آرزو لکھنوی " دیکھیں محشر میں اُن سے کیا ٹہرے "

طارق شاہ

محفلین
غزل
آرزو لکھنوی
دیکھیں محشر میں اُن سے کیا ٹہرے
تھے وہی بُت وہی خدا ٹہرے
ٹہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹہرے
بن کے زنجیر بے صدا ٹہرے
سانس ٹہرے تو دم ذرا ٹہرے
تیز آندھی میں شمع کیا ٹہرے
زندگانی ہے بس اک نفس کا شمار
بے ہوا یہ چراغ کیا ٹہرے
جس کو تم لا دوا بتاتے ہو
تمہِیں اُس درد کی دوا ٹہرے
عشق کا جرم سہْل کام نہیں
کہ ہر اِک لائقِ سزا ٹہرے
بیم امید کی کشا کش میں
اک دو راہے پہ جیسے آ ٹہرے
روتی آنکھیں جھلک نہ دیکھ سکیں
بہتے زخموں پہ کیا دوا ٹہرے
آرزو لکھنوی
 

سید زبیر

محفلین
ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیر بے صدا ٹھہرے
شاہ جی ! بہت خوب نہائت عمدہ انتخاب بہت شکریہ شراکت کا ۔
 

طارق شاہ

محفلین
آرزو لکھنوی صاحب کا خوبصورت کلام شیئر کرنے کے لیئے صاحب ! بوت کوب۔
ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیر بے صدا ٹھہرے
شاہ جی ! بہت خوب نہائت عمدہ انتخاب بہت شکریہ شراکت کا ۔
جناب کاشفی صاحب اور جناب سید صاحب!
انتخاب پر اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں، دلی خوشی ہوئی جو انتخاب آپ حضرات کے معیار پر پورا اترا
داد اور ستائش کے لئے ممنووں ہوں
بہت تشکّر
خوش رہیں
 
Top