آج کا سبق۔ طلعت حسین

محسن حجازی

محفلین
طلعت حسین میرے پسندیدہ صحافیوں میں سے ہیں۔ پی ٹی وی سے آغاز کرتے ہوئے وہ آج ٹی وی تک جا پہنچے۔ ذاتی طور پر مجھے پاکستان میں ان قدر ذہین صحافی کوئی دوسرا نہیں دکھائی دیتا۔ آج طلعت حسین کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا اور جہاں ان کی نثر نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہاں ان کے نکتہ نظر اور موضوع کے چناؤ اور گہرائی پر بھی اش اش کر اٹھا۔ محفل کے ان دوستوں کے لیے بطور خاص جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور حقیقتا وطن عزیز کی حالت پر کڑھتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ نثر کا ایک بہت خوبصورت نمونہ بھی ہے۔

1100493942-1.jpg

1100493942-2.gif
 

فاروقی

معطل
شکریہ محسن صاحب ............کاش ہمار ےبھائی بند آج کا یہ سبق اپنے ذہن کی گہرائیوں میں اتار لیں اور لیں ..........اور تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کوئی بات وغیرہ کیا کریں ...........
لیکن یہاں تو یہ حال ہے کسی کی بھی بے پر کی اڑائی ہوئی پر ایمان لے آتے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنے فریق مخالف کی مخالفت کا جواز پیدا کرتے ہیں اور فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں ..............
با مقصد تحریر شیعر کرنے پر ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ محس بھائی.....
 

mujeeb mansoor

محفلین
محسن حجازی صاحب ،اتنا خوبصورت مضمون ارسال کرنے کا بہت شکریہ ۔مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی حکایت بھی بھترین رہنمائی کرتی نظرآئی ،آج کل ایسے لوگوں کی ہرجگہ
بہتات ہے جو صرف سنی سنائی پر چلتے ہوئے اپنے زعم باطل پر بھروسہ کرتے ہیں حقیقت کا رخ کوئی اور ہوتاہے اور وقت کے بیٹے اپنا منگھڑت مقصد نکالنے کے چکر میں اصل بات کا ہی رخ موڑدیتے ہیں،آپ کا ایک بار پھر شکریہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
طلعت حسین میرے پسندیدہ صحافیوں میں سے ہیں۔ پی ٹی وی سے آغاز کرتے ہوئے وہ آج ٹی وی تک جا پہنچے۔ ذاتی طور پر مجھے پاکستان میں ان قدر ذہین صحافی کوئی دوسرا نہیں دکھائی دیتا۔ آج طلعت حسین کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا اور جہاں ان کی نثر نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہاں ان کے نکتہ نظر اور موضوع کے چناؤ اور گہرائی پر بھی اش اش کر اٹھا۔ محفل کے ان دوستوں کے لیے بطور خاص جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور حقیقتا وطن عزیز کی حالت پر کڑھتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ نثر کا ایک بہت خوبصورت نمونہ بھی ہے۔

عجب حُسن اتفاق ہے محسن بھائی کہ آپکی طرح (اور یہاں آپکی طرح سے خود آپ بھی مراد ہیں کہ آپ بھی میرے فیورٹ ہیں) طلعت حسین میرے بھی سب سے زیادہ فیورٹ ہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ مجھے پی ٹی وی کے زمانے سے ہی پسند ہیں مجھے انکے بولنے کا انداز بہت ہی بھاتا ہے اور جب میں نے بھی پہلی بار انکا لکھا ہوا پڑھا ششدر رہ گیا کہ لکھتے بھی خوب ہیں باقی تکنیکی اعتبار سے آپ زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں جو کچھ آپ نے لکھا ہے میں‌ اس سے سو فیصد متفق ہوں اس کے ساتھ ساتھ بھائی مجھے جاوید چوہدری اور ھارون رشید بھی بہت پسند ہیں آپکی کیا رائے ہے ان دونوں کے بارے میں کیوں کہ مجھے تو ان کا لکھا ہوا بہت پسند آتا ہے لیکن انکے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا ہوں ۔ ۔ امید ہے آپ اپنی رائے سے ضرور نوازیں گے ۔۔ شکریہ
 

محسن حجازی

محفلین
عجب حُسن اتفاق ہے محسن بھائی کہ آپکی طرح (اور یہاں آپکی طرح سے خود آپ بھی مراد ہیں کہ آپ بھی میرے فیورٹ ہیں) طلعت حسین میرے بھی سب سے زیادہ فیورٹ ہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ مجھے پی ٹی وی کے زمانے سے ہی پسند ہیں مجھے انکے بولنے کا انداز بہت ہی بھاتا ہے اور جب میں نے بھی پہلی بار انکا لکھا ہوا پڑھا ششدر رہ گیا کہ لکھتے بھی خوب ہیں باقی تکنیکی اعتبار سے آپ زیادہ بہتر رائے دے سکتے ہیں جو کچھ آپ نے لکھا ہے میں‌ اس سے سو فیصد متفق ہوں اس کے ساتھ ساتھ بھائی مجھے جاوید چوہدری اور ھارون رشید بھی بہت پسند ہیں آپکی کیا رائے ہے ان دونوں کے بارے میں کیوں کہ مجھے تو ان کا لکھا ہوا بہت پسند آتا ہے لیکن انکے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا ہوں ۔ ۔ امید ہے آپ اپنی رائے سے ضرور نوازیں گے ۔۔ شکریہ

