آزاد نظم:::تیرے آنچل کی سرسراہٹ میں::::قصہ اک دیدار کا:::::

صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے جب ٹرین وزیرآباد پہنچی- سفر میں یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ یہاں سے ٹرین بدل کر ہم نے منزل کی جانب روانہ ہونا تھا۔ رات بھر کے سفر اور تھکان کے باعث سوچا کہ چہرے کو پانی کی زیارت کرا دی جائے ورنہ اپنا آپ پہچاننے سے بھی جائیں گے۔ بڑے بھیا دوسری ٹرین میں اپنی نشت محفوظ کرنے گئے تھے۔ ابھی ہم نل پر جھکے منہ ہاتھ دھو ہی رہے تھے کہ جسم میں ایک لہر دوڑ گئی، بدن میں جھرجھری ہوئی۔ گویا کہ ہم پہ وار ہو چکا تھا۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو عین سامنے کھڑکی کے اس پار وہ کمان نظر آئی جہاں سے یہ نشتر چلے تھے۔ ہم اس وارپر ابھی سنبھل نہ پائےتھے کہ اتنے میں بھیا کی آواز نے چونکا دیا - بولے نشت محفوظ ہوگئی ہے۔ معلوم پڑا اپنا پڑاؤ اسی مورچہ سے چند قدم فاصلے پر سمت مخالف میں ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹرین کی روانگی کا بگل بجادیا گیا۔
ہم اپنی نشت پرا برا جمان ہوئے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔ اسی اثنا میں اپنی نظر کو سرحد پار کے مورچوں کی خبر گیری کے لیے بھیجا۔ خبر یہ آئی کہ پری پیکر کھڑکی سے باہر کے ماحول میں دلچسپی رکھتی ہیں- کھڑکی کی بغل میں ہونے کے باعث گستاخ ہوا زلف عنبریں سے اٹھکیلیاں کررہی ہے- جس کی وجہ سے زرد آنچل ہوا میں لہلہا رہا ہے۔ پری پیکر ہوا کی اس گستاخی پر نالاں بار بار اپنا دوپٹہ درست کرنے میں مصروف ہیں- اس سے آگے کی واردات کا بیان کچھ یوں ہے کہ:

تیرے آنچل کی سر سراھٹ میں

یہ ترا بانکپن کہاں چھپتا

تو چھپانے کے کچھ جتن کر لے اور

اب کے آئے گا سامنے چہرہ

پھر کہاں،

گہری زلفوں کی اوٹ میں لے کر

سایہ ابر کی مانند

کتنی مدت گھٹائے اسود کے

سائے میں چھپ رہے گا یہ

ابر باراں کہ آخرے اک دن

کھل کے برسے گا اور دھو دے گا

ہر پرت اضطراب کو تم سے

ہر آنچل نقاب کو تم سے

پھر،

برستی چھلکتی زلفوں سے

چہرہء مہتاب پر تیرے

چند شبنمی قطرے

رنگ قوس قضا بکھیریں گے

پھر سے رنگ فضا میں رنگ بہار

ہر سو مہک، مہک سے نکھار

آج پھر آبرو کے آنچل کو

بیٹھ کر پہلوئے دل میں

اے مرے "لم یزل" سرکنے دے

آج پھر کوہ دل کو مرے

طور سا گر بکھرنے دے

اے مرے " لم یزل" سرکنے دے۔۔۔۔۔


26.6.2014


چونڈہ (سیالکوٹ)
 
آخری تدوین:
خوب ہے دوست ویسے کچھ محنت سے یہ نظم پابند بھی ہو سکتی ہے
موجودہ صورت میں میں اسے نثری نظم سمجھتا ہوں یا شاید میں اسی پڑھ نہیں پایا!
بہت شکریہ عباد اللہ بھائی۔ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ دراصل میں شاعری کے رموز اوقاف سے بالکل ہی نابلد ہوں۔ تو جو وارد ہو لکھ ضرور لیتا ہوں۔ اس نظم کو میں ایک لے میں پڑھتا ہوں تو مجھے تو ٹھیک لگی اسی لیے پیش کر دی۔ باقی آپ احباب کی رہنمائی ہوگی تو ضرور اس کی کوئی نا کوئی شکل بن جائے گی۔
 

