے ہوئی ، اُس میں بھی اِس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ام القریٰ کی وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تو اِس کا مقصد یہ بتایا کہ ’رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ‘ [16] ( پروردگار، اِس لیے کہ وہ اِس گھر میں نماز کا اہتمام کریں)۔ اِس موقع پر اُنھوں نے دعا فرمائی: ’رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘ [17] (پروردگار، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی)۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ’کَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ‘ [18] ( وہ اپنے لوگوں کو نماز کی تلقین کرتا تھا)۔ سیدنا شعیب کو اُن کی قوم نے طعنہ دیا کہ ’اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا‘ [19] ( کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کو چھوڑ دیں جنھیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے) ۔ سیدنا اسحق اور سیدنا یعقوب کی نسل کے پیغمبروں کے بارے میں قرآن کا بیان ہے: ’اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ‘ [20] ( اُن کو نیک کام کرنے اور نماز کا اہتمام رکھنے کا حکم بھیجا)۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی تو حکم دیا گیا: ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ‘ [21] ( میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو)۔ زکریا علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہوا ہے: ’وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ‘ [22] (جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا )۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے: ’وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ‘ [23] ( اُس نے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ نماز کا اہتمام کروں)۔ لقمان عرب کے حکیم تھے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی: ’یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘ [24] (بیٹے، نماز کا اہتمام رکھو)۔ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ’اِنِّیْ مَعَکُمْ، لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ...لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘ [25] ( میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا ...تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں تم سے دور کردوں گا )۔ قرآن کی گواہی ہے کہ زمانۂ رسالت میں یہود و نصاریٰ کے صالحین نماز کا اہتمام کرتے تھے :
مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۱۳)
’’ اِن میں ایک گروہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ وہ راتوں کو اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے اور (اُس کے سامنے) سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ ‘‘
یعنی انبیا علیہم السلام کی تصدیق اور اُن کی لائی ہوئی شریعت کی پابندی کا جو عہد اُنھوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا، اُس پر پوری طرح قائم ہیں۔
یہی بات اُس زمانے کے مشرکین عرب کے متعلق بھی بیان ہوئی ہے :
فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.(الماعون ۱۰۷: ۴۔۵)
’’سو بربادی ہے (حرم کے پروہت) اِن نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے غافل ہیں۔‘‘
یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ قریش بیت اللہ کے متولی تھے اور اپنی اِس حیثیت کے پیش نظر اپنی مذہبیت کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے نمازیں بھی ادا کر لیتے تھے۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قائم کردہ سنت کی جو کچھ باقیات رہ گئی تھیں، یہ نمازیں اُسی کے مطابق ادا کی جاتی تھیں۔
جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے :
وأدرکن أعجازًا من اللیل بعد ما
أقام الصلٰوۃ العابد المتحنف
’’اور اِن سواریوں نے رات کے پچھلے حصے کو پا لیا ، جب کہ عبادت گزار حنیفی نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ ‘‘