آبی ٹوکول بہت بہت شکریہ آپ کی محبت اور پسندیدگی کا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔:)
میں پیشے کے اعتبار سے صحافت یا سیاست سے منسلک نہیں ہوں، نہ ہی میرا شعرگوئی، کالم نگاری یا کس قسم کی علمی و ادبی سرگرمی سے واسطہ ہے۔پیشے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجنئر ہوں اور تعلیم بھی ساتھ چل رہی ہے۔ سیاست صحافت اور ادب کو مجھ سے کہیں بہتر جاننے والے یہیں اسی محفل پر موجود ہیں۔

جہاں تک میری سیاسیات پر تحریروں کا تعلق ہے تو میں صرف اسے قلمی جہاد سمجھ کر وقت نکالتا ہوں وگرنہ یہاں کے پرانے جاننے والے میری کم آمیزی سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ہارون الرشید کی نثر نگاری جاوید چوہدری سے کہیں بہتر ہے اور بہت ادبی انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کے ہاں مجھے ایک اور انداز دیکھنے کو ملا کہ کالم کا پہلا اور آخری فقرہ بالکل ایک سا ہوتا ہے اور تمام کی تمام تحریر پہلے فقرے سے کھلنا شروع ہوتی ہے، درمیان تک پھیلاؤ اور آخر میں سمیٹتے ہوئے وہی فقرہ دہرا دیتے ہیں۔

جاوید چوہدری کے کالم میں اعداد و شمار، تاریخیں، واقعات، مقامات شخصیات کی بھرمار ہوتی ہے۔ مجھے آج تک حسرت ہی رہی کہ جاوید چودھری کو کبھی تو غلط بات کرتا دیکھوں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آپ یہ دہشت گردی کی جنگ والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے کہ عباس اطہر، نذیر ناجی، خورشید ندیم مسعود اشعر، منو بھائی اور حسن نثار سمیت بہتوں کا موقف کافی حد تک امریکی نکتہ نظر سے ہم آہنگ ہے اور ان لوگوں نے اس تواتر سے اس جنگ کے حق میں لکھا ہے کہ بسا اوقات واقعی امریکیوں کی مظلومیت اور معصومیت پر یقین آنے لگتا ہے۔
نوبت بایں جا رسید کہ پچھلے دنوں عباس اطہر نے کالم کے آخر میں صاف لکھ دیا کہ یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ اس قدر شور و غل میں جاوید چوہدری کی کی حق شناسی کو داد دینا پڑتی ہے کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں ان کا موقف وہی ہے جو روز اول سے ہے۔

ہارون الرشید کے علاوہ عرفان صدیقی بھی بہت خوب لکھتے ہیں۔ نوائے وقت سے یہ اب جنگ گروپ کے ساتھ ہیں۔ اب تو ہارون الرشید بھی جنگ گروپ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

موقف سے تو میں شاید اتفاق نہ کروں لیکن نثر کے حوالے سے خورشید ندیم کے کالم بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
روف کلاسرہ بھی جنوبی پنجاب کے ایک نئے ابھرتے ہوئے کالم نگار ہیں لیکن نثر تو کجا، مجھے ان سے غلط پیرائے میں اردو لکھنے کی شکایت ہے۔ موقف کے اعتبار سے بھی مجھے محسوس ہوا ہے کہ ابھی ان کا فکری سفر بیم و رجا کے دومیان ہے اور طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس طرف کو منہ کریں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی ٹوکول بہت بہت شکریہ آپ کی محبت اور پسندیدگی کا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔:)
میں پیشے کے اعتبار سے صحافت یا سیاست سے منسلک نہیں ہوں، نہ ہی میرا شعرگوئی، کالم نگاری یا کس قسم کی علمی و ادبی سرگرمی سے واسطہ ہے۔پیشے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجنئر ہوں اور تعلیم بھی ساتھ چل رہی ہے۔ سیاست صحافت اور ادب کو مجھ سے کہیں بہتر جاننے والے یہیں اسی محفل پر موجود ہیں۔

جہاں تک میری سیاسیات پر تحریروں کا تعلق ہے تو میں صرف اسے قلمی جہاد سمجھ کر وقت نکالتا ہوں وگرنہ یہاں کے پرانے جاننے والے میری کم آمیزی سے بخوبی آگاہ ہیں۔

