آل محمد

سید رافع

محفلین
جان لیا اس نے اذیت دے کے
کہ یہ نہیں آل محمد میں سے
ڈالی تھی جب اوجڑی محمد پر کافر نے
وہ تو برہم نہ ہوئے تھے یہ جان کر
جاری رہی تھی صلوۃ ان کی شان سے
پڑھتے رہے وہ ثنا اپنے رب کے وجدان سے

ہر ہر واقعہ وہ دہراتا دل میں
ہر ہر لمحہ اذیت کفار کا ازبر ہے اسے
کیوں نہ اخلاص کی پہچان کے لیے
لیا جائے کچرے کا امتحان اس سے بھی ذرا
گزرے جب یہ اس راہ سے
ڈال دو بڑھیا کی طرح آل محمد پر کچرا ذرا
اگرجلال میں آجائے یا خفا ہوجائے
سمجھ لو کہ ظاہر کیا ہم نے حق کو
بھلا جوش و برہمی کب ہے شایاں آل محمد کو
یہ سن ہے چوبیس ضرور
لیکن لازم ہے کہ امتی میں ہو ہر ادا نبی کی
ہو نہ نبی لیکن ہو نبی ہی
اور اگر یہ طیش میں نہ آیا اس اذیت سے
چال ہے ایک اور کفار کی بطور مسلماں دل میں

کیوں نہ میں بھی ہر ادا کفار کی اپناؤں
کبھی شاعر، کبھی مجنوں، کبھی اسے دیوانہ کہہ جاؤں
محمد نے بھی تو سہی تھی یہ سب اذیت کفار سے!
کیوں نہ یہ سہے میرے ہاتھوں وہی اذیت اسکی آل اب
کیوں نہ میں بھی سیٹی اور تالیاں بجاؤں ہر مجلس میں اسکی
صبح کو اس کی مانوں شام کو کافر ہو جاؤں جھٹک کر ابھی
کیوں نہ سب ہی ادائیں کفار کی اپنا لوں
اکساؤں لوگوں کو کہ پھیلائیں مکر کو میری طرح
ہر ہر چال اور ہر ہر ادا کفر کی اپنائیں میری طرح
میں ہوں مسلماں مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا
توحید کا علمبرادر ہوں، کرتاہوں لاالہ کا پرچار ہر جگہ

میں ایک عورت ہوں کیوں نہ بن جاؤں ابو لہب کی بیوی کی طرح
تمسخر اڑاؤں اپنے آوارہ دوستوں سے مل کر ہر لمحہ
میں ہوں مسلماں رب کی عطا سے، محمد کی خاص ہے رحمت میری ثناء پہ
لیکن کیا ہے برا کہ پھیلاؤں ایک جال محمدکی آل پر
وہ تو محمد تھے، نبی تھے ،یہ کیا ہے؟
آل محمد ہے، مجھے کیا معلوم کہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے؟
کیا ہے برا اگر کر لوں فتنہ پردازں کو فریفتہ اپنی اداؤں سے
وہ یکبارگی ٹوٹ پڑیں احد کی طرح اس آل رسول پہ
کفر تو بس ہوتا ہے محمد سے جنگ پر
یہ تھوڑی کفر ہے کہ اذیت سے بھر دے زندگی آل رسول کی
مجھے سب معلوم ہے قرآن کی وہ آیت
قول سب اس نبی مکرم کے
کیا برا ہے کہ اگر میں پڑھوں
ہر صلوۃ میں درود آل رسول پر
مجھے اس سے فرق کیا پڑتا ہے کہ رب چاہتا ہے محبت اقرابا رسول سے
مجھے معلوم ہے قول محمد کا کہ غرق قرآں میں آل محمد قیامت تک
لیکن کیا ہے کہ یہ سب بھول کے تمسخر کے شغل سے کروں برباد انکو
جینا تو ہے ہی مشکل ،کروں اور دشوار اسکو
میں ہوں تنگ اپنے گھر والوں سے، ذرا اس اذیت کو نکالوں اس پر
میرے گھر کے سب مرد ہیں مکر کے امین
کیا برا ہے کہ اگر کرلوں تھوڑا سا مکر میں بھی
اذیت ہے ہر سو قریے میں اور میرے ہر طرف
کیا برا ہے کہ بدلہ لوں آل محمد سے اذیت کا
فائدہ کیوں نہ اٹھا لوں ان کی شرافت کا
انکے علم اور انکے اخلاص کا

