نور وجدان

لائبریرین
وہ ملنے آخری دفعہ آیا تھا ۔ میں جانتی تھی کہ پت جھڑ کے بعد بہار کے پُھول کھلکھلانے ہیں ۔ اس کی محبت کے زرد پتے ساحل کی ریتلی مٹی پر جا بجا بکھرے ہوئے تھے ۔ میں نرم گُداز پاؤں ان پتوں پر رکھتی رہی اور 'چر چر ' کی آواز سے انجانا سکون پاتی رہی ۔ آم کے گھنے درخت تلے کھڑی باد کے جُھونکوں کو محسوس کرنے لگی ۔ وُہ بُہت دور کھڑا حسرت بھری نگاہوں سے تکتا رہا ۔ اس کی آواز کی گُونج سُنائی دینے لگی ۔

'' چاندنی نے چار سُو قبضہ جما لیا ہے ۔ ذات سے باہر بھی تم ہو اور اندر تمھارے عشق کی مدھم مدھم سُلگتی آگ نے پریشان کردیا ہے ۔ تم مسکراتی بُہت حسین لگتی ہو ! ''

پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد میرے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا :

''میں نے تمھیں خوامخواہ دکھ دیا تھا۔ ا! کاش ! میں تمھیں آبشاروں کے پار سر سبز وادیوں کی حسین راتوں کی سیر کراتا ۔ تمھارے گیتوں کو اپنا سنگیت جانتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے ساتھ کو رب کا تُحفہ جانا تھا، تمھاری آرزو میں اپنی زندگی کی صُبح سے تمھارا انتظار کیا تھا مگر خواہشات کی اسیری نے تمھاری آرزو کو دھندلا دیا یا میں نے خود کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے چہر پر کا تل اس حُسن کی دلیل ہے جو تمھاری محبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں چھپا ہے ۔''

وہ جانے کیا کیا کہتا رہا اور میں اس کی سسکتی آرزؤں کے سلگتے سُحاب کی بارش سے دل و جگر میں اطمینان محسوس کرنی لگی اور میرے ہاتھ درخت کی بھوری کُھردری لکڑی پر پھرنے لگے اور اپنے دامن سے جانے والی خوشیوں کا حساب مانگنے لگے ۔

'' تم خاموش کیوں ہو؟ '' اس کی خوف سے بھرپور گونج پوری وادی میں گُونجنے لگی۔۔۔ ''میں نے اس کی بے قراری میں تڑپ کی شام کو رات میں بدلنے کے لیے آخری دفعہ جواب کے لیے لب کھولے:

'' محبت کاروبار نہیں ہوتی ۔ میری خاموش محبت کو انکار جان کے اپنی انا کو نیچے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! یہ جانتے ہوئے بھی اظہار کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔محبت میں مادیت نہیں ہوتی ۔''

میں نے ایک لمحے کے توقف کیا اور اس کو جانچنا چاہا ۔ بیچ حائل صدیوں کا فاصلہ میری نگاہوں کو اس سے اوجھل نہ کرسکا۔ اس کی شکستگی ۔۔۔! اس کی آزردگی ۔۔۔۔، کپکپاتے ہونٹ ، بکھرے بال ۔۔۔غمناک آنکھیں ۔۔۔! اب مجھے ان کی پرواہ نہیں تھی ۔ اس نے کُچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔ اپنی دھیمی مدھر آواز کی نغمگی فضاء میں بکھیرتے کہنے لگی :
'
''یہ جو محبت ہے نا ! تخلیق جتنا دکھ دے کے جنم لیتی ہے ۔اس درد کی شدت سے شمع گھُل کے وجود کھو دیتی ہے مگر محبت کا دُھواں فضاء میں شامل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!!!میں نے دُھواں فضاء میں جانے دیا ہے ۔۔۔۔!!! اب دل میں کچھ نہیں باقی ۔۔!!! راکھ بھی نہیں جو تمھارے ہونے کی دلیل ہو!!! ''