ہارون الرشید کی نثر نگاری جاوید چوہدری سے کہیں بہتر ہے اور بہت ادبی انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کے ہاں مجھے ایک اور انداز دیکھنے کو ملا کہ کالم کا پہلا اور آخری فقرہ بالکل ایک سا ہوتا ہے اور تمام کی تمام تحریر پہلے فقرے سے کھلنا شروع ہوتی ہے، درمیان تک پھیلاؤ اور آخر میں سمیٹتے ہوئے وہی فقرہ دہرا دیتے ہیں۔

جاوید چوہدری کے کالم میں اعداد و شمار، تاریخیں، واقعات، مقامات شخصیات کی بھرمار ہوتی ہے۔ مجھے آج تک حسرت ہی رہی کہ جاوید چودھری کو کبھی تو غلط بات کرتا دیکھوں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آپ یہ دہشت گردی کی جنگ والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے کہ عباس اطہر، نذیر ناجی، خورشید ندیم مسعود اشعر، منو بھائی اور حسن نثار سمیت بہتوں کا موقف کافی حد تک امریکی نکتہ نظر سے ہم آہنگ ہے اور ان لوگوں نے اس تواتر سے اس جنگ کے حق میں لکھا ہے کہ بسا اوقات واقعی امریکیوں کی مظلومیت اور معصومیت پر یقین آنے لگتا ہے۔
نوبت بایں جا رسید کہ پچھلے دنوں عباس اطہر نے کالم کے آخر میں صاف لکھ دیا کہ یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ اس قدر شور و غل میں جاوید چوہدری کی کی حق شناسی کو داد دینا پڑتی ہے کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں ان کا موقف وہی ہے جو روز اول سے ہے۔

ہارون الرشید کے علاوہ عرفان صدیقی بھی بہت خوب لکھتے ہیں۔ نوائے وقت سے یہ اب جنگ گروپ کے ساتھ ہیں۔ اب تو ہارون الرشید بھی جنگ گروپ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

موقف سے تو میں شاید اتفاق نہ کروں لیکن نثر کے حوالے سے خورشید ندیم کے کالم بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
روف کلاسرہ بھی جنوبی پنجاب کے ایک نئے ابھرتے ہوئے کالم نگار ہیں لیکن نثر تو کجا، مجھے ان سے غلط پیرائے میں اردو لکھنے کی شکایت ہے۔ موقف کے اعتبار سے بھی مجھے محسوس ہوا ہے کہ ابھی ان کا فکری سفر بیم و رجا کے دومیان ہے اور طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس طرف کو منہ کریں۔
بہت شکریہ محسن بھائی آپ کے تفصیلی اور پر مغز تبصرے کا اب مجھے اور بھی سکون ہوا کہ جو لوگ مجھے پسند ہیں وہ حقیقت میں بھی اچھے اور مخلص لوگ ہیں اور حقیقی قلمی جہاد کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ باقی عرفان صدیقی بھی مجھے پسند ہیں پہلے مراسلے میں انکا نام لکھنے سے رہ گیا تھا آپ کا شکریہ کہ آپ نے انکی بابت بھی اپنی رائے سے نوازا اور یہ خورشید ندیم وہی تکبیر مسلسل والے ہیں ناں ۔ ۔ ۔ ؟
 

محسن حجازی

محفلین
شکریہ محسن صاحب ............کاش ہمار ےبھائی بند آج کا یہ سبق اپنے ذہن کی گہرائیوں میں اتار لیں اور لیں ..........اور تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کوئی بات وغیرہ کیا کریں ...........
لیکن یہاں تو یہ حال ہے کسی کی بھی بے پر کی اڑائی ہوئی پر ایمان لے آتے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنے فریق مخالف کی مخالفت کا جواز پیدا کرتے ہیں اور فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں ..............
با مقصد تحریر شیعر کرنے پر ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ محس بھائی.....

فاروقی صاحب آہستہ بولیے یہ نہ ہو کہ طلعت حسین پر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہونے کا الزام لگ جائے :blush:
ہمارے ایک ہمت علی بھائي ہوتے ہیں آج کل نظر نہیں آرہے وہ کیا کرتے تھے کہ ہر دوسرے آدمی پر فوجی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا دیتے تھے۔ :grin:
ہم کو بھی حسرت ہی رہی کہ وہ ہم پر فوجی ایجنٹ ہونے کی تہمت دھریں اور ہم فوری جی ایچ کیو پہنچ کر مطالبہ داغیں کہ لائیے صاحب ہماری زرعی اراضی و کمرشل پلاٹ شلاٹ کے ہم بھی آپ ہی کے بھائي بندے ہیں :rolleyes:
ویسے ہم پر الزام لگ چکا ہے کہ اوپر سے ٹھیک ٹھاک کلین شیو نظر آتے ہیں اندر سے طالبان ہیں گویا بقول اکبر الہ آبادی یاروں نے رپٹ لکھوائی ہے جا کے تھانے میں اکبر خدا کا نام لیتا ہے زمانے میں :grin:
ہم طالبان کے ہرگز حامی نہیں، حق و انصاف کے حامی ہیں۔:)
 