عباد اللہ

محفلین
بہت شکریہ عباد اللہ بھائی۔ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ دراصل میں شاعری کے رموز اوقاف سے بالکل ہی نابلد ہوں۔ تو جو وارد ہو لکھ ضرور لیتا ہوں۔ اس نظم کو میں ایک لے میں پڑھتا ہوں تو مجھے تو ٹھیک لگی اسی لیے پیش کر دی۔ باقی آپ احباب کی رہنمائی ہوگی تو ضرور اس کی کوئی نا کوئی شکل بن جائے گی۔
شاید مجھ ہی سے تسامح ہوا ہو بھائی معذرت خواہ ہوں شاید کیا یقیناََ ٹھیک ہو گی مجھے زیادہ علم نہیں
 
صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے جب ٹرین وزیرآباد پہنچی- سفر میں یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ یہاں سے ٹرین بدل کر ہم نے منزل کی جانب روانہ ہونا تھا۔ رات بھر کے سفر اور تھکان کے باعث سوچا کہ چہرے کو پانی کی زیارت کرا دی جائے ورنہ اپنا آپ پہچاننے سے بھی جائیں گے۔ بڑے بھیا دوسری ٹرین میں اپنی نشت محفوظ کرنے گئے تھے۔ ابھی ہم نل پر جھکے منہ ہاتھ دھو ہی رہے تھے کہ جسم میں ایک لہر دوڑ گئی، بدن میں جھرجھری ہوئی۔ گویا کہ ہم پہ وار ہو چکا تھا۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو عین سامنے کھڑکی کے اس پار وہ کمان نظر آئی جہاں سے یہ نشتر چلے تھے۔ ہم اس وارپر ابھی سنبھل نہ پائےتھے کہ اتنے میں بھیا کی آواز نے چونکا دیا - بولے نشت محفوظ ہوگئی ہے۔ معلوم پڑا اپنا پڑاؤ اسی مورچہ سے چند قدم فاصلے پر سمت مخالف میں ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹرین کی روانگی کا بگل بجادیا گیا۔
ہم اپنی نشت پرا برا جمان ہوئے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔ اسی اثنا میں اپنی نظر کو سرحد پار کے مورچوں کی خبر گیری کے لیے بھیجا۔ خبر یہ آئی کو پری پیکر کھڑکی سے باہر کے ماحول میں دلچسپی رکھتی ہیں- کھڑکی کی بغل میں ہونے کے باعث گستاخ ہوا زلف عنبریں سے اٹھکیلیاں کررہی ہے- جس کی وجہ سے زرد آنچل ہوا میں لہلہا رہا ہے۔ پری پیکر ہوا کی اس گستاخی پر نالاں بار بار اپنا دوپٹہ درست کرنے میں مصروف ہیں- اس سے آگے کی واردات کا بیان کچھ یوں ہے کہ:

تیرے آنچل کی سر سراھٹ میں

یہ تیرا بانکپن کہاں چھپتا

تو چھپانے کے کچھ جتن کر لے اور

اب کے آئے گا سامنے چہرہ

پھر کہاں،

گہری زلفوں کی اوٹ میں لے کر

سایہ ابر کی مانند

کتنی مدت گھٹائے اسود کے

سائے میں چھپ رہے گا یہ

ابر باراں کہ آخرے اک دن

کھل کے برسے گا اور دھو دے گا

ہر پرت اضطراب کو تم سے

ہر آنچل نقاب کو تم سے

پھر،

برستی چھلکتی زلفوں سے

چہرہء مہتاب پر تیرے

چند شبنمی قطرے

رنگ قوس قضا بکھیریں گے

پھر سے رنگ فضا میں رنگ بہار

ہر سو مہک، مہک سے نکھار

آج پھر آبرو کے آنچل کو

بیٹھ کر پہلوئے دل میں

اے مرے "لم یزل" سرکنے دے

آج پھر کوہ دل کو مرے

طور سا گر بکھرنے دے

اے مرے " لم یزل" سرکنے دے۔۔۔۔۔


26.6.2014


چونڈہ (سیالکوٹ)