اعشیٰ وائل کا شعر ہے :
وسبح علی حین العشیات والضحٰی
ولا تعبد الشیطان، واللّٰہ فاعبدا
’’اور صبح و شام تسبیح کرو، [26] اور شیطان کی عبادت نہ کرو ، بلکہ اللہ کی عبادت کرو۔‘‘
روایتوں میں بھی یہود و نصاریٰ اور دین ابراہیمی کے پیرووں کی نماز کا ذکر ہوا ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر نے یا غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو دونوں میں نماز پڑھے اور اگر ایک ہی ہو تو تہ بند باندھ لے ، اُسے نماز میں یہودیوں کی طرح چادر بنا کر لپیٹے نہیں ۔ [27]
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے تین سال پہلے ہی میں نماز پڑھتا تھا۔ پوچھا گیا کہ کس کے لیے ؟ فرمایا : اللہ کے لیے ۔ [28]
یہودونصاریٰ کی نماز کا ذکر بائیبل میں بھی جگہ جگہ ہوا ہے اور جس طرح قرآن نے بعض مقامات پر نماز کو اللہ کا نام لینے، قرآن پڑھنے ، دعا کرنے ، تسبیح کرنے اور رکوع و سجود کرنے سے تعبیر کیا ہے ، اِسی طرح بائیبل میں بھی نماز کو اِس کے ارکان سے تعبیر کیا گیاہے ۔
پیدایش میں ہے :
’’اور وہاں سے کوچ کر کے (ابراہیم) اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیت ایل مغرب میں اور عی مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے خداوند کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۱۲: ۸)
’’تب ابراہیم سجدہ ریز ہو گیا اور خدا نے اُس سے ہم کلام ہو کر فرمایا ۔ ‘‘ (۱۷: ۳)
’’سو وہ مرد وہاں سے مڑے اور سدوم کی طرف چلے ، پر ابراہیم خداوند کے حضور کھڑا ہی رہا ۔‘‘ (۱۸: ۲۲)
’’تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا کہ تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو ۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘ (۲۲: ۵)
’’اور (اسحق) نے وہاں قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا۔‘‘ (۲۶: ۲۵)
خروج میں ہے :
’’تب لوگوں نے اُن کا یقین کیا اور یہ سن کر کہ خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر لی اور اُن کے دکھوں پر نظر کی ، اُنھوں نے اپنے سرجھکا کرسجدہ کیا۔‘‘ (۴: ۳۱)
زبور میں ہے :
’’اے خداوند، تو صبح کو میری آواز سنے گا ۔ میں سویرے ہی تیرے حضور میں نماز کے بعد انتظار کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۳)
’’لیکن میں تیری شفقت کی کثرت سے تیرے گھر میں آؤں گا ۔ میں تیرا رعب مان کر تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا ۔ ‘‘ (۵: ۷)
’’پر میں تو خداوند کو پکاروں گا اور خداوند مجھے بچا لے گا ۔ صبح و شام اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور نالہ کروں گا اور وہ میری آواز سن لے گا ۔ ‘‘ (۵۵: ۱۶۔۱۷)
’’سمندر اُس کا ہے ۔ اُسی نے اُس کو بنایا ہے اور اُسی کے ہاتھوں نے خشکی کو بھی تیار کیا۔ آؤ، ہم رکوع و سجود کریں اور اپنے خالق خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں، کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے ۔ ‘‘ (۹۵: ۵۔۶)
’’میں تیری مقدس ہیکل کی طرف رخ کر کے سجدہ کروں گا اور تیری شفقت اور سچائی کی خاطر تیرے نام کا شکر کروں گا ، کیونکہ تو نے اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت دی ہے ۔ ‘‘ (۱۳۸: ۲)
سلاطین اول میں ہے:
’’جب تیری قوم اسرائیل تیرا گناہ کرنے کے باعث اپنے دشمنوں سے شکست کھائے اور پھر تیری طرف رجوع لائے اور تیرے نام کا اقرار کر کے اور اُس گھر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے اور تجھ سے مناجات کرے تو تو آسمان پر سے سن کر اپنی قوم بنی اسرائیل کا گناہ معاف کرنا اور اُن کو اُس ملک میں جو تو نے اُن کے باپ دادا کو دیا ، پھر لے آنا۔‘‘ (۸: ۳۳۔ ۳۴)
یرمیاہ میں ہے :
’’تو خداوند کے گھر کے پھاٹک پر کھڑا ہو اور وہاں اِس کلام کی منادی کرا دو کہ اے یہوداہ کے سب لوگو جو خداوند کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے اِن پھاٹکوں سے داخل ہوتے ہو، خداوند کا کلام سنو۔‘‘ (۷: ۲)
دانیال میں ہے :