محسن حجازی

محفلین
بہت شکریہ محسن بھائی آپ کے تفصیلی اور پر مغز تبصرے کا اب مجھے اور بھی سکون ہوا کہ جو لوگ مجھے پسند ہیں وہ حقیقت میں بھی اچھے اور مخلص لوگ ہیں اور حقیقی قلمی جہاد کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ باقی عرفان صدیقی بھی مجھے پسند ہیں پہلے مراسلے میں انکا نام لکھنے سے رہ گیا تھا آپ کا شکریہ کہ آپ نے انکی بابت بھی اپنی رائے سے نوازا اور یہ خورشید ندیم وہی تکبیر مسلسل والے ہیں ناں ۔ ۔ ۔ ؟

اصل میں یہ اشتباہ اکثر ہونے لگتا ہے کہ کیا میں خود صحیح بھی ہوں؟ مثلا فواد صاحب نے پچھلے دنوں ایک مفصل مراسلے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔تحریر اور استدلال اس قدر جاندار تھا کہ میں خود قائل ہوتے ہوتے بچا تاہم مختصر منطقی تجزیے پر میں نے پایا کہ ان کے موقف میں کئی واقعاتی اغلاط موجود ہیں اور کئی ایسی assumptions ہیں جن کی false nature میں کوئي کلام نہیں سو بعد ازاں اس بابت انہیں تفصیلی جواب دیا۔ بس یہ تمام پروپیگنڈہ کے گر ہوتے ہیں کہ اتنی گرد اڑائیے کہ سچ بیچ میں ہی دب کر رہ جائے۔ یہی بات طلعت حسین نے اپنے اس کالم میں کی ہے۔

بالکل یہ خورشید ندیم تکبیر مسلسل والے ہیں اور جاوید احمد غامدی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کا اپنا کوئي فکر نہیں، مولانا امین احسن اصلاحی پر ان کا تکیہ ہے جو فکر فراہی کے سرخیل ہیں۔ تاہم غامدی صاحب فکر فراہی و اصلاحی سے بھی کوسوں دور ہیں گو انہیں کو میراث سنبھالے بیٹھے ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اصل میں یہ اشتباہ اکثر ہونے لگتا ہے کہ کیا میں خود صحیح بھی ہوں؟ مثلا فواد صاحب نے پچھلے دنوں ایک مفصل مراسلے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔تحریر اور استدلال اس قدر جاندار تھا کہ میں خود قائل ہوتے ہوتے بچا تاہم مختصر منطقی تجزیے پر میں نے پایا کہ ان کے موقف میں کئی واقعاتی اغلاط موجود ہیں اور کئی ایسی Assumptions ہیں جن کی False Nature میں کوئي کلام نہیں سو بعد ازاں اس بابت انہیں تفصیلی جواب دیا۔ بس یہ تمام پروپیگنڈہ کے گر ہوتے ہیں کہ اتنی گرد اڑائیے کہ سچ بیچ میں ہی دب کر رہ جائے۔ یہی بات طلعت حسین نے اپنے اس کالم میں کی ہے۔

بالکل یہ خورشید ندیم تکبیر مسلسل والے ہیں اور جاوید احمد غامدی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کا اپنا کوئي فکر نہیں، مولانا امین احسن اصلاحی پر ان کا تکیہ ہے جو فکر فراہی کے سرخیل ہیں۔ تاہم غامدی صاحب فکر فراہی و اصلاحی سے بھی کوسوں دور ہیں گو انہیں کو میراث سنبھالے بیٹھے ہیں۔
بالکل بجا فرمایا آپ نے اور جہاں تک بات ہے ایسے لوگوں کے بارے میں اشتباہ میں پڑھ جانے کی تو اسکی بڑی وجہ میری بابت یہ ہے کہ میرا مطالعہ اس باب میں نہایت ہی محدود ہے بس یہی وجہ ہے کہ ۔۔ فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون کے مصداق اپنے سے زیادہ علم والے سے رائے لے لینے کا قائل ہوں (تاکہ ولکن لیطمئن قلبی کی دولت نصیب ہوجائے) کہ ہر علم والے کہ اوپر ایک علم والا ہے ۔ ۔ اور میرے نزدیک حقیقت میں علم نام ہی یہ جان لینے کا ہے کہ بندہ کو اس حقیقت کا ادراک نصیب ہوجائے کہ ۔ ۔ ۔ حقیقۃ العلم فھو العجز عن درک الادراک ادراک ۔ ۔ ۔ یعنی یہ جان لینا کہ میں جاننے سے قاصر ہوں ۔ ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اصل میں یہ اشتباہ اکثر ہونے لگتا ہے کہ کیا میں خود صحیح بھی ہوں؟ مثلا فواد صاحب نے پچھلے دنوں ایک مفصل مراسلے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔تحریر اور استدلال اس قدر جاندار تھا کہ میں خود قائل ہوتے ہوتے بچا تاہم مختصر منطقی تجزیے پر میں نے پایا کہ ان کے موقف میں کئی واقعاتی اغلاط موجود ہیں اور کئی ایسی assumptions ہیں جن کی false nature میں کوئي کلام نہیں