شام کے سرمئی بادل رات کے اندھیرے میں بدلنے لگے ۔دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں میرے وجود کو سردی کا احساس دِلانے لگی ۔ میں نے اپنے پاؤں سلگتی آگ کے پاس رکھے اور اُس سے مخاطب ہوئی : بُجھی چنگاریوں کا سیاہ رنگ ہاتھ کو سیاہ تر کردیتا ہے ۔میرا دامن سپید روشنیوں سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے تمھاری سُنو ! ''

یکایک اس کی دلخراش چیخوں سے وادیاں گونجنے لگیں ، اس کا خوبصورت چہرہ ہیئت بدلنے لگا ، مجھے یوں لگا کہ اس نے آگ کے سمندر میں قدم رکھ دیا ہے ۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں کیونکہ میں اس سے دور بیٹھی اس کی آواز کی گونج کو محسوس کر رہی تھی ۔ تصور میں اس کا چہرہ آگ سے سُلگتا پایا جس طرح کاغذ کے خط جلتے محسوس ہوتے ہیں ۔ اس کی شبیہ سُلگ رہی تھی اور میں نے اس کی چیخوں سے پریشان ہوکے آنکھ کھول دی ۔ اس کی آواز سُنائی نہیں دے رہی تھی ۔ میں نے آواز کے تعاقب میں سفر شروع کیا ۔ میں ایک اندھیرے غار میں داخل ہوئی ۔ اس غار میں سرانڈ سے سانس کو دُشواری محسوس ہونے لگی اور ہاتھ غیر ارادی طور پر ناک پر رکھنے پڑے۔ یکا یک دم توڑتے انسان کی درد ناک کراہوں نے مجھے متوجہ کرلیا ۔ اُس کی آخری سانسوں میں التجا تھی مگر میں انجان بنی اس کو تاکتی رہی کہ انسان مرتے وقت کتنا مکروہ لگتا ہے ۔ میں اس کی ان وادیوں سے ہجرت پر خوشی محسوس کر رہی تھی ۔

سنو ۔۔۔۔۔۔!
''مجھے معاف کردو ۔۔۔! میں اس دنیا سے گناہوں کا کفارہ اد کیے بنا نہیں جانا چاہتا ۔ میری حالت ء زار پر رحم کرو ''

مجھے بیزاری سی محسوس ہونے لگی اور میں اس کی سسکتی چیخوں کو اندھیروں کے حوالے کرکے طمانیت محسوس کرنے لگی ۔ آدم و حوا کا تعلق عزت سے ہوتا محبت پاتا ہےمگر محبتوں نے ڈیرا جما کے تقدیس کو پائمال کر دیا ہے ۔
 
''یہ جو محبت ہے نا ! تخلیق جتنا دکھ دے کے جنم لیتی ہے ۔اس درد کی شدت سے شمع گھُل کے وجود کھو دیتی ہے مگر محبت کا دُھواں فضاء میں شامل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔!!!میں نے دُھواں فضاء میں جانے دیا ہے ۔۔۔۔!!! اب دل میں کچھ نہیں باقی ۔۔!!! راکھ بھی نہیں جو تمھارے ہونے کی دلیل ہو!!! ''

(y)(y)(y)
 
سنو ۔۔۔۔۔۔!
''مجھے معاف کردو ۔۔۔! میں اس دنیا سے گناہوں کا کفارہ اد کیے بنا نہیں جانا چاہتا ۔ میری حالت ء زار پر رحم کرو ''