اول اول وہ محبت کے نشے یاد تو کر
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ ڈر لگتا ہے :)
 
چند مصرعے بحر فاعلاتن مفاعلن فعلن پر موزوں ہیں. آزاد نظم ہو سکتی ہے تھوڑی محنت سے. نثری نظم میرے خیال سے تو بحور سے مکمل آزاد ہونی چاہیے تاکہ پڑھنے والا اس کے لیے تیار ہو جائے. موزوں اور غیر موزوں کلام کی ملی جلی صورت کو پڑھنا ایک کرب سے گزرنا ہے.
 
چند مصرعے بحر فاعلاتن مفاعلن فعلن پر موزوں ہیں. آزاد نظم ہو سکتی ہے تھوڑی محنت سے. نثری نظم میرے خیال سے تو بحور سے مکمل آزاد ہونی چاہیے تاکہ پڑھنے والا اس کے لیے تیار ہو جائے. موزوں اور غیر موزوں کلام کی ملی جلی صورت کو پڑھنا ایک کرب سے گزرنا ہے.
رہنمائی کے لیے شکریہ بھائی۔ حاصل یہ ہے کہ مجھے اس میدان میں مزید طبع آزمائی نہیں کرنی چاہیے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے۔
 
رہنمائی کے لیے شکریہ بھائی۔ حاصل یہ ہے کہ مجھے اس میدان میں مزید طبع آزمائی نہیں کرنی چاہیے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے۔
طبع آزمائی زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے کہ اسی سے بہتری آتی ہے۔ جہاں تک میرے تجزیے کا تعلق ہے اسے آپ ایک عام قاری کی رائے سمجھ لیں۔ آزاد اور نثری نظموں کا میں نے کوئی خاص مطالعہ بھی نہیں کیا اور ان میں زیادہ دلچسبی بھی نہیں ہے۔ پابند شاعری پر بھی فی الحال میرا تجزیہ اوزان تک ہی محدود ہے۔
 
طبع آزمائی زیادہ سے زیادہ کرنی چاہیے کہ اسی سے بہتری آتی ہے۔ جہاں تک میرے تجزیے کا تعلق ہے اسے آپ ایک عام قاری کی رائے سمجھ لیں۔ آزاد اور نثری نظموں کا میں نے کوئی خاص مطالعہ بھی نہیں کیا اور ان میں زیادہ دلچسبی بھی نہیں ہے۔ پابند شاعری پر بھی فی الحال میرا تجزیہ اوزان تک ہی محدود ہے۔
بھیا میرا مطالعہ بہت کم ہے شاعری سے واقفیت اس درجہ کی ہے قافیہ اور ردیف کسے کہتے ہیں۔ محفل میں آ کر پتا چلا یہ علم ایک سمندر ہے۔ بحیثیت قاری اس بات سے آگاہ ہوں کے بے وزن و بحر کلام سے قاری پہ کیا گزرتی ہے تو بہتر ہے ایک اچھا قاری بنا جائے۔
 
سو فیصد متفق۔ دراصل وقت پہ استاد نہ لے سکے یعنی ہماری نالائقی۔ اور اب دھندے نے گندا کر دیا ہے کہ اتنی محنت کون کرے۔
 
سو فیصد متفق۔ دراصل وقت پہ استاد نہ لے سکے یعنی ہماری نالائقی۔ اور اب دھندے نے گندا کر دیا ہے کہ اتنی محنت کون کرے۔
جلد بازی نہ کریں.
مثال کے طور پر اسی نظم کو لے لیں.
کچھ مصرعے ایک وزن پر ہیں جو ریحان بھائی نے بتا دیا ہے.
باقی مصرعے بھی اسی پر لانے کی کوشش کریں. ہو سکتا ہے انہیں الفاظ کی ہیر پھیر سے ہو جائیں. ہفتہ نہیں مہینہ لگائیں. یا اس سے بھی زیادہ. جب وقت ملے.

سیکھنے کی کوئی عمر طے نہیں ہے. :)
 
Top