آج کی طرحی غزل

قمرآسی

محفلین
وہ کہدے جو بھی ہے یارو اسے گلہ مجھ سے
کیوں بار بار ہے وہ شخص روٹھتا مجھ سے

بچھڑتے وقت کیا عہد مسکرائوں گا
پر اس کے بعد ہنسا ہی نہیں گیا مجھ سے

ملا تو ایسے کہ جیسے وہ جانتا ہی نہ ہو
یہ آرزو تھی مری حال پوچھتا مجھ سے

کہاں گیا ترا ساتھی ، وہ تیرا محرم دل
سوال پوچھتا اکثر ہے راستہ مجھ سے

اس ایک عشق سے کس بل نکل گئے میرے
نہ اس کے بعد کوئی کام بھی ہوا مجھ سے

وفا کا نام لیے جا رہا ہوں دنیا میں
مجھے خبر ہے کہ سرزد ہوئی خطا مجھ سے

برا لگے جسے بے شک وہ چھوڑ دے آسیؔ
ادب نہ ہوگا منافق کا کہہ دیا مجھ سے
#محمدقمرشہزادآسی
 
Top