ہندوستان میں اُردو

حیدرآبادی

محفلین
عموماً کہا جاتا ہے کہ : ہندوستان میں اُردو مر رہی ہے۔
جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
یہ دراصل دورِ حاضر کے ہندوستانی مسلمانوں کی اپنی سوچ ہے جن کی سیاسی ، سماجی اور علمی شناخت مردہ سی ہو گئی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی مثال اُس نوجوان کی سی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ملازمت کے لیے سرگرداں اور پریشان ہے۔ قصور زبان اور تہذیب کا نہیں ، معاشرتی ناہمواریوں کا ہے اور معاشرہ اپنے افراد سے بنتا بگڑتا ہے۔ جس دن ہندوستانی مسلمانوں کی قومی شناخت مکمل ہو گئی اُس دن زبان و ادب کو بھی استحکام حاصل ہوگا اور جس دن ہندوستان سے فرقہ پرستی کا بخار اُترے گا ، بہت سے ذہنی آسیب بھی اُتر جائیں گے۔

زبان کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔
یہ تو کسی دل جلے نے کہا ہے کہ : زبان کو تباہ کر دو ، قوم تباہ ہو جائے گی۔
سنسکرت تباہ ہو گئی ، کیا ہندو مذہب تباہ ہو گیا؟ کیا ہندو قوم ختم ہو گئی؟
ہندوستان میں اردو زبان کے خلاف بزدلانہ سازشیں ضرور ہو رہی ہیں اور وہ بھی کھلے عام نہیں بلکہ پسِ پردہ۔
لیکن ۔۔۔ تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔
ٹی وی کے ہندوستانی قومی چینل کی ہندی خبروں میں اردو کے الفاظ ، ٹی۔وی کے بہت سارے سیریلز (‫serials) کے اردو نام (titles) ، اردو مکالمے ، اردو اشعار ، اردو نغمے اور بعض کہانیوں میں بہترین اردو ادبی زبان مثلاً : بہو رانیاں ، آشیانہ ، وراثت ، تنہائیاں وغیرہ۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ ممبئی کی سو فیصد ہندی فلموں میں اردو کا بھرپور غلبہ (‫full swing domination)۔ ہندی فلموں کے اردو ٹائیٹلز ، اردو محاورے ، اردو نغمے اور بہت کچھ۔
ٹی۔وی کے تمام اشتہارات (‫Ads) میں اردو جملے ، مثلاً :
گندگی ہے یہاں اور صفائی ہے یہاں
دھلائی در دھلائی
علاوہ ازیں بہت سے غیر اردو دانوں کی سیاسی تقاریر میں اردو الفاظ اور محاورے۔
کیا کسی میں اتنی ہمت ہے کہ ان تمام شعبوں سے ، ان تمام طبقوں سے اردو کو