”#مرزا_سلامت_علی_دبیرؔ صاحب“ کا یومِ ولادت 06؍مارچ 1875

سیما علی

لائبریرین
06؍مارچ 1875

مرثیہ گوئی نے عرشِ کمال پر پہنچایا، اردو شاعری کے صفِ اوّل مرثیہ گو اور ممتاز و مشہور شاعر ”#مرزا_سلامت_علی_دبیرؔ صاحب“ کا یومِ وفات...
#دبیرؔ_مرزا_سلامت_علی 29؍اگست 1803ء دہلی۔ تلمذ: سید مظفر حسین ضمیرؔ۔ خاندانی شاعر نہ تھے۔ لڑکپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش کمال پر پہنچا دیا۔ میر مظفر حسین ضمیر کے شاگرد ہوئے اور کچھ استاد سے پایا ۔ اسے بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر میں کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ، ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجے تک پہنچا دیا ‘ جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا ۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھا اور نیک نیتی سے اس کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی جو کہ اس فن کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔ ان کی سلامت روی ، پرہیز گاری ،مسافر نوازی اور سخاوت نے صفت کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی
مرزا دبیرؔ کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جوانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لکھا۔ اس کانمودار تمہید سے چہر ہ باندھا۔ رزمیہ وبزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا۔ تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے اس کی ہیبت ناک مورت بدمہورت‘ آمد کی آن بان‘ اس کے اسلحہ جنگ‘ ان کے خلاف قیاس مقادیر و وزن سے طوفان باندھے ‘پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے‘ شہر میں شہرہ ہو گیا۔ ایک مجلس قرار پائی۔ اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طور پر بھی اطلاع دی گئی۔ روز معہود پر ہجوم خاص و عام ہوا۔ طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں۔ خواجہ آتش باوجود پیری و آزادی کے تشریف لائے مرثیہ شروع ہوا۔ سب لوگ بمو جب عادت کے تعریفوں کے غل مچاتے رہے‘ گریہ و بکا بھی خوب ہوا ۔ خواجہ صاحب خاموش سر جھکائے دو زانو بیٹھے جھومتے رہے۔ مرزا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اترے ۔ جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کہا کہ حضرت ! جو کچھ میں نے عرض کیا ‘ آپ نے سنا؟ فرمایا ہوں بھئی ! سنا۔ انہیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا ‘ آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاخظہ فرمایا ؟ انہوں نے فرمایا ‘بھئی ! سنا تو سہی‘ مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ مرثیہ تھا یالندھور بن سعدان کی داستان تھی ‘ (واہ رے استاد کامل ! اتنے سے فقرے میں عمر بھر کے لیے اصلاح دے گیا ) مولانا محمد حسین آذاد کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ کے مطابق مرزا دبیر کا انتقال۔ 29 محرم 1292 ہجری بطابق 06؍مارچ 1875ء لکھنّو میں ہوا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی۔ اس مدت میں کم سے کم 3 ہزار مرثیے لکھے ہیں۔ سلاموں اور نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں۔ ایک مرثیہ بے نقط لکھا ‘ جس کا مطلع ہے۔
ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا

اس میں اپنا تخلص بجائے دبیرؔ کے عطار لکھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ ان کے ساتھ ہندوستان میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا ۔ نہ اب ویسا زمانہ آئے گا ،نہ ویسے صاحبِ کمال پیدا ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📜 منتخب کلام 📜
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرثیہ کا ایک بند :

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیرِ کفن کانپ رہا ہے

ہر قصرِ سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📘 رباعیات 📘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا خوب دلیل ہے یہ خوبی کی دبیرؔ
سمجھے جو برا آپ کو اچھا وہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروانے کو دھن شمع کو لو تیری ہے
عالم میں ہر ایک کو تگ و دو تیری ہے
مصباح و نجوم آفتاب و مہتاب
جس نور کو دیکھتا ہوں ضو تیری ہے

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

مرزا سلامت علی دبیرؔ
 
Top