ميں جب کسی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں تو وہ اس موضوع پر يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس کا موازنہ آزاد ميڈيا پر کسی نيوز رپورٹ يا اخباری کالم سے نہيں کيا جا سکتا۔ آپ يقينی طور پر ميری رائے سے اختلاف کر سکتے ہيں۔ آپ اس بات کا حق رکھتے ہيں کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی آزاد رائے قائم کريں۔

آزاد ميڈيا، صحافی اور کالم نگار اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتے ہيں۔ وہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنياد پر اپنی سوچ اور خيالات کا اظہار کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل پاکستانی ميڈيا پر يہ خبر چلی کہ سابق صدر مشرف کسی بھی وقت بيرون ملک منتقل ہو سکتے ہيں اور انکی اور اہل خانہ کی منتقلی کے ليے ائرپورٹ پر جہاز تيار کھڑا ہے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ يہ خبر غلط ثابت ہوئ۔ جس صحافی نے سب سے پہلے يہ خبر "رپورٹ" کی تھی، اس سے جب اس حوالے سے سوال کيا گيا تو اس کا جواب يا تھا کہ اس نے مختلف لوگوں کے بيانات اور خبروں سے ذاتی حيثيت ميں يہ "نتيجہ" اخذ کيا تھا۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا طريقہ کار اس سے قطعی مختلف ہے۔ ہماری ٹيم براہراست يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے منسلک ہے۔ لہذا اس حوالے سے کسی موضوع پر ميری رائے امريکی حکومت کے سرکاری موقف کو واضح کرتی ہے۔ اس کی مثال ايسے ہی ہے جيسے پاکستان کے دفتر خارجہ يا کسی اندرونی وزارت کے دفتر سے جاری کردہ کسی بيان کا موازنہ اخبار ميں شائع ہونے والی کسی ايسی خبر سے نہيں کيا جا سکتا جسے کسی صحافی نے اپنی ذاتی حيثيت ميں رپورٹ کيا ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
ميں جب کسی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں تو وہ اس موضوع پر يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس کا موازنہ آزاد ميڈيا پر کسی نيوز رپورٹ يا اخباری کالم سے نہيں کيا جا سکتا۔ آپ يقينی طور پر ميری رائے سے اختلاف کر سکتے ہيں۔ آپ اس بات کا حق رکھتے ہيں کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی آزاد رائے قائم کريں۔

گویا مخالف سمت سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہےکہ حکومت امریکہ کے سرکاری موقف کو لازم نہیں کہ حقائق سے کوئی واسطہ ہو۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ پہلو آپ ہی کے بیان میں موجود ہے۔ اختلاف رائے کا حق تسلیم کرنے لیے شکریہ۔

آزاد ميڈيا، صحافی اور کالم نگار اپنی رائے کے اظہار کا حق رکھتے ہيں۔ وہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنياد پر اپنی سوچ اور خيالات کا اظہار کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل پاکستانی ميڈيا پر يہ خبر چلی کہ سابق صدر مشرف کسی بھی وقت بيرون ملک منتقل ہو سکتے ہيں اور انکی اور اہل خانہ کی منتقلی کے ليے ائرپورٹ پر جہاز تيار کھڑا ہے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ يہ خبر غلط ثابت ہوئ۔ جس صحافی نے سب سے پہلے يہ خبر "رپورٹ" کی تھی، اس سے جب اس حوالے سے سوال کيا گيا تو اس کا جواب يا تھا کہ اس نے مختلف لوگوں کے بيانات اور خبروں سے ذاتی حيثيت ميں يہ "نتيجہ" اخذ کيا تھا۔

صالح ظافر نامی جنگ گروپ سے وابستہ اس صحافی سے مختصر ملاقات رہی ہے، یہ صاحب ایک نمبر کے بلیک میلر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں کھانے پینے والی کسی بھی شخصیت کے بارے میں چند ایک ثبوت دے دیجئے باقی اس کی ناک میں دم یہ خود کر لیں گے۔ طیارے کی رپورٹ بھی انہیں صاحب کی تھی اور اس مسئلے پر صدارتی ترجمان راشد قریشی انہیں موبائل فون پر فحش گالیاں بھی دے چکے ہیں۔ یہ صاحب آچ کل قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کور کرتے ہیں۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا طريقہ کار اس سے قطعی مختلف ہے۔ ہماری ٹيم براہراست يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے منسلک ہے۔ لہذا اس حوالے سے کسی موضوع پر ميری رائے امريکی حکومت کے سرکاری موقف کو واضح کرتی ہے۔ اس کی مثال ايسے ہی ہے جيسے پاکستان کے دفتر خارجہ يا کسی اندرونی وزارت کے دفتر سے جاری کردہ کسی بيان کا موازنہ اخبار ميں شائع ہونے والی کسی ايسی خبر سے نہيں کيا جا سکتا جسے کسی صحافی نے اپنی ذاتی حيثيت ميں رپورٹ کيا ہو۔