جینے کا سبھی ہی ساماں چھین کر کہوں مسکراتے کیوں نہیں؟
پابند اذیت کر کے کہوں کہ گیا اب کہاں اخلاص تمہارا؟
تم ایک براہمن ہو مر کیوں نہیں جاتے
جان دے کیوں نہیں دیتے میرے مکار رہبروں کے آگے
ہر ہر درس نظامی میں خاص تاکید سے سمجھایا
کہیں یہ نا ہو جائیں ملکوں کی سیادت کے امین
حالانکہ ہیں یہی بادشاہ اور ملکوں کے امین
قومیں ان سے ہیں لیکن جان لو تفریق ہم سے ہے
کسی صورت ان کو ابھرنے نہ دینا
کوئی کان ایسا نہ ہو جو سن لے پیام انکا
قرآں عربی میں ہے، کر لو معنی میں مکر
بدل دو تفسیر، پھیلا دو یہ پیغام اب ہر گلی
کوئی سنے نہ آل محمد کی صدا اب
کہیں اخلاص و شرافت نہ ہوجائیں عام
کہیں دفتر بند نہ ہو جائیں ہمارے
یہ لکھی کتابیں پھر خریدے گا کون؟
کون بنے گا ہمارے درس نظامی کا مسافر
کون دے گا زکوۃ ہم کو
کیسے کریں گے زکوۃ کے کچیل کے حیلے
کیسے ہم تیار کریں گے امام میلے
بنا دیں جو ہم تم کو غلام
کر دیں دہشت کو ہر ملک میں عام
اور پھر کہیں کہ ہم تو ہیں توحید کے علمبردار
پھیلاتے ہیں سنتیں ہر سو دبا کر آل محمد کو ہم
عجب ہے مکر اس دور میں جو ٹوٹنے میں نہیں آتا
بھائی ہے اخلاص اصل دین یہ سمجھ لو
ملتی ہے یہ دولت مفت میں آل محمد سے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محترم محمد عبدالرؤوف اختلافات اپنی جگہ مگر تصور کیجیے کسی انجان مذہب شخص نے یہ ٹیکسٹ دیکھا اور مضحکہ خیز سمجھ لیا تو کریڈٹ آپ کو جائے گا... ایسے دھاگوں میں ریٹنگ سے بہتر ہے تبصرہ کرکے اصل اختلاف کو لکھ دیا جائے
 

سید رافع

محفلین
صلوۃ اور نماز میں کوئی فرق ہے؟
نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جبکہ عربی لفظ صلوۃ ہے۔ ان الفاظوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

نماز میں قدیم رسمی عبادتیں جیسے بتوں کی پوچا کرنے سے لے کر روحانی مشقیں، سب اس میں آجاتی ہیں۔ جبکہ صلوۃ اس نور طہارت کو قائم رکھنے کی دن و رات جستجو ہے جو دن میں پانچ بارخاص طور پر دربار خداوندی سے معین ہے۔

ایک اور بات صلاۃ خاص وقت پر کی جانے والی طہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ صلوۃ عام طور پر دعاؤں، درود یا رحمت و برکت کی حالت طہارت کو بیان کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد طہارت ہی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جبکہ عربی لفظ صلوۃ ہے۔ ان الفاظوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

نماز میں قدیم رسمی عبادتیں جیسے بتوں کی پوچا کرنے سے لے کر روحانی مشقیں، سب اس میں آجاتی ہیں۔ جبکہ صلوۃ اس نور طہارت کو قائم رکھنے کی دن و رات جستجو ہے جو دن میں پانچ بارخاص طور پر دربار خداوندی سے معین ہے۔

ایک اور بات صلاۃ خاص وقت پر کی جانے والی طہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ صلوۃ عام طور پر دعاؤں، درود یا رحمت و برکت کی حالت طہارت کو بیان کرتا ہے۔ دونوں کا مقصد طہارت ہی ہے۔
صلاۃ اور صلوۃ میں اس فرق کی توجیہ کیا ہے
 

سید رافع

محفلین
صلاۃ اور صلوۃ میں اس فرق کی توجیہ کیا ہے
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔

