آتش آفتِ جاں ہے ترا اے سروِ گل اندام رقص - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
آفتِ جاں ہے ترا اے سروِ گل اندام رقص
ساتھ ہر ٹھوکر کے کرتا ہے ہمارا کام رقص
طبعِ عالی باز رکھتی ہے تماشے سے مجھے
بام پر گویا کہ میں ہوں اور زیرِ بام رقص
کس طرح کرتا ہے یہ ذلت گوارا آدمی
فی الحقیقت کچھ نہیں غیرِ خیالِ خام رقص
چہرۂ محبوب پر گیسو نہیں لہرا رہے
بت کے آگے کرتے ہیں کفارِ نافرجام رقص
اے دلِ پُرداغ بے تابی سے کچھ حاصل نہیں
ہو سکا طاؤس سے کب قابلِ انعام رقص
دم فنا ہوتا ہے دامن کی ہر اک ٹھوکر کے ساتھ
خرمنِ امید کو ہے برق کا پیغام رقص
حرصِ دنیا حُسن غارت گر کو رکھتی ہے خراب
بہرِ زر کرتے ہیں محبوبانِ سیم اندام رقص
سینہ کوبی کی صدا ہے یہ کہ گھنگرو کی صدا
بے قراری ہے تری یا اے دلِ ناکام رقص
ایک دن لایا تھا جامِ مے ترے ہونٹوں تلک
آج تک کرتا ہے یہ گردونِ مینا فام رقص
چشمِ راحت کارِ ذلت میں خیالِ خام ہے
عمر بھر رقاص کو رکھتا ہے بے آرام رقص
اپنی صورت سامنے اپنے تماشا گاہ ہے
کیا سمجھ کر یہ روا رکھتے ہیں خاص و عام رقص
مے کدے میں چل کے سیرِ عالمِ نیرنگ کر
قلقلِ مینا ہے نغمہ اور دورِ جام رقص
دل اسی پہلو میں آتش پیش ازیں بے تاب تھا
یہ وہی جا ہے جہاں ہوتا ہے صبح و شام رقص
(خواجہ حیدر علی آتش)
 
اے دلِ پُرداغ بے تابی سے کچھ حاصل نہیں​
ہو سکا طاؤس سے کب قابلِ انعام رقص
واہ واہ بے انتہا خوبصورت غزل ہے حسان ۔۔!
جیتے رہیں بیٹا ۔​
 
Top