آشفتہ سری ہے۔۔۔

فرحت کیانی

لائبریرین
جب کوئی کلی صحنِ گلستاں میں کِھلی ہے
شبنم میری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے
جس کی سرِ افلاک بڑی دھوم مچی ہے
آشفتہ سری ہے میری آشفتہ سری ہے

اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں
سورج کہاں نکلا ہے، کہاں صبح ہوئی ہے۔
بچھڑی ہوئی راہوں سے جو گزرے ہیں کبھی ہم
ہر گام پہ کھوئی ہوئی اک یاد ملی ہے
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
ہنسنے پر نہ مجبور کرو لوگ ہنسیں گے
حالات کی تفسیر تو چہرے پہ لکھی ہے۔
 
Top