بالکل درست! شرمندہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں پاکستان کا محکمہ خارجہ بھی اکثر اوقات حقائق سے بیس کوس دور کے خیالات آرا و نظریات رکھتا ہے اور ان کی دانست میں یہ بھی مسلمہ ہوتی ہیں انہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شرمندہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں پاکستان کا محکمہ خارجہ بھی اکثر اوقات حقائق سے بیس کوس دور کے خیالات آرا و نظریات رکھتا ہے اور ان کی دانست میں یہ بھی مسلمہ ہوتی ہیں انہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

محترم،

آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کو جس "کمزوری" يا "مجبوری" کا نام دے رہے ہيں، ميرے نزديک حقائق تک رسائ کے ليے وہی "مجبوری" يا وابستگی مجھے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔ بہت سے دوستوں کی رائے ان معلومات پر مبنی ہوتی ہے جو ميڈيا اور انٹرنيٹ پر ديکھتے اور سنتے ہيں باوجود اس کے کہ يہ بات تصديق شدہ ہے کہ ميڈيا پر کچھ عناصر دانستہ بيانات اور واقعات کو توڑ مڑور کر پيش کرتے ہيں۔

شايد بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہيں ہے کہ امريکی اہلکاروں اور سفارت کاروں کی اکثر ملاقاتوں، بيانات اور بعض اوقات غير ملکی سفارت کاروں سےفون کالز کو باقاعدہ ريکارڈ کيا جاتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا ايک ادارہ حکومتی بيانات، پريس کانفرنسز اور اہم حکومتی رپورٹوں کا تاريخی ريکارڈ مرتب کرنے پر مخصوص ہے اور باقاعدگی سے يہ معلومات ريليز کرتا ہے۔ اس ضمن ميں ويب لنک پيش ہے

http://www.state.gov/r/pa/ho

يہ ريکارڈ کسی بھی تاريخی واقعے کے حوالے سے جذباتی بحث سے ہٹ کر حقائق کی تحقيق ميں خاصا مددگار ثابت ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کئ دوستوں نے 1971 کی پاک بھارت جنگ ميں امريکہ کے کردار اور خاص طور پر ايک بحری بيڑے کے حوالے سے کيے جانے والے مبينہ وعدے کے بارے ميں سوالات کيے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے وابستگی کی وجہ سے مجھے بآسانی ان حکومتی دستاويز تک رسائ حاصل ہو گئ جن کا تعلق اس جنگ مين امريکہ کے کردار کے حوالے سے تھا۔ ميں نے يہ دستاويز فورمز پر پيش کر کے امريکی نقطہ نظر کی وضاحت پيش کی۔

اسی طرح بہت سے دوست اردو فورمز پر طالبان کے حوالے سے رائے زنی کر رہے ہیں اور يہ نقطہ نظر کافی مقبول ہے کہ طالبان کے افغانستان ميں برسراقتدار آنے ميں امريکہ نے بنيادی کردار ادا کيا ہے۔ ليکن ان جذباتی دعووں کے برعکس ميں نے امريکی حکومتی اداروں سے ايسی درجنوں دستاويز حاصل کر کے ان فورمز پر پوسٹ کی ہيں جس سے يہ ثابت ہے کہ 90 کی دہائ ميں امريکی حکومت کی جانب سے طالبان کے افغانستان ميں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اس ضمن ميں پاکستان کے بھرپور تعاون پر شديد تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ يہ ايسے ناقابل ترديد تاريخی دستاويزی ثبوت ہيں جو 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد نہيں تخليق کيے گئے بلکہ تاريخی ريکارڈ کا حصہ ہيں۔ طالبان کے بارے ميں ميرے ريمارکس اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی موجودہ صورت حال کا يہ وہ تاريخی پس منظر ہے جو ميں نے دوستوں کے سامنے ان فورمز پر پيش کيا۔

کئ مواقع پر لوگوں کی رائے کی بنياد وہ بيانات ہوتے ہيں جوسياق وسباق سے ہٹ کر امريکی عہديداروں سے منسوب کيے جاتے ہيں ۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے براہراست ان عہديداروں تک رسائ حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت مجھے ميڈيا پر دانستہ پھيلائ جانے والے افواہوں سے ہٹ کر اصل بيان کو سمجھنے اور آپ تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ميں آپ کی توجہ پاکستان ميں امريکہ کی سفير اين پيٹرسن کی 18 فروری کے انتخابات کے بعد نوازشريف سے ايک ملاقات کی جانب دلواؤں گا جس کو رپورٹ کرتے ہوئے ايک نجی ٹی وی نے يہ دعوی کيا کہ امريکی سفير نے اپنی ملاقات کے دوران نواز شريف سے ججز کی بحالی کے حوالے سے اپنے موقف ميں تبديلی پر زور ديا۔ ميں نے اس ملاقات کی ريکارڈنگ کا مکمل متن حاصل کيا اور حقائق سے اردو فورمز پر دوستوں کو آگاہ کيا۔