ان دونوں الفاظ کا مادہ صلو ہے۔

صلو مادے کے الفاظ قرآن میں 99 بار آئے ہیں۔

( صَلَوٰة ) 83 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( صَلَّىٰ ) 12 دفعہ بطور فعل آیا ہے۔
( مُصَلًّى ) ایک دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( مُصَلِّين ) 3 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
صَلَوٰة 83 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ کثرت سے اللہ کے ذکر کی جگہ کے ساتھ آیا ہے۔
اسی طرح صَلَّىٰ 12 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ رسول کے کثرت سے برکت عطا کرنے کے ساتھ آیا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ صلوۃ سے صلاۃ اور صلاۃ سے صلوۃ کا سفر تادم زندگی جاری رہنا چاہیے۔ یہی صلوۃ قائم کرنا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔

ان دونوں الفاظ کا مادہ صلو ہے۔

صلو مادے کے الفاظ قرآن میں 99 بار آئے ہیں۔

( صَلَوٰة ) 83 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( صَلَّىٰ ) 12 دفعہ بطور فعل آیا ہے۔
( مُصَلًّى ) ایک دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
( مُصَلِّين ) 3 دفعہ بطور اسم آیا ہے۔
صَلَوٰة 83 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ کثرت سے اللہ کے ذکر کی جگہ کے ساتھ آیا ہے۔
اسی طرح صَلَّىٰ 12 دفعہ جب بھی آیا ان مخصوص اوقات میں طہارت حاصل کرنے کے لیے آیا، جن کو رب نے مخصوص اور ضروری کیا ہے۔ سوائے 3 جگہوں کے جہاں 2 جگہ صلوۃ برکتوں کے نزول اور 1 جگہ رسول کے کثرت سے برکت عطا کرنے کے ساتھ آیا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ صلوۃ سے صلاۃ اور صلاۃ سے صلوۃ کا سفر تادم زندگی جاری رہنا چاہیے۔ یہی صلوۃ قائم کرنا ہے۔
قران پاک میں صلاۃ لفظ نہیں، حدیث میں یہ لفظ موجود ہے؟
 

سید رافع

محفلین
قران پاک میں صلاۃ لفظ نہیں، حدیث میں یہ لفظ موجود ہے؟
جی بہت سی جگہ حدیث میں آیا ہے۔ یہ آیت دیکھ کر احادیث کے ذریعے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہاں "صلوۃ" سے مراد "صلاۃ" ہے یا "صلوۃ" ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث 111 میں لفظ صلاۃ آیا ہے:

حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ، حدثنا ابو خالد يعني سليمان بن حيان الاحمر ، عن ابي مالك الاشجعي ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بني الإسلام على خمسة، على ان يوحد الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصيام رمضان، والحج "، فقال رجل: الحج، وصيام رمضان؟ قال: لا صيام رمضان، والحج، هكذا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

ابو خالد سلیمان بن حیان احمر نے ابومالک اشجعی سے، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ کو یکتا قرار دینے، نمازقائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔“ ایک شخص نے کہ: حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں! رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اسی طرح (اسی ترتیب سے) سنی تھی۔

المختصر لفظ "صلاۃ" اور "صلوۃ" دراصل ایک ہی لفظ کی مختلف شکلیں ہیں۔ انکا مادہ صلو ہے۔
 

اربش علی

محفلین
دونوں الفاظ کا الگ الگ مقصد ہے۔ صلاۃ ہر وقت بھیجی جا سکتی ہے جبکہ صلوۃ بھیجنے کا مخصوص وقت رب کی جانب سے طے ہے۔ اس کے شروع اور آخری وقت کا نبی کریم ص نے بتا دیا ہے۔
صلوٰة اور صلاة میں کوئی بھی فرق نہیں۔
صلاة لفظ صلوٰة ہی کا متبادل املا ہے، جو جا بجا حدیث کی کتابوں اورہر دوسری عربی کتاب میں نظر آئے گا۔
قرآن میں چوں کہ کلاسیکی اور اصلی املا استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے وہاں صلوٰة ہی لکھا جائے گا۔

اسی طرح کے متبادل املا کی کئی مثالیں ہیں جیسے:
مشكوٰة/مشكاة
زکوٰة/زكاة
حيوٰة/حياة

