آؤ جناح صاحب عمرے تے چلیے

صرف علی

محفلین
مثلاً یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ کوئی بھی انتخاب اعلان شدہ تاریخ سے چھ دن آگے یا پیچھے منعقد ہوجائے۔ آخر سنہ ستر اور دو ہزار آٹھ کے انتخابات کی تاریخ کو بھی اعلان ہونے کے بعد بدلنا پڑا تھا کیونکہ ستر میں مشرقی پاکستان میں شدید سیلابی صورتحال کے سبب اکتوبر میں انتخابی عمل ناممکن تھا لہٰذا اسے سات دسمبر تک بڑھا دیا گیا۔ جبکہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سبب اعلان شدہ انتخابی تاریخ کو ایک ماہ آگے کرنا پڑا۔ کسی سیاسی جماعت نے دونوں مرتبہ کوئی مخالفت نہیں کی کیونکہ جواز ٹھوس اور انسانی بس سے باہر تھا۔

مگر موجودہ صدارتی انتخاب کی اعلان شدہ تاریخ پیچھے کیے جانے کی وجوہات کچھ ایسی بیان کی گئی ہیں کہ شاید جمہوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہ ملے۔ ان وجوہات کا تعلق قانون و آئین کی بجائے روحانیات سے جوڑا گیا اور رمضان کے آخری دس دن کی عباداتی مصروفیات کو بطور دلیل پیش کیا گیا اور سپریم کورٹ نے ان وجوہات کو تسلیم بھی کر لیا۔ چنانچہ آئندہ کے لیے یہ راہ کھل گئی کہ اب الیکشن کمیشن کو کسی بھی انتخابی عمل کا کیلنڈر بناتے ہوئے مذہبی کیلنڈر بھی دیکھنا پڑے گا۔
مثلاً کسی بلدیاتی ، پارلیمانی ، ضمنی یا صدارتی انتخاب کی تاریخ محرم کے شروع کے دس دنوں میں کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ اہلِ تشیع امیدوار اور ووٹر اعتراض کرسکتے ہیں کہ جناب ہم مجالس و ماتم و ذکر و جلوسِ عزاداری کریں یا انتخابی مہم چلائیں؟ اور پھر چہلم ، یومِ علی یا عیدِ غدیر کے موقع پر پولنگ کے کیا معنی؟
کوئی انتخابی تاریخ ایسی نہیں دی جاسکتی جس میں نو تا بارہ ربیع الاول کے چار دن پڑیں۔ کیا سوادِ اعظم رسول اللہ کی ولادتِ مبارکہ و وصال کو یاد کریں گے یا جلوس سے نکل کر ووٹنگ کی لائنوں میں کھڑے ہوں گے؟

الیکشن کمیشن کے نزدیک چونکہ تمام شہری بلا مذہب و ملت برابر ہیں لہٰذا اسے مسیحی برادری کے مذہبی جذبات کے پیشِ نظر کرسمس اور ایسٹر کی تاریخوں کا بالخصوص خیال رکھنا ہوگا۔ اور پھر ہندو امیدوار بھلا دیوالی، ہولی اور دسہرے کا تہوار چھوڑ کر انتخابی مہم کیوں چلانے لگے؟ تو کیا سکھ ووٹر برداشت کر لیں گے کہ گرو نانک کے جنم دن پر گرنتھ صاحب کا سات دیوسیا پاٹ چھوڑ چھاڑ کر بیلٹ بکس کو پرنام کریں؟ اور پارسی امیدواروں کا کیا ہوگا اگر زرتشت کا یومِ پیدائش عین انتخابی مہم کے دوران آگیا؟ اور بہائی بھی تو اسی پاکستان میں رہتے ہیں۔ احمدیوں کا تو خیر کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ انہیں کونسا کسی انتخاب میں کھڑے ہونا یا ووٹ ڈالنا ہے ۔۔۔

لیکن پیپلز پارٹی نے بالخصوص اس قضیے کو اپنے لیے جس طرح سیاسی زندگی و موت کا مسئلہ بنایا ہے وہ حیران کن ہے۔ اگر پارٹی کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض تھا تو وہ باہر سے چلی پکار کرنے کے بجائے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کر کے بھی تو فریق بن سکتی تھی؟ کیا پیپلز پارٹی کو یاد نہیں رہا کہ بے نظیر بھٹو اپنے جن فیصلوں کے غلط ہونے کا اعتراف کرتی رہیں ان میں سے ایک سنہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا بھی فیصلہ تھا۔ اور جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف، بلوچ قوم پرست جماعتوں اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی سمیت جن تنظیموں نے دو ہزار آٹھ کے انتحابات کا بائیکاٹ کیا وہ آج تک افسوس کرتی ہیں۔

اوہ ہاں یاد آیا ۔۔۔پاکستان ستائیس رمضان کو لیلہ القدر کی شب وجود میں آیا تھا۔ کاش میاں نواز شریف جناح صاحب کے ساتھ ہوتے اور کہتے

’چھڈو جناح صاحب ۔عید دے بعد بنا لینا۔ آؤ عمرے تے چلئے۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130728_baat_say_baat_sa.shtml
 
Top