آخر ميں آپ کی توجہ اس امريکی قانون کی جانب دلواؤں گا جس کی رو سے کوئ بھی امريکی شہری تاريخی حکومتی دستاويز کے حصول کے ليے درخواست دے سکتا ہے۔ آپ اس قانون کے بارے ميں تفصيل سے اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Freedom_of_Information_Act_(United_States)


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کو جس "کمزوری" يا "مجبوری" کا نام دے رہے ہيں، ميرے نزديک حقائق تک رسائ کے ليے وہی "مجبوری" يا وابستگی مجھے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔ بہت سے دوستوں کی رائے ان معلومات پر مبنی ہوتی ہے جو ميڈيا اور انٹرنيٹ پر ديکھتے اور سنتے ہيں باوجود اس کے کہ يہ بات تصديق شدہ ہے کہ ميڈيا پر کچھ عناصر دانستہ بيانات اور واقعات کو توڑ مڑور کر پيش کرتے ہيں۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے آپ کی وابستگی کو کبھی بھی میں نے ہدف تنقید یا تحقیر نہیں بنایا، آپ میری ایک بھی ایسی تحریر دکھا دیجئے میں یہ فورم عمر بھر کے لیے چھوڑ دوں گا۔ آپ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں، یہاں امریکی موقف پیش کرتے ہیں، میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں اور آپ کی کام سے وابستگی کی تہہ دل سے قدر کرتا ہوں۔ اور میں یہاں تک کہوں گا کہ اردو محفل پر آپ کی موجودگی ہمارے لیے باعث اعزاز بھی ہے یا کم سے کم میں ذاتی طور پر ایسا سمجھتا ہوں۔
تاہم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہونے کے سبب آپ حقائق سے زیادہ قریب ہیں کچھ زیادہ منطقی نہیں، یہ دلیل بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہا جائے کہ کپاس کے کھیتوں کے پاس رہنے کی وجہ سے میری رنگت بہت صاف ہے۔ حلانکہ کپاس کے کھیتوں کو کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ کوئی بھی کہیں بھی گورا ہو سکتا ہے حتی کہ جہاں کپاس نہیں اگتی۔ یہی معاملہ با خبری اور علمیت کا بھی ہے۔
شايد بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہيں ہے کہ امريکی اہلکاروں اور سفارت کاروں کی اکثر ملاقاتوں، بيانات اور بعض اوقات غير ملکی سفارت کاروں سےفون کالز کو باقاعدہ ريکارڈ کيا جاتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا ايک ادارہ حکومتی بيانات، پريس کانفرنسز اور اہم حکومتی رپورٹوں کا تاريخی ريکارڈ مرتب کرنے پر مخصوص ہے اور باقاعدگی سے يہ معلومات ريليز کرتا ہے۔

میں بھی اپنی تمام فون کالز اور اپنی روز مرہ کی گفتگو ریکارڈ کرتا ہوں اس لیے غلط بات کرنے کا مارجن میرے ہاں بھی بہت کم ہے۔
جہاں تک ریکارڈ کرنے اور اسے مرتب کرنے کی بات ہے، یہ کوئي بڑی بات نہیں چھوٹے موٹے تجارتی ادارے بھی اپنے کرتوتوں کا ریکارڈ مرتب رکھتے ہیں کجا کہ ایک بہت بڑی ریاست اس سے غافل رہے۔

اسی طرح بہت سے دوست اردو فورمز پر طالبان کے حوالے سے رائے زنی کر رہے ہیں اور يہ نقطہ نظر کافی مقبول ہے کہ طالبان کے افغانستان ميں برسراقتدار آنے ميں امريکہ نے بنيادی کردار ادا کيا ہے۔ ليکن ان جذباتی دعووں کے برعکس ميں نے امريکی حکومتی اداروں سے ايسی درجنوں دستاويز حاصل کر کے ان فورمز پر پوسٹ کی ہيں جس سے يہ ثابت ہے کہ 90 کی دہائ ميں امريکی حکومت کی جانب سے طالبان کے افغانستان ميں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اس ضمن ميں پاکستان کے بھرپور تعاون پر شديد تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ يہ ايسے ناقابل ترديد تاريخی دستاويزی ثبوت ہيں جو 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد نہيں تخليق کيے گئے بلکہ تاريخی ريکارڈ کا حصہ ہيں۔ طالبان کے بارے ميں ميرے ريمارکس اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی موجودہ صورت حال کا يہ وہ تاريخی پس منظر ہے جو ميں نے دوستوں کے سامنے ان فورمز پر پيش کيا۔
کچھ دستاویز 1990 سے پہلے کی بھی حاصل کیجئے ان الماریوں پر 80 کا ہندسہ چپکا ہوا ہوگا۔ وہاں سے آپ کو معلوم ہوگا کہ کے جی بی، سی آئی اور آئی ایس آئي میں کیا چل رہا تھا، روس کو توڑنے کے لیے کن افغان قبیلوں اور گروہوں کو مسلح کیا گیا، مالی امداد دی گئی، وہ سب فائلیں 1990 سے پرے کی الماریوں میں موجود ہوں گی سو ان میں سے بھی کچھ پیش کیجئے۔ اب ایسا بھی ہونے سے رہا کہ اصل منصوبے بھی آپ کی دسترس میں ہوں اور آپ انہیں فورمز پر دھر چھوڑیں۔ یہ وہ فائلیں ہیں جن میں امریکہ کا بیرونی چہرہ تراشا گيا ہے۔ اندرونی چہرہ ہماری آپ کی دسترس سے باہر ہے۔ اور امریکہ ہی کیا ہر ریاست ایسا ہی کیا کرتی ہے۔ اور یہ بیان تو خود آپ کی تحریر میں موجود ہے کہ تشویش امریکہ کو 1990 سے شروع ہوئی۔ مسلح تو یہ پہلے بھی تھے۔ گویا پہلے کوئی اعتراض نہ تھا۔ میں نہیں کہہ رہا، آپ ہی کے بیان میں موجود ہے۔