فارسی اور اردو میں آ کر یہ صلات، مشکات، زکات اور حیات بن جاتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے سنا یا پڑھا ہے
صلوۃ لفظ کا مطلب پشت پناہی یا سرپرستی ہے یا رخ کرنا.اسکا متضاد *وتّولّو .... ایک سمت رخ کرکے اس سمت سے منہ موڑ لینا .... صلوۃ کے معانی کی قران کریم کی مختلف آیات میں ترویج بھی ہے.کہیں یہ نماز کے لیے، کہیں دعا کے لیے، کہیں پشت پناہی کے لیے تو کہیں رخ متعین کرنے لے لیے.صلوۃ بالخصوص ایک اسلامی نظام کی جانب اپنا رخ متعین کرنے کا نام ہوگیا ....

اس سے مراد کسی نے ربط یا کنکشن لیا ہے....
کنکشن کا حوالہ کسی کے پاس موجود ہے؟

دوسرا صلوۃ یعنی فارسی لفظ نماز اردو زبان میں منتقل ہوا .. دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صلوۃ نماز کے علاوہ ان حوالوں سے یا اوپر درج معانی سے جانی جاتی رہی ہے؟ یا صرف نماز کی اقامت فقط ............
 

سید رافع

محفلین
صلاة لفظ صلوٰة ہی کا متبادل املا ہے
یہ اسکی ایک وجہ یہی ہے۔ جو درج ذیل بھی ہے:

لفظ "صلاۃ" اور "صلوۃ" دراصل ایک ہی لفظ کی مختلف شکلیں ہیں۔

دوسری وجہ جس کا لحاظ بعض کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ وہ یہ ہے:
صلاۃ خاص وقت پر کی جانے والی طہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ صلوۃ عام طور پر دعاؤں، درود یا رحمت و برکت کی حالت طہارت کو بیان کرتا ہے۔

جیسا کہ جو حدیث میں نے لکھی اسکے لکھنے والے نے اس فرق کو روا نہیں رکھا۔ یہاں اسکو صلوۃ لکھنا چاہیے تھا لیکن لکھ گیا صلاۃ۔

جیسے کہ رب کی صلوت وقت کی پابند نہیں کہ وہ زمان سے پاک ہے۔ اسکو صلوۃ کہیں گے۔ اور رب طہارت دیتا ہے اپنی صلوت کے ذریعے۔ یہ صلوت، رحمت کے نزول سے علحیدہ ہے۔
اُولٰٓٮِٕكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ‏۔

یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ 2-157

یصلی جب اللہ کے لیے آیا تو خاص وقت کی صلوۃ اس کے لیے موضوع نہیں کہ اللہ زمان سے پاک ہے۔ اسکو صلوۃ کہیں گے۔
وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ‌ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏۔

اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ 9-99

صَلَاتَهٗ جب زمین و آسمان اور پرندوں کے لیے آیا تو وہ مخصوص وقت کے لیے ہے کہ زمین و آسمان میں موجود مخلوقات اور اڑتے پرندے اپنے اپنے مخصوص اوقات میں صلاۃ ادا کرتے ہیں اور بار بار صلوۃ یا تسبیح بھی کرتے ہیں۔
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنۡ فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّيۡرُ صٰٓفّٰتٍ‌ؕ كُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ‏۔

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلا ئے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی صلوۃ اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ 24-41

سو چاہیں تو اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں اور چاہیں تو نہ رکھیں۔ اگر رکھیں گے تو لطیف فطرت ہو جائیں گے۔
 

اربش علی

محفلین
میں نے سنا یا پڑھا ہے
صلوۃ لفظ کا مطلب پشت پناہی یا سرپرستی ہے یا رخ کرنا.اسکا متضاد *وتّولّو .... ایک سمت رخ کرکے اس سمت سے منہ موڑ لینا .... صلوۃ کے معانی کی قران کریم کی مختلف آیات میں ترویج بھی ہے.کہیں یہ نماز کے لیے، کہیں دعا کے لیے، کہیں پشت پناہی کے لیے تو کہیں رخ متعین کرنے لے لیے.صلوۃ بالخصوص ایک اسلامی نظام کی جانب اپنا رخ متعین کرنے کا نام ہوگیا ....