مجھے بیزاری سی محسوس ہونے لگی اور میں اس کی سسکتی چیخوں کو اندھیروں کے حوالے کرکے طمانیت محسوس کرنے لگی ۔ آدم و حوا کا تعلق عزت سے ہوتا محبت پاتا ہےمگر محبتوں نے ڈیرا جما کے تقدیس کو پائمال کر دیا ہے
بہت خوب نور آپی کمال کر دیا آپ نے منظر کی جس طرح عکاسی کی گئی ہے تحریر پڑھتے پڑھتے آپ خود کو اس تحریر کا ایک کردار محسوس کرنے لگتے ہو :applause::applause:
ایسا کیا جرم تھا اس کا جو آخری لمحات میں میں بھی اس لڑکی کو رحم نہیں آیا لڑکی اتنی سنگدل کیوں ہو گئی کتنی بےدردی سے اس کی التجائیں ٹھکرا دی
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت خوب نور آپی کمال کر دیا آپ نے منظر کی جس طرح عکاسی کی گئی ہے تحریر پڑھتے پڑھتے آپ خود کو اس تحریر کا ایک کردار محسوس کرنے لگتے ہو :applause::applause:
ایسا کیا جرم تھا اس کا جو آخری لمحات میں میں بھی اس لڑکی کو رحم نہیں آیا لڑکی اتنی سنگدل کیوں ہو گئی کتنی بےدردی سے اس کی التجائیں ٹھکرا دی
میرے ہاتھ درخت کی بھوری کُھردری لکڑی پر پھرنے لگے اور اپنے دامن سے جانے والی خوشیوں کا حساب مانگنے لگے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آداب:notworthy:
بہت خوب نور آپی کمال کر دیا آپ نے منظر کی جس طرح عکاسی کی گئی ہے تحریر پڑھتے پڑھتے آپ خود کو اس تحریر کا ایک کردار محسوس کرنے لگتے ہو :applause::applause:
ایسا کیا جرم تھا اس کا جو آخری لمحات میں میں بھی اس لڑکی کو رحم نہیں آیا لڑکی اتنی سنگدل کیوں ہو گئی کتنی بےدردی سے اس کی التجائیں ٹھکرا دی

شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے لکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ میں بھی اسی منظر کا حصہ ہوں ۔۔ آپ کو بھی لگے گا نا ۔۔۔۔


یہ تو میں نے بھی پڑھا ہے اکمل بھیا خوشبوں کا حساب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :nottalking: کیا وہ اکیلا قصور وار ہے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا


اکمل بھیا نے اک لائن کا اشارہ کیا ہے اور مزید جاننے کے لیے رشوت درکار ہے :)
 
بہت اچھے انداز سے احساسات کو پیش کیا ہے۔

بہت خوب نور آپی کمال کر دیا آپ نے منظر کی جس طرح عکاسی کی گئی ہے تحریر پڑھتے پڑھتے آپ خود کو اس تحریر کا ایک کردار محسوس کرنے لگتے ہو :applause::applause:
ایسا کیا جرم تھا اس کا جو آخری لمحات میں میں بھی اس لڑکی کو رحم نہیں آیا لڑکی اتنی سنگدل کیوں ہو گئی کتنی بےدردی سے اس کی التجائیں ٹھکرا دی
اس کے لئے "بعد از مکالمہ" کا انتظار فرمائیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت اچھے انداز سے احساسات کو پیش کیا ہے۔


اس کے لئے "بعد از مکالمہ" کا انتظار فرمائیں۔

تابش بھائی ! میں نے تین مکالمات اس سے پہلے لکھے تھے ۔ اس کو اس تحریر میں ہائپر لنکڈ کی صورت میں پیش کیا ہے اور اس تناظر میں میرا آخری مکالمہ حاضر ء خدمت ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
میں نے جواب دیا: ' تمہارا ساحل پہ لوٹ آنا ہی میرے لیے کافی ہے میں اس امید پہ گھروندتے بناتی رہی گی کہ تم کبھی تو آؤگے اور انکو مٹتا دیکھو گے۔

یہ امید کیوں ختم ہوئی، یہاں اس کاخلا محسوس ہو رہا ہے، اگر تینوں تحاریر کو ملا کر دیکھا جائے۔
یا شاید میں آپ کے پیچیدہ تخیل تک نہ پہنچ سکا۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ امید کیوں ختم ہوئی، یہاں اس کاخلا محسوس ہو رہا ہے، اگر تینوں تحاریر کو ملا کر دیکھا جائے۔
یا شاید میں آپ کے پیچیدہ تخیل تک نہ پہنچ سکا۔ :)
اب سمجھ آ گیا۔
تخیل کی ایک قسط نہیں دیکھ سکا تھا۔

