آرزو خام اور نظر سطحی۔اسلم کولسری

آرزو خام اور نظر سطحی
کی بسر، ہم نے سربسر سطحی
شہر بھر کو اُچھال دیتی ہے
اُڑتی اُڑتی سی اک خبر سطحی
غرق دریا تو ہم کو ہونا تھا
ناخدا تھے بہت، مگر سطحی
دل میں کیا کیا خیال آتے ہیں
آج بھی تیرے نام پر، سطحی
رمز ہوگی کوئی سندیسے میں
اور کر دے گا نامہ بر سطحی
کوئی گہری نظر سے کیا دیکھے
گھومتے ہیں اِدھر اُدھر سطحی
ڈوب کر ہم نے طے کیا اسلمؔ
لاکھ تھا سوچ کا سفر، سطحی
 
Top