اس سے مراد کسی نے ربط یا کنکشن لیا ہے....
کنکشن کا حوالہ کسی کے پاس موجود ہے؟

دوسرا صلوۃ یعنی فارسی لفظ نماز اردو زبان میں منتقل ہوا .. دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صلوۃ نماز کے علاوہ ان حوالوں سے یا اوپر درج معانی سے جانی جاتی رہی ہے؟ یا صرف نماز کی اقامت فقط ............
یہ سب منکرینِ حدیث کے ابحاث ہیں، جن کے مطابق صلوة کسی عبادت کا نام نہیں، بلکہ قرآن اور خدا کی اطاعت و اتباع کا نام ہے۔
ان سب دعووں کی میرے لحاظ سے کوئی مسلمہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ عربی کی کم فہمی اور اپنی مرضی سے قرآنی الفاظ کے مادّوں کے معانی گھڑنے اور ان کی من مانی تاویل کا نتیجہ ہے۔ بقولِ جاوید احمد غامدی، غلام احمد پرویز صاحب نے گھر بیٹھے اپنی عربی ایجاد کر لی ہے۔
یہ تھریڈ شاید آپ کے لیے دلچسپی کا حامل ہو۔
جہاں تک لفظ نماز کا تعلق ہے، اس کا ماخذ اور قدیم استعمال جو بھی ہو، ہم اس سے صلاة مراد لیتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ اسکی ایک وجہ یہی ہے۔ جو درج ذیل بھی ہے:



دوسری وجہ جس کا لحاظ بعض کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ وہ یہ ہے:


جیسا کہ جو حدیث میں نے لکھی اسکے لکھنے والے نے اس فرق کو روا نہیں رکھا۔ یہاں اسکو صلوۃ لکھنا چاہیے تھا لیکن لکھ گیا صلاۃ۔


جیسے کہ رب کی صلوت وقت کی پابند نہیں کہ وہ زمان سے پاک ہے۔ اسکو صلوۃ کہیں گے۔ اور رب طہارت دیتا ہے اپنی صلوت کے ذریعے۔ یہ صلوت، رحمت کے نزول سے علحیدہ ہے۔


یصلی جب اللہ کے لیے آیا تو خاص وقت کی صلوۃ اس کے لیے موضوع نہیں کہ اللہ زمان سے پاک ہے۔ اسکو صلوۃ کہیں گے۔


صَلَاتَهٗ جب زمین و آسمان اور پرندوں کے لیے آیا تو وہ مخصوص وقت کے لیے ہے کہ زمین و آسمان میں موجود مخلوقات اور اڑتے پرندے اپنے اپنے مخصوص اوقات میں صلاۃ ادا کرتے ہیں اور بار بار صلوۃ یا تسبیح بھی کرتے ہیں۔


سو چاہیں تو اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھیں اور چاہیں تو نہ رکھیں۔ اگر رکھیں گے تو لطیف فطرت ہو جائیں گے۔
صلوۃ و تسبیح پرندوں کی کیا ہوگی؟
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ سب منکرینِ حدیث کے ابحاث ہیں، جن کے مطابق صلوة کسی عبادت کا نام نہیں، بلکہ قرآن اور خدا کی اطاعت و اتباع کا نام ہے۔
ان سب دعووں کی میرے لحاظ سے کوئی مسلمہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ عربی کی کم فہمی اور اپنی مرضی سے قرآنی الفاظ کے مادّوں کے معانی گھڑنے اور ان کی من مانی تاویل کا نتیجہ ہے۔ بقولِ جاوید احمد غامدی، غلام احمد پرویز صاحب نے گھر بیٹھے اپنی عربی ایجاد کر لی ہے۔
یہ تھریڈ شاید آپ کے لیے دلچسپی کا حامل ہو۔
جہاں تک لفظ نماز کا تعلق ہے، اس کا ماخذ اور قدیم استعمال جو بھی ہو، ہم اس سے صلاة مراد لیتے ہیں۔
قران و احادیث کا اجتماع اور فہم دونوں بہت ضروری ہے.غلام احمد پرویز و جاوید احمد غامدی کے علاوہ اسلام تھری سکسٹی پر ایسے معانی لکھے گئے ہیں .... میں اس لفظ پر آج کل مکمل تحقیق کررہی ہوں. اس لیے احادیث مانگی ہیں ....آپ کے علم میں ہیں تو فراہم کردیجیے.چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتا پھرتا قران ہیں تو یقینا ان کی اس پر سنت و احادیث ہوں گی ...
 