میں بھی سوچ رہی تھی کہ واقعی خلاء ہے ۔۔۔مکالمے کھنگال رہی تھی ۔۔۔۔خلاء ہوتا بھی تو۔۔۔۔۔۔۔بعض اوقات ہم پری پلینڈ نہیں لکھتے ۔۔۔ اس کو آپ آخری مکالمہ نہ پڑھتے تو یوں واضح کرتی کہ اس مکالمے میں تخیل کے اندر بھی تخیل ہے اسی طرح امید کے اندر نامیدی کی کیفیت کہا جاسکتا ہے یعنی خواہش حسرت نہیں ہوئی
 
شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے لکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ میں بھی اسی منظر کا حصہ ہوں ۔۔ آپ کو بھی لگے گا نا ۔۔۔
آپ کی ہی کے تخلیق کردہ خیال کردار ہیں آپ کو تو محسوس ہوں گیے مزا تو تب آتا ہے جب پڑھنے والے آپ کے خیالی کرداروں کو محسوس کریں جیسے میں نے کیا ہے۔۔۔
اکمل بھیا نے اک لائن کا اشارہ کیا ہے اور مزید جاننے کے لیے رشوت درکار ہے
رشوت تو دے دو پر مجھے لگتا ہے وہ بیچارہ بھی مجبور تھا اس کے درد ناک انجام سے تو میرا دل پگھلنے لگا تھا اس کا کیوں لڑکی کا کہوں نہیں پگھلا
 
پر مجھے لگتا ہے وہ بیچارہ بھی مجبور تھا اس کے درد ناک انجام سے تو میرا دل پگھلنے لگا تھا اس کا کیوں لڑکی کا کہوں نہیں پگھلا
یعنی آپ کردار میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوئیں۔
پہلے مرحلے پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ مگر تمام مکالمے ترتیب سے اس کردار میں داخل ہو کر پڑھیں تو آپ بھی اس کہانی کی حد تک سنگدل ہو جائیں گی۔ :)
 
یعنی آپ کردار میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوئیں۔
پہلے مرحلے پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ مگر تمام مکالمے ترتیب سے اس کردار میں داخل ہو کر پڑھیں تو آپ بھی اس کہانی کی حد تک سنگدل ہو جائیں گی۔ :)
تم تیر چلا تلوار چلا جو دل چاہے وہ یار چلا
ہم نے تو گردن خم کر دی ہے اک بار چلا سو بار چلا۔
اگر کہانی کی تخلیق کار نے سوچا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے تو پھر مجھے سنگدل بننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر میں اس لڑکی جتنی سنگدل بن جاوں تو اس سے بھی کربناک انجام ہوتا
 