کئ مواقع پر لوگوں کی رائے کی بنياد وہ بيانات ہوتے ہيں جوسياق وسباق سے ہٹ کر امريکی عہديداروں سے منسوب کيے جاتے ہيں ۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے براہراست ان عہديداروں تک رسائ حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت مجھے ميڈيا پر دانستہ پھيلائ جانے والے افواہوں سے ہٹ کر اصل بيان کو سمجھنے اور آپ تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ميں آپ کی توجہ پاکستان ميں امريکہ کی سفير اين پيٹرسن کی 18 فروری کے انتخابات کے بعد نوازشريف سے ايک ملاقات کی جانب دلواؤں گا جس کو رپورٹ کرتے ہوئے ايک نجی ٹی وی نے يہ دعوی کيا کہ امريکی سفير نے اپنی ملاقات کے دوران نواز شريف سے ججز کی بحالی کے حوالے سے اپنے موقف ميں تبديلی پر زور ديا۔ ميں نے اس ملاقات کی ريکارڈنگ کا مکمل متن حاصل کيا اور حقائق سے اردو فورمز پر دوستوں کو آگاہ کيا۔
بالکل! یہ نکتہ قابل قبول اور فہم عامہ کے مطابق ہے۔

آخر ميں آپ کی توجہ اس امريکی قانون کی جانب دلواؤں گا جس کی رو سے کوئ بھی امريکی شہری تاريخی حکومتی دستاويز کے حصول کے ليے درخواست دے سکتا ہے۔ آپ اس قانون کے بارے ميں تفصيل سے اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
میں امریکی شہری نہیں ہوں۔
تاخیر کے لیے معذرت، خانگی مسائل نے الجھا رکھا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ دستاویز 1990 سے پہلے کی بھی حاصل کیجئے ان الماریوں پر 80 کا ہندسہ چپکا ہوا ہوگا۔ وہاں سے آپ کو معلوم ہوگا کہ کے جی بی، سی آئی اور آئی ایس آئي میں کیا چل رہا تھا، روس کو توڑنے کے لیے کن افغان قبیلوں اور گروہوں کو مسلح کیا گیا، مالی امداد دی گئی، وہ سب فائلیں 1990 سے پرے کی الماریوں میں موجود ہوں گی سو ان میں سے بھی کچھ پیش کیجئے۔ اب ایسا بھی ہونے سے رہا کہ اصل منصوبے بھی آپ کی دسترس میں ہوں اور آپ انہیں فورمز پر دھر چھوڑیں۔ یہ وہ فائلیں ہیں جن میں امریکہ کا بیرونی چہرہ تراشا گيا ہے۔ اندرونی چہرہ ہماری آپ کی دسترس سے باہر ہے۔ اور امریکہ ہی کیا ہر ریاست ایسا ہی کیا کرتی ہے۔ اور یہ بیان تو خود آپ کی تحریر میں موجود ہے کہ تشویش امریکہ کو 1990 سے شروع ہوئی۔ مسلح تو یہ پہلے بھی تھے۔ گویا پہلے کوئی اعتراض نہ تھا۔ میں نہیں کہہ رہا، آپ ہی کے بیان میں موجود ہے۔


يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟ جہاں تک اسامہ بن لادن کا سوال ہے تو دہشت گردی کا راستہ ان کا اپنا دانستہ فيصلہ تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں نے اس فورم پر پوسٹ کیے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
ایک اچھے صحافی کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ "مکمل سچائی" عوام کے سامنے رکھتا ہے
سانحہ لال مسجد کے دوران جب دھماکے کی آواز، اور دھویں کے بادل "بریکنگ نیوز" کے طور پر پیش کرکے عوام کو "باخبر" کیا جارہا تھا اس وقت طلعت حسین اس بات پر حکومتی اہلکاروں سے احتجاج کرتا نظر آرہا تھا کہ میڈیا کو اتنا دور کیوں رکھا گیا ہے جہاں سے وہ سچائی دکھا نہیں سکتے۔
 
Top