اربش علی

محفلین
قران و احادیث کا اجتماع اور فہم دونوں بہت ضروری ہے.غلام احمد پرویز و جاوید احمد غامدی کے علاوہ اسلام تھری سکسٹی پر ایسے معانی لکھے گئے ہیں .... میں اس لفظ پر آج کل مکمل تحقیق کررہی ہوں. اس لیے احادیث مانگی ہیں ....آپ کے علم میں ہیں تو فراہم کردیجیے.چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتا پھرتا قران ہیں تو یقینا ان کی اس پر سنت و احادیث ہوں گی ...
علامہ حمید الدین فراہی کی "مفردات القرآن" سے
الصلاة

هي في الأصل: الإقبال على شيء (1). ومنه: الركوع، ومنه: التعظيم، والتضرع والدعاء وهي كلمة قديمة بمعنى الصلاة والعبادة جاءت في الكلدانية بمعنى الدعاء والتضرع (2). وفي العبرانية بمعنى الصلاة والركوع (3).

ومن هذا الأصل صلي النار أقبل عليها، ثم بمعنى دخل النار، كما قال تعالی:

(سَيَصْلَىٰ نَارًا) (4)

وأيضاً : ( وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا ) (5)

ومنه : التصلية، كما قال تعالى : ( وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ ) (6) .

واستعملت العرب كل ذلك (1)) (7) .

---------------------------

(1) وقال المؤلف رحمه الله في تفسير سورة الكوثر: 29 وهو يذكر الوجه الحادي عشر من وجوه المناسبة بين الصلاة والنحر : أرى أن الصلاة في أصل معناها القربة القريبة = والإقبال على الشيء والدخول فيه فيقال للفرس المتصل بالسابق المصلي» وللجالس حول النار بقربها: «الصالي»، وكذلك لمن دخل في حرها. وانظر ما سيأني من تعليقاته على سورة النور وقال صاحب المقايس (3-300) الصاد واللام والحرف المعتل أصلان أحدهما النار وما أشبهها من الحمى، والآخر جنس من العبادة. وقال الزجاج: الأصل في الصلاة اللزوم اللسان - صلى) والراجح ما قاله المؤلف، فإن الإقبال على الشيء والانحناء هو المعنى المشترك للكلمة في العربية وأخواتها، ولعل أصل المعنى يرجع إلى كلمة (صلا) بمعنى وسط الظهر، وقد حفظتها ا
لعربية.

(2) يعني الأكدية (البابلية والأشورية)، والكلمة فيها بهيئة صلو» و «صلیتو انظر طه باقر : 114

(3) وذلك تجوز من المؤلف رحمه الله. فإن كلمة الصلاة من الألفاظ الآرامية التي وردت في العهد القديم انظر دانيال 11:6 وعزرا 10.6 ، وتطلق في الآرامية - كما قال المؤلف - على الركوع والصلاة، وكذلك في الحبشية. انظر جزينيوس : 1109. أما العبرانية فالكلمة الشائعة فيها بمعنى الصلاة والدعاء والتضرع هي (تفلا) من مادة (فلل) انظر مثلاً الملوك الأول 338، الثاني 17:6 عزرا 1:10، دانیال 20:9

(4) سورة اللهب الآية : 3.
(5) سورة الانشقاق، الآية : 12
(6) سورة الواقعة، الآية: 94
(1) نحو قول طرفة بن العبد من حماسية في شرح المرزوقي : 139 وديوانه : 198.

1 -
الشر يبدؤه في الأصل أَصْغَرُه
ولَيْسَ يَصْلَى بِنَارِ الْحَرْبِ جَانِيهَا

2 -
وقالت امرأة من بني عامر من حماسية 252 :

سيتركها قوم ويصلى بحرها
بنو نسوة للثکل مصطبرات

3 - وقال الطهوي من حماسية 3

وَلا تَبْلى بسالتهم وَإِنْ هُمْ
صَلُوا بِالحَرْبِ حِيْنا بَعدَ حِينِ

4 - وقال قيس بن زهير (اللسان - صلى)

فلا تعجل بأمرك وَاسْتَدِمُهُ
فَما صَلَّى عَصاء كمديم

5 - وقال أبو زبيد الطائي (اللسان - صلى) :