آوازِ دوست

محفلین
روائتی محبت کی کہانی بہت عجیب ہے۔ آپ اسے سراہتے ہیں اور اُسی لمحےآپ اسے خرافات بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں جیسے ندی کے ساتھ ساتھ چلتے دو کنارے تو ایک وقت میں آپ اِس کنارے ہوں گے یا اُس کنارے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپ ہر دو مقامات پر خود کو سچ اور حق پر محسوس کرتے ہیں۔ اَپر مڈل کلاس اور اَپر کلاس میں تو عموما"ایک خاموش سمجھوتے کے تحت اسے مور پریویلیجڈ یا ایڈوانسڈ سوشل نارمز میں ڈال کر ہضم کر لیا جاتا ہے البتہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا ہاضمہ اِس تضاد و دورنگی کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ سٹوڈنٹس سے مناسب اورکنٹرولڈ بے تکلفی کم از کم مجھے تو اچھی لگتی ہے سو پڑھائی کی خشک باتوں میں جب ادھر اُدھر کی باتوں کا وقفہ آتا تو عموما" اُن کی تان محبت پر آ کر ٹوٹتی، محبت کی عظمت کے ترانے سُننے کو ملتے اور محبت عبادت محبت پوجا ٹائپ جذبات کا اظہار دیکھنے سُننے کو ملتا میں ہنس کر سُنتا اور کُچھ باتوں کے بعد واپس موضوع پر آ جاتا ایک دِن جب ایسے ہی ایک سیشن میں جب محبت سے خیر سگالی کے جذبات زوروں پر تھے تو میں اُن سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ روائتی محبت کو شخصیت میں بہتری اور نکھار کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو سب نے پُرجوش انداز میں تائید کی۔ میں نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں کسی مہ جبیں کی محبت ہمیں لطیف احساسات و جذبات سے روشناس کراتی ہے اور ہم شعوری اور لاشعوری طور پر فریقِ دوئم کو جوابا" متاثر کرنے کے لیے اپنی شخصیت کے کمزور پہلو دبانے اور مثبت پہلو اُبھارنے کی کوشش سے خود کو بہتر بنانے کے عمل کا حصّہ دارکر لیتے ہیں لیکن اگر ہم اُس جذباتی انتشار اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کو نظر انداز کر بھی دیں جو کہ اِس کھیل میں پیدا ہونے والے ناموافق حالات کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں، تب بھی آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایسی ہی محبت کو اپنی بہنوں کے لیے بھی جائز اور روا سمجھتے ہیں۔ کلاس میں ایک دم پِن ڈراپ سائلنس پیدا ہوگئی اور معتبر محبتوں کے سارے مجنوں ایک دم لیلائے محبت سے دستبردار ہو گئے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنی سنگدلی پر افسوس بھی ہوا لیکن :
"محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا"
باتیں اب بھی ہوتی ہیں بس محبت کوئی نہیں کرتا :)
 
آخری تدوین:
