آج موسم اداس لگتا ہے

ایم اے راجا

محفلین
آج موسم اداس لگتا ہے
غم کہیں آس پاس لگتا ہے

شہر سارا لپٹ گیا دھند میں
سرد صحرا یہ، پیاس لگتا ہے

درد دل میں ہو جو زمانے کا
آدمی عام، خاص لگتا ہے

دیکھ کر بھانپ غم کو لیتا ہے
شہر چہرہ شناس لگتا ہے

جو نہ رویا کبھی غموں سے وہ
آج کتنا حساس لگتا ہے

وہ نہ آئے گا اب کبھی راجا
دل کو پختا قیاس لگتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
خوب راجا صاحب۔ اچھی کوشش ہے ماشاء‌اللہ!
آپ نے پیاس اور حساس دونوں‌کو بر وزن فعول باندھا ہے جہ غلط ہے۔ پیاس بر وزن فعل مروج ہے جب کہ حساس کا سین اول مشدد ہونے کے باعث بر وزن مفعول مستعمل ہے۔
"دیکھ کر بھانپ غم کو لیتا ہے" کے الفاظ‌کی ترتیب میں اس قدر تردد کی کیا ضرورت تھی؟ اسے با سہولت "دیکھ کر، غم کو بھانپ لیتا ہے"کیا جا سکتا تھا۔
فی الحال اس قدر ہی۔۔۔ تفصیلی جائزہ پھر کبھی
 

الف عین

لائبریرین
ان کے علاوہ یہ بھی لکھ دوں کہ "دھند" کی دال گر رہی ہے، یہ محض "دھن" وزن میں آتا ہے۔
اور ’پیاس‘ بر وزن فعول نہیں ہے۔ محض فعل ہے۔ یعنی "ی" کا تلفظ نہیں ہوتا۔ یہ صرف ’پاس‘ باندھی جائے گی۔
راجا یہ غلطیاں درست کر سکیں تو کر لیں۔ اس کے بعد دیکھتا ہوں اسے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ان کے علاوہ یہ بھی لکھ دوں کہ "دھند" کی دال گر رہی ہے، یہ محض "دھن" وزن میں آتا ہے۔
اور ’پیاس‘ بر وزن فعول نہیں ہے۔ محض فعل ہے۔ یعنی "ی" کا تلفظ نہیں ہوتا۔ یہ صرف ’پاس‘ باندھی جائے گی۔
راجا یہ غلطیاں درست کر سکیں تو کر لیں۔ اس کے بعد دیکھتا ہوں اسے۔

[آج موسم اداس لگتا ہے
غم کہیں آس پاس لگتا ہے

شہر سارا ہی دھند میں لپٹا
سرد صحرا یہ، پیاس لگتا ہے

درد دل میں ہو جو زمانے کا
آدمی عام، خاص لگتا ہے

بھانپ لیتا ہے درد چہرے سے
شہر چہرہ شناس لگتا ہے

جو نہ رویا کبھی غموں سے وہ
آج کتنا حساس لگتا ہے

وہ نہ آئے گا اب کبھی راجا
دل کو پختا قیاس لگتا ہے

فاتح صاحب بہت بہت شکریہ۔

استادِ محترم بہت شکریہ۔ جہانتک پیاس کا سوال ہے تو میں وہاں " یہ " لگانا بھول گیا تھا، باقی میں نے دھند والے مصرعہ کو درست کرنے کی کوشش کی ہے، سرخ مصرعے ملاحظہ ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
دیکھتا ہوں اس کو۔۔ لیکن پہلے اس پر غور نہیں کیا تھا۔۔ ’حساس‘ میں بھی سین پر تشدید ہوتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
لو اس کو بھی دیکھ لیا۔ آج دن بھر یہی کام کیا ہے۔

آج موسم اداس لگتا ہے
غم کہیں آس پاس لگتا ہے

///درست ہے

شہر سارا ہی دھند میں لپٹا
سرد صحرا یہ، پیاس لگتا ہے

درد دل میں ہو جو زمانے کا
آدمی عام، خاص لگتا ہے
///ہو جو ‘ کو ’جو ہو‘ کر دو۔ ’جو‘ کو طویل باندھنا فصیح نہیں۔

بھانپ لیتا ہے درد چہرے سے
شہر چہرہ شناس لگتا ہے
///ویسے تو درست ہے۔لیکن سوال پیدا کرتا ہے۔ شہر اور درد بھانپ لینا؟؟۔ چہرہ کی تکرار بھی اچھی نہیں۔

جو نہ رویا کبھی غموں سے وہ
آج کتنا حساس لگتا ہے
/// حسّاس۔ بر وزن احساس درست ہے۔ قافیہ کسی صورت اس بر میں نہیں آتا۔

وہ نہ آئے گا اب کبھی راجا
دل کو پختا قیاس لگتا ہے
///پختہ؟ قیاس لگنا محاورہ بھی غلط ہے۔ دل کو پختہ قیاس ہے۔۔۔ بات مکمل ہو گئی۔
 
Top