فقد تَصَلَّيْتُ حَرَّ حربهم
كما تَصَلَّى الْمَقْرُورُ مِنْ قَرَسِ

6 - وقال الرقاد بن المنذر الضبي من حماسية 182 :

وأوقد ناراً بَيْنَهُمْ بِضِرَامِها
لَهَا وَحَجَّ لِلْمُصْطَلِي غير طائل

7 - وقال عدي بن زيد العبادي من قصيدة في ديوانه 61

إنني واللهِ فَاقْبَلْ حَلِفِي
لأبيل كُلَّمَا صَلَّى جَأَرْ

الأبيل : الراهب جأر : تضرع ورفع صوته بالدعاء.

8- وقال الأعشى من قصيدة في ديوانه (101) وهو يخاطب بنته التي دعت له بأن یج
نّبه الله الأوصاب والآلام :

عَلَيْكِ مِثلُ الَّذِي صَلَّيْتِ فَاعْتمضي
يوماً فإن لجنب المرء مُضْطَجَعا

9 - وقال أيضاً من قصيدة في ديوانه (293) يصف الخمر :

لها حارس ما يبرح الدَّهْرَ بيتها
إذَا ذُبِحَتْ صَلَّى عَلَيْهَا وَزَمْزَمَا

10 - وقال أيضاً يصفها من قصيدة في الديوان 85 (ط 7)

وقابلها الريح في دنهَا
وَصَلَّى عَلَى دَنْها وَارْتَسَمْ
صلى: دعا لها أن لا تحمض ولا تفسد. ارتسم: كبر ودعا (اللسان).

(7) ما بين المعقوفين زيادة في المطبوعة من تفسير سورة البقرة للمؤلف : 23



Salaah in its original sense, means turning toward something or approaching it (1). This includes bowing, glorification, supplication, and invocation. It is an ancient word that signifies prayer and worship. In Chaldean, it carries the meaning of invocation and supplication 2, and in Hebrew, it denotes prayer and bowing (3)

From this origin, the phrase "صلي النار" means to turn toward the fire, and subsequently, it also came to mean entering the fire, as in the verse
He will burn in/enter a fire (Surah Al-Lahab, 111:3)

:Similarly, in
And he will enter a blazing fire
(Surah Al-Inshiqaq, 84:12)

The term also extends to "at-tasliyah", meaning being exposed to
: intense fire, as mentioned
And roasting in/entering a fierce blaze (Surah Al-Waqi'ah, 56:94)

This usage was common among the Arabs in various contexts

---------------------------
(1)
The author (may Allah have mercy on him), in his commentary on Surah Al-Kawthar, mentions in his eleventh interpretation of the connection between prayer and sacrifice

I see that prayer in its original meaning refers to nearness and turning toward something, as well as entering into it. For example, a horse that closely follows the leading horse is called (al-musalli), and a person sitting near a fire is referred to as (al-saali), as is one who enters its heat

See his commentary on Surah An-Nur for further elaboration

The author of Maqayis al-Lughah (3:300) explains that the root letters (صاد - لام - حرف معتل) have two main origins

Fire and related phenomena such as fever
A category of worship

Al-Zajjaj states that the root meaning of prayer is steadfastness and devotion (lazoom al-lisan)

The opinion of the author is preferable: prayer in its essence involves turning toward something and bowing. This meaning is common across Arabic and its related languages. Perhaps its root derives from the word (Salaa), which refers to the middle of the back, a concept
preserved in Arabic

(2)
Referring to Akkadian (Babylonian and Assyrian), where the word appears in forms such as (Salluu) and (Salliituu). See Taha Baqir: 114

(3)
This is an interpretative extension by the author. The word aS-Salaah is Aramaic in origin, appearing in the Old Testament (e.g., Daniel 6:11 and Ezra 10:6). In Aramaic, as the author notes, it denotes bowing and prayer, and the same applies to Ethiopian (Ge'ez). See Gesenius: 1109. In Hebrew, the common word for prayer, invocation, and supplication is
תפלה
(tefillaa)
derived from the root
פלל
(f-l-l)
See examples in 1 Kings 8:38, 2 Kings 6:17, Ezra 9:20, 10:1, Daniel 9:3
...................
Remaining in the next post
 