روائتی محبت کی کہانی بہت عجیب ہے۔ آپ اسے سراہتے ہیں اور اُسی لمحےآپ اسے خرافات بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں جیسے ندی کے ساتھ ساتھ چلتے دو کنارے تو ایک وقت میں آپ اِس کنارے ہوں گے یا اُس کنارے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپ ہر دو مقامات پر خود کو سچ اور حق پر محسوس کرتے ہیں۔ اَپر مڈل کلاس اور اَپر کلاس میں تو عموما"ایک خاموش سمجھوتے کے تحت اسے مور پریویلیجڈ یا ایڈوانسڈ سوشل نارمز میں ڈال کر ہضم کر لیا جاتا ہے البتہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا ہاضمہ اِس تضاد و دورنگی کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ سٹوڈنٹس سے مناسب اورکنٹرولڈ بے تکلفی کم از کم مجھے تو اچھی لگتی ہے سو پڑھائی کی خشک باتوں میں جب ادھر اُدھر کی باتوں کا وقفہ آتا تو عموما" اُن کی تان محبت پر آ کر ٹوٹتی، محبت کی عظمت کے ترانے سُننے کو ملتے اور محبت عبادت محبت پوجا ٹائپ جذبات کا اظہار دیکھنے سُننے کو ملتا میں ہنس کر سُنتا اور کُچھ باتوں کے بعد واپس موضوع پر آ جاتا ایک دِن جب ایسے ہی ایک سیشن میں جب محبت سے خیر سگالی کے کے جذبات زوروں پر تھے تو میں اُن سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ روائتی محبت کو شخصیت میں بہتری اور نکھار کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو سب نے پُرجوش انداز میں تائید کی۔ میں نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں کسی مہ جبیں کی محبت ہمیں لطیف احساسات و جذبات سے روشناس کراتی ہے اور ہم شعوری اور لاشعوری طور پر فریقِ دوئم کو جوابا" متاثر کرنے کے لیے اپنی شخصیت کے کمزور پہلو دبانے اور مثبت پہلو اُبھارنے کی کوشش سے خود کو بہتر بنانے کے عمل کا حصّہ دارکر لیتے ہیں لیکن اگر ہم اُس جذباتی انتشار اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کو نظر انداز کر بھی دیں جو کہ اِس کھیل میں پیدا ہونے والے ناموافق حالات کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں، تب بھی آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایسی ہی محبت کو اپنی بہنوں کے لیے بھی جائز اور روا سمجھتے ہوں۔ کلاس میں ایک دم پِن ڈراپ سائلنس پیدا ہوگئی اور معتبر محبتوں کے سارے مجنوں ایک دم لیلائے محبت سے دستبردار ہو گئے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنی سنگدلی پر افسوس بھی ہوا لیکن :
"محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا"
باتیں اب بھی ہوتی ہیں بس محبت کوئی نہیں کرتا :)
زاہد بھائی کیا عمدہ انداز میں محبت کی حقیقت بیان کیا ہے :applause: بہت سی داد قبول فرمائیے یہ داد دل سے دے رہی ہوں۔ آپ کی اور سٹوڈنٹ کی بات چیت پر:applause: خوش رہیں آباد رہیں اور ہمیشہ مسکراتے رہیں
آپ نے کہا محبت کرتا کوئی نہیں لیکن ہر دن آپ کو اخبارات سے یا ٹی وی پر کوئی نا کوئی خبر ضرور دیکھتے ہیں محبت کے شکار لوگوں کا انجام۔۔۔
زاہد بھائی ابھی پچھلے دنوں کراچی سکول میں جو واقعہ پیش آیا تھا کیا وہ محبت نہیں تھی
 

