شمشاد
لائبریرین
آبِ گُم - شہر دو قصہ
(A Tale of Two Cities) کی الٹ۔ یعنی قصہ دو کہانیوں والے شہر کاکھنڈر میں چراغاں
کم و بیش پینتالیس برس کا ساتھ تھا۔ نصف صدی ہی کہیے۔ بیوی کے انتقال کے بعد بشارت بہت دن کھوئے کھوئے سے، گُم صُم رہے۔ جیسے انہوں نے کچھ گم نہ کیا ہو، خود گم ہو گئے ہوں۔ جوان بیٹوں نے میت لحد میں اتاری، اس وقت بھی وہ صبر و ضبط کی تصویر بنے، تازہ کھدی ہوئی مٹی کے ڈھیر پر خاموش کھڑے دیکھا کیئے۔ ابھی ان کے بٹوے میں مرحومہ کے ہاتھ کی رکھی ہوئے الائچیاں باقی تھیں۔ اور ڈیپ فریزر میں اس کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی تہیں لگی تھیں۔ کروشیے کی جو ٹوپی وہ اس وقت پہنے ہوئے تھے وہ اس جنتی بی بی نے چاند رات کو دو بجے مکمل کی تھی تا کہ وہ صبح اسے پہن کر عید کی نماز پڑھ سکیں۔ سب مٹھی بھر بھر کے مٹی ڈال چکے اور قبر گلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی تو انہوں نے مرحومہ کے ہاتھ کے لگائے ہوئے موتیاکی چند کلیاں جن کے کھلنے میں ابھی ایک پہر باقی تھا، کُرتے کی جیب سے نکال کر انگارہ پھولوں پر بکھیر دیں۔ پھر خالی خالی نظروں سے اپنا مٹی میں سنا ہوا ہاتھ دیکھنے لگے۔ اچانک ایک ایسا سانحہ ہو جائے تو کچھ عرصے تک تو یقین ہی نہیں آتا کہ زندگی بھر کا ساتھی یوں آناً فاناً بچھڑ سکتا ہے۔ نہیں۔ اگر وہ سب کچھ خواب تھا تو پھر یہ بھی خواب ہی ہو گا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی یہیں کسی دروازے سے مسکراتی ہوئی آ نکلے گی۔ رات کے سناٹے میں کبھی کبھی تو قدموں کی مانوس آہٹ اور چوڑیوں کی کھنک تک صاف سنائی دیتی۔ اور وہ چونک پڑتے کہ کہیں آنکھ تو نہیں جھپک گئی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھیں نم نہیں دیکھیں۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے ان کے صبر و استقامت کی داد دی۔ پھر اچانک ایک واشگاف لمحہ آیا کہ یکلخت یقین آ گیا۔ پھر سارے پندار پشتے اور سارے آنسو بند اور تمام صبر فصیلیں ایک ساتھ ڈھے گئیں۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
لیکن ہر رنج رفتنی ہے اور ہر عیش گزشتنی۔ جیسے اور دن گزر جاتے ہیں یہ دن بھی گزر گئے۔ قدرت نے بقول لاروش فو کو کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ رفتہ رفتہ صدمے کی جگہ رنج اور رنج کی جگہ اداس تنہائی نے لے لی۔ میں جب میامی سے کراچی پہنچا تو وہ اسی دور سے گزر رہے تھے۔ بے حد اداس۔ بے حد تنہا۔ بظاہر وہ اتنے تنہا نہیں تھے جتنا محسوس کرتے تھے۔ مگر آدمی اتنا ہی تنہا ہو تا ہے۔ جتنا محسوس کرتا ہے۔ تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے، آئینے کو مقابل پاتا ہے۔ اسی لیے وہ تنہائی یعنی اپنی ہی صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔ تنہا آدمی کی سوچ اس کی انگلی پکڑ کے کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ، ایک ایک پگڈنڈی، گلی کوچے اور چوراہے پر لے جاتی ہے۔ جہاں جہاں راستے بدلے تھے اب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ درحقیقت راستے نہیں بدلے انسان خود بدل جاتا ہے۔ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ راہ کبھی گم نہیں ہوتی۔ راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں۔
پیری میں، پرانی ضرب المثل کے مطابق، صد عیب ہوں یا نہ ہوں، ایک عیب ضرور ہے جو سو عیبوں پر بھاری ہے۔ اور وہ ہے ناسٹلجیا۔ بڑھاپے میں آدمی آگے یعنی اپنی منزلِ نامقصود و ناگزیر کی جانب بڑھنے کے بجائے الٹے پیروں اس طرف جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پیری میں ماضی اپنی تمام مہلک رعنائیوں کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ بوڑھا اور تنہا آدمی ایک ایسے کھنڈر میں رہتا ہے جہاں بھری دوپہر میں چراغاں ہوتا ہے اور جب روشنیاں بجھا کے سونے کا وقت آتا ہے تو یادوں کے فانوس جگمگ جگمگ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کی روشنی تیز ہوتی ہے، کھنڈر کی دراڑیں، جالے اور ڈھنڈار پن اتنے ہی زیادہ اجاگر ہوتے جاتے ہیں۔
سو ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