فانی یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا ۔ فانی بدایونی

فرخ منظور

لائبریرین
یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
ایسا بھی ترے حسنِ کا عالم نہ ہوا تھا

پھر چھیڑ دیا وسعتِ محشر کی فضا نے
سودا ترےوحشی کا ابھی کم نہ ہُوا تھا

یا عشرتِ دو روزہ تھا یا حسرتِ دیروز
وہ لمحۂ ہستی جو ابھی غم نہ ہوا تھا

صد حیف وہ گُل ہو کفِ گُل چیں میں جو اب تک
آزردۂ آویزشِ شبنم نہ ہوا تھا

قاتل ہی مرا کیوں اُسے کہتا ہے زمانہ
مانا وہ شریکِ صفِ ماتم نہ ہُوا تها

راز آج مرے دم سے ہُوا رازِ محبت
کچھ راز نہ تھا جب کوئی محرم نہ ہُوا تھا

پاتے ہی خجل، رحم کا دریا امڈ آیا
پردہ مری آنکھوں کا ابھی کم نہ ہوا تھا

رسوا نہ کر اے اس سوز کو اے شمعِ لبِ گور
جو واقفِ دل سوزیِ ہم دم نہ ہوا تھا

گھر خیر سے تقدیر نے ویرانہ بنایا
سامانِ جنوں مجھ سے فراہم نہ ہوا تھا

اک کفر سراپا نے کیا حشر کا قائل
میں معتقدِ حشرِ مجسم نہ ہوا تھا

ہر دل میں نئی شانِ تجلی ہے کہ فانی
نشتر ہے وہ انداز ، جو مرہم نہ ہُوا تھا

(فانی بدایونی)
 
Top