نور وجدان

لائبریرین
تم تیر چلا تلوار چلا جو دل چاہے وہ یار چلا
ہم نے تو گردن خم کر دی ہے اک بار چلا سو بار چلا۔
اگر کہانی کی تخلیق کار نے سوچا ہے کہ اس نے تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے تو پھر مجھے سنگدل بننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر میں اس لڑکی جتنی سنگدل بن جاوں تو اس سے بھی کربناک انجام ہوتا
آپ کی ہی کے تخلیق کردہ خیال کردار ہیں آپ کو تو محسوس ہوں گیے مزا تو تب آتا ہے جب پڑھنے والے آپ کے خیالی کرداروں کو محسوس کریں جیسے میں نے کیا ہے۔۔۔

رشوت تو دے دو پر مجھے لگتا ہے وہ بیچارہ بھی مجبور تھا اس کے درد ناک انجام سے تو میرا دل پگھلنے لگا تھا اس کا کیوں لڑکی کا کہوں نہیں پگھلا


انسان محبت میں کبھی سنگدل نہیں ہوتا ۔محبت اور عشق میں فرق ضرور ہوتا ہے کہ محبت میں ذات بِکھر جاتی ہے جبکہ عشق ذات کی فنا کا نام ہے ۔ تخیل کی دُنیا حقیقت کے رنگوں کا فسانہ ہے ۔ جب انسان بکھر جائے تو محبت بھی بکھر جاتی ہے ۔۔۔ انسان کو بننے کے لیے پھر سے نئی محبت کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکی کو کسی اور سے محبت ہوگئی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے دنیا محبت کے بغیر نہیں چلتی اور یہ آخری مکالمہ اس بات کا ثبوت ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
روائتی محبت کی کہانی بہت عجیب ہے۔ آپ اسے سراہتے ہیں اور اُسی لمحےآپ اسے خرافات بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں جیسے ندی کے ساتھ ساتھ چلتے دو کنارے تو ایک وقت میں آپ اِس کنارے ہوں گے یا اُس کنارے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپ ہر دو مقامات پر خود کو سچ اور حق پر محسوس کرتے ہیں۔ اَپر مڈل کلاس اور اَپر کلاس میں تو عموما"ایک خاموش سمجھوتے کے تحت اسے مور پریویلیجڈ یا ایڈوانسڈ سوشل نارمز میں ڈال کر ہضم کر لیا جاتا ہے البتہ لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا ہاضمہ اِس تضاد و دورنگی کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ سٹوڈنٹس سے مناسب اورکنٹرولڈ بے تکلفی کم از کم مجھے تو اچھی لگتی ہے سو پڑھائی کی خشک باتوں میں جب ادھر اُدھر کی باتوں کا وقفہ آتا تو عموما" اُن کی تان محبت پر آ کر ٹوٹتی، محبت کی عظمت کے ترانے سُننے کو ملتے اور محبت عبادت محبت پوجا ٹائپ جذبات کا اظہار دیکھنے سُننے کو ملتا میں ہنس کر سُنتا اور کُچھ باتوں کے بعد واپس موضوع پر آ جاتا ایک دِن جب ایسے ہی ایک سیشن میں جب محبت سے خیر سگالی کے کے جذبات زوروں پر تھے تو میں اُن سے پوچھا کہ کیا واقعی وہ روائتی محبت کو شخصیت میں بہتری اور نکھار کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو سب نے پُرجوش انداز میں تائید کی۔ میں نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں کسی مہ جبیں کی محبت ہمیں لطیف احساسات و جذبات سے روشناس کراتی ہے اور ہم شعوری اور لاشعوری طور پر فریقِ دوئم کو جوابا" متاثر کرنے کے لیے اپنی شخصیت کے کمزور پہلو دبانے اور مثبت پہلو اُبھارنے کی کوشش سے خود کو بہتر بنانے کے عمل کا حصّہ دارکر لیتے ہیں لیکن اگر ہم اُس جذباتی انتشار اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کو نظر انداز کر بھی دیں جو کہ اِس کھیل میں پیدا ہونے والے ناموافق حالات کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں، تب بھی آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایسی ہی محبت کو اپنی بہنوں کے لیے بھی جائز اور روا سمجھتے ہوں۔ کلاس میں ایک دم پِن ڈراپ سائلنس پیدا ہوگئی اور معتبر محبتوں کے سارے مجنوں ایک دم لیلائے محبت سے دستبردار ہو گئے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اپنی سنگدلی پر افسوس بھی ہوا لیکن :
"محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا"
باتیں اب بھی ہوتی ہیں بس محبت کوئی نہیں کرتا :)


ایم اے انگلش کے اوپن سیشن میں میری ایک دوست نے پُوچھے گئے سوال کا جواب دیا کہ اُسے لائف پارٹنر صرف ذہین و عقل مند چاہیے ۔ حیرتا سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ عقل کے بغیر محبت ناممکن ہے ۔ شاید اس خیال میں وہی لڑکی ہے جو نظام ء کشش کو مسترد کیے ہوئے ہے کہ کشش سے ملاوٹ کا احتمال تو ہے مگر تقدیس بھی جاتی ہے ۔ عقل ادب سکھاتی ہے اور انتہائے ادب محبت کا مُسافر بنا دیتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ محبت کا وجود ضروری ہے تاکہ کشش کو مسترد کرتے تقدس کی محبت کو فروغ ہو ۔ واقعی ایسی محبت بہت کم ہوتی ہے جو ذات کی فنا کا سفر ہوتی ہے ۔ میری دوست تو محبت کی شادی کے بعد سسرال کی ہوکے رہ گئی ۔ایک دن اُس سے پوچھا کہ تم اپنی بیٹی کو ایسی محبت کو اجازت دو گی ؟ اس سے تو معاشرتی بگاڑ پیدا ہوگا ! کہنے لگی کہ معاشرے کا بگاڑ حوا کے بگڑنے سے ہوتا ہے ناکہ محبت کرنے سے ۔۔۔ ! جو محبت انسان کی ذات سے ابھرے وہ تا عمر چلتی ہے معدوم نہیں ہوتی روح بیک وقت کئی محبتیں کرتی ہے ،قربانی و ایثار کا دوسرا نام بھی یہی ہے
 
Top