’’جب دانیال کو معلوم ہوا کہ نوشتہ پر دستخط ہو گئے تو وہ اپنے گھر آیا اور اپنی کوٹھڑی کا دروازہ جو بیت المقدس کی طرف تھا، کھول کر اور دن میں تین مرتبہ گھٹنے ٹیک کر اپنے پروردگار کے حضور میں اُسی طرح نماز پڑھتا اور تسبیح و تحمید کرتا رہا ، جس طرح پہلے کرتا تھا۔ ‘‘ (۶: ۱۰)
’’اور میں نے خداوند خدا کی طرف رخ کیا اور نماز اور دعاؤں کے ذریعے سے اور روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر اُس کا طالب ہوا ۔ ‘‘ (۹: ۳)
متی میں ہے :
’’اور لوگوں کو رخصت کر کے (یسوع) تنہا نماز پڑھنے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا اور جب شام ہوئی تو وہاں اکیلا تھا۔‘‘(۱۴: ۲۳)
’’اُس وقت یسوع اُن کے ساتھ گتسمنی نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا : یہیں بیٹھے رہنا ، جب تک کہ میں وہاں جا کر نماز پڑھ لوں۔ ‘‘ (۲۶: ۳۶)
’’پھر ذرا آگے بڑھا اور سجدہ ریز ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے یوں دعا کی کہ اے میرے باپ، اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے ۔ ‘‘ (۲۶: ۳۹)
مرقس میں ہے :
’’اور وہ صبح سویرے اٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہ اُس جگہ نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ (۱: ۳۵)
لوقا میں ہے :
’’اور اُن سے کہا: تم سوتے کیوں ہو ، اٹھو اور نماز پڑھو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔‘‘ (۲۲: ۴۶)
اعمال میں ہے :
’’پطرس اور یوحنا نماز کے وقت ، یعنی دن کی نویں گھڑی میں ۲۹ [29] ہیکل کو جا رہے تھے ۔ ‘‘ (۳: ۱)
’’دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس ساتویں گھڑی ۳۰ [30] کے قریب کوٹھے پر نماز پڑھنے کو چڑھا۔‘‘ (۱۰: ۹)
’’اور اُس پر غور کر کے اُس یوحنا کی ماں مریم کے گھر آیا جو مرقس کہلاتا ہے ۔ وہاں بہت سے آدمی جمع ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘‘ (۱۲: ۱۲)
’’اور سبت کے دن ہم شہر کے دروازے کے باہر ندی کے کنارے گئے ، جہاں نماز کا معمول تھا اور بیٹھ کر اُن عورتوں سے جو اکٹھی ہوئی تھیں ، کلام کرنے لگے ۔ ‘‘ (۱۶: ۱۳)
’’اور آدھی رات کے قریب پولس اور سیلاس نماز پڑھ رہے اور اللہ کی تسبیح کر رہے تھے اور قیدی (اُن کی یہ تسبیح و مناجات) سن رہے تھے ۔ ‘‘ (۱۶: ۲۵)
’’اُس نے یہ کہہ کر گھٹنے ٹیکے اور اُن سب کے ساتھ نماز پڑھی ۔‘‘ [31] (۲۰: ۳۶)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ہمیشہ سے پانچ وقت ہی ادا کی جاتی رہی ہے ۔ ابوداؤد کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ یہ بات خود جبریل امین نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ [32] اِس میں شبہ نہیں کہ یہود کے ہاں اب تین نمازیں ہیں اور اوپر کے اقتباسات میں بھی ایک جگہ تین ہی نمازوں کا ذکر ہوا ہے ، لیکن لوئی گنز برگ نے یروشلم کی تالمود پر اپنی تحقیقات میں واضح کیا ہے کہ یہود کے ہاں بھی یہ رواج بالکل اُسی طرح ہوا ، جس طرح ہمارے ہاں اہل تشیع نے جمع بین الصلوٰتین کے طریقے پر ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کو اکٹھا کر کے پانچ نمازوں کو عملاً تین نمازوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ اُس نے بتایا ہے کہ تالمود کے زمانے میں یہود دن میں پانچ وقت نماز کے لیے جمع ہوتے تھے : تین مرتبہ اُن نمازوں کے لیے جو اِس وقت بھی ادا کی جاتی ہیں اور دو مرتبہ ’ شیما‘ کی تلاوت کے لیے ۔ تاہم بعد میں بعض عملی دشواریوں کے پیش نظر صبح اور شام کی دو دو نمازوں کو جمع کر کے وہ صورت پیدا کر لی گئی جو اب رائج ہے ۔ [33]
نزول قرآن کے بعد اب سورۂ فاتحہ نماز کی دعا ہے ۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے اِس طرح کی دعا تمام الہامی کتابوں میں نازل کی گئی ۔
تورات کی دعا یہ ہے :
’’خداوند، خداوند، خداے رحیم اور مہربان، قہر کرنے میں دھیمااور شفقت اور وفا میں غنی ۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا ۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کار کا بخشنے والا، لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا ، بلکہ باپ دادا کے گناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پشت تک دیتا ہے ۔‘‘ [34] (خروج ۳۴: ۶۔۷)
زبور کی دعا یہ ہے :
