مصطفیٰ زیدی آسماں زرد تھا

غزل قاضی

محفلین
آسماں زرد تھا

اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا
ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں
اب ترا روپ بھی دُھندلا سا چلا تھا دل میں
تو بھی اک یاد سی تھی جُملہ حسیناؤں میں
تہ بہ تہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن
رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں

رقصِ شبنم کی پرستار نگاہوں کے لئے
دُھوپ کے اَبر تھے خورشید کی بوچھاریں تھیں
آسماں زرد تھا جیسے کوئی یرقاں کا مریض
جس کے تکیے کے لئے ریت کی دستاریں تھیں
دل بھرا رہتا تھا جلتے ہوئے چھالے کی طرح
روح کے واسطے دیواریں ہی دیواریں تھیں

کوئی آواز نہ آتی تھی بہ جُز صوتِ مہیب
کوئی نغمہ نہ تھا چیلوں کے ترنم کے سوا
سارا انداز تھا پھیلے ہوئے دریاؤں کا
ریگِ صحرا کے سمندر میں تلاطم کے سوا
خشک پتوں کا نمک ریت کے ذروں کی مٹھاس
ہونٹ سب ذائقے رکھتے تھے ترنم کے سوا

کب تک اس دل کی لگن راس نہ آتی آخر
مسکراتا ہؤا گردوں پہ ہلال آہی گیا
اپنے دیوانوں کو سینے سے لگانے کے لئے
اک غزل پیکر و افسانہ جمال آہی گیا
اے فلک تونے ہمیں خاک سے آخر کو چنا
اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آہی گیا


( مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
 
Top