اربش علی

محفلین
...............
(1)
Examples of usage in Arab poetry
(I)
Tarafa ibn al-Abd said in his famous work (Hamasiyyah), as explained by Al-Marzouqi (Sharh Al-Hamasiyyah: 139; Diwan: 198
Evil is initially brought about by its smallest form
And no one experiences the fire of war but its wrongdoers

(II)
A woman from Banu Amir said (Hamasiyyah, 252)
They will abandon her, and her people will endure the fire of her grief
The women mourn, steadfast in their sorrow

(III)
Al-Tahawi said (Hamasiyyah, 3)
And their valor never fades, even if they
Endure the trials of war for years on end

(IV)
Qays ibn Zuhayr said (Lisan al-Arab under the root Ṣ-L-Y)
Do not hasten your decision, but persist in it
For no warrior’s patience ever fails

(V)
Abu Zubayd Al-Tai said (Lisan al-Arab under the root Ṣ-L-Y)
I have endured the fire of their battle
Like one who is suffering from fever

(VI)
Al-Raqad ibn Al-Munthir Al-Dabbi said (Hamasiyyah, 182)
He kindled a fire among them with its fuel
While others warmed themselves, but to no avail

(VII)
Adi ibn Zayd Al-Abadi said in a poem from his Diwan (61)
By God, accept my oath
I have prayed fervently every time I have suffered
Note: Al-abeel refers to a monk; Ja'ar means to plead or raise one’s voice in prayer

(VIII)
Al-A’sha said in a poem from his Diwan (101), addressing his daughter, who prayed for him to be spared from pain and illness
May the same befall you as what you have prayed
For the side of a man is his place of rest

(IX)
Al-A’sha also said in another poem from his Diwan (293), describing wine
It has a guard who never leaves its house
When it is slaughtered, he prays over it and praises it

(X)
He further described wine in another poem from his Diwan (85)
The wind meets it in its jar
And he prays over its jar, blessing it
Note: Salla in this context means to pray for it to remain fresh, and irtassama means to praise or bless it

(7)
The text within parentheses is an addition in the printed version of the author’s commentary on Surah Al-Baqarah, page 23


 

نور وجدان

لائبریرین
یہ سب مطالعہ میں کرچکی ہوں اسکا نچوڑ میں نے اوپر درج کیا تھا کہ صلوۃ کے فلاں فلاں معانی ہیں

میں نے احادیٹ کا پوچھا تھا کہ مجھے کنکشن / دعا کی حدیث نہیں ملی یا مجھے یہ فرق حدیث مبارکہ سے پتا کرنا جیسا کہ قران پاک میں جنگ کے وقت نماز کا جو قانون لکھا اس میں صلوۃ لکھا ہوا ہے یا پھر مختلف حوالے دعا و درود کی

قران کی ہر سورہ پر احادیث ہیں ...یا ایسے اختلافی معانی ہیں ان کا حکم ہے تو مومنین کا ردعمل یا سوال بھی موجود ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس....
 

اربش علی

محفلین
یہ سب مطالعہ میں کرچکی ہوں اسکا نچوڑ میں نے اوپر درج کیا تھا کہ صلوۃ کے فلاں فلاں معانی ہیں

میں نے احادیٹ کا پوچھا تھا کہ مجھے کنکشن / دعا کی حدیث نہیں ملی یا مجھے یہ فرق حدیث مبارکہ سے پتا کرنا جیسا کہ قران پاک میں جنگ کے وقت نماز کا جو قانون لکھا اس میں صلوۃ لکھا ہوا ہے یا پھر مختلف حوالے دعا و درود کی

قران کی ہر سورہ پر احادیث ہیں ...یا ایسے اختلافی معانی ہیں ان کا حکم ہے تو مومنین کا ردعمل یا سوال بھی موجود ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس....
کنورسیشن دیکھیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اور اس میں سے زیادہ تر آپ نے غلام احمد پرویز صاحب کی کتاب سے لیا ہے .انہوں نے یہی معانی ہر آیت سے نکال کر لکھے ہیں بالکل جیسے آپ نے لکھے ہیں. اس کا مطالعہ اسلام ۳۶۰ سے بھی کیا ہے.اسکی لغت میں بھی یہی معانی درج ہے

صلوۃ بمعنی کنکشن خدا سے ے معانی بھی ہیں. اسکی بھی حدیث ملی؟
 
Top