’’اے خداوند، اپنا کان جھکا اور مجھے جواب دے ، کیونکہ میں مسکین اور محتاج ہوں ۔ میری جان کی حفاظت کر، کیونکہ میں دین دار ہوں ۔ اے میرے خدا، اپنے بندے کو جس کا توکل تجھ پر ہے ، بچا لے ۔ یارب ، مجھ پر رحم کر، کیونکہ میں دن بھر تجھ سے فریاد کرتا ہوں ۔ یا رب ، اپنے بندے کی جان کو شاد کر دے، کیونکہ میں اپنی جان تیری طرف اٹھاتا ہوں ۔ اِس لیے کہ تو یارب، نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے اور اپنے سب دعا کرنے والوں پر شفقت میں غنی ہے ۔
اے خداوند ، میری دعا پر کان لگا اور میری منت کی آواز پر توجہ فرما۔ میں اپنی مصیبت کے دن تجھ سے دعا کروں گا ، کیونکہ تو مجھے جواب دے گا ۔ یا رب ، معبودوں میں تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صنعتیں بے مثال ہیں۔ یا رب ، سب قو میں جن کو تو نے بنایا آ کر تیرے حضور سجدہ کریں گی اور تیرے نام کی تمجید کریں گی ، کیونکہ تو بزرگ ہے اور عجیب و غریب کام کرتا ہے ۔ تو ہی واحد خدا ہے ۔
اے خداوند ، مجھ کو اپنی راہ کی تعلیم دے ۔ میں تیری راستی میں چلوں گا ۔ میرے دل کو یک سوئی بخش تاکہ تیرے نام کا خوف مانوں ۔ یا رب ، میرے خدا ، میں پورے دل سے تیری تعریف کروں گا۔ میں ابد تک تیرے نام کی تمجید کروں گا، کیونکہ مجھ پر تیری بڑی شفقت ہے ۔ اور تو نے میری جان کو پاتال کی تہ سے نکالا ہے ۔
اے خدا، مغرور میرے خلاف اٹھے ہیں اور تند خو جماعت میری جان کے پیچھے پڑی ہے اور اُنھوں نے تجھے اپنے سامنے نہیں رکھا۔ لیکن تو یا رب ، رحیم وکریم خدا ہے ۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت و راستی میں غنی۔ میری طرف متوجہ ہو اور مجھ پر رحم کر۔ اپنے بندے کو اپنی قوت بخش اور اپنی لونڈی کے بیٹے کو بچا لے ۔ مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھا تاکہ مجھ سے عداوت رکھنے والے اُسے دیکھ کر شرمندہ ہوں ، کیونکہ تو نے اے خداوند، میری مدد کی اور مجھے تسلی دی ہے ۔ ‘‘(۸۶: ۱۔۱۷)
انجیل کی دعا یہ ہے :
’’اے ہمارے باپ، تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے ۔ تیری بادشاہی آئے ۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ، زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے ۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے ، تو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا، بلکہ برائی سے بچا ، کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں ۔ آمین ۔ ‘‘ (متی ۶: ۹۔۱۳)
یہ نماز کی تاریخ ہے ۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب لوگوں کو اِس کا حکم دیا تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اِس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِس کی تفصیلات بیان کرتا۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اُسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ ، وہ اُسی طرح اِسے ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ اِس کا ماخذ اب مسلمانوں کا اجماع اور اُن کا عملی تواتر ہے ۔ اِس کی تفصیلات ہم اِسی سے اخذ کر کے آگے کے مباحث میں بیان کریں گے۔
حواشی:
18 ابراہیم ۱۴: ۳۷۔
17 ابراہیم ۱۴: ۴۰۔
18 مریم ۱۹: ۵۵۔
19 ہود ۱۱: ۸۷۔
20 الانبیاء ۲۱: ۷۳۔
21 طٰہٰ ۲۰: ۱۴۔
22 آل عمران ۳: ۳۹۔
23 مریم ۱۹: ۳۱۔
24 لقمان ۳۱: ۱۷۔
25 المائدہ ۵: ۱۲۔
26 قرینہ دلیل ہے کہ ’ تسبیح‘ کا لفظ یہاں نماز کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر یہ اِسی مفہوم میں آیا ہے۔
27 ابوداؤد، رقم ۶۳۵۔
28 مسلم، رقم ۶۳۵۹۔
29 اِس سے مراد تیسرا پہر ہے ، یعنی عصر کا وقت۔
30 مراد ہے دوپہر، یعنی ظہر کا وقت۔
31 بائیبل کے یہ تمام اقتباسات اُس کے عربی ترجمے کے مطابق ہیں جو براہ راست یونانی زبان سے ہوا ہے۔
32 ابوداؤد ، رقم ۳۹۳۔
33 Judaism in Islam، ابراہام کیٹش ۱۰۔
34 سیدنا ابراہیم کی ذریت کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کے اُس خاص قانون کا حوالہ ہے جس کے تحت قومی حیثیت سے اُن کے جرائم کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں دی جاتی رہی ہے۔
اب اگر پرویز صاحب تاریخ ہی سے منکر ہوں تو کیا کر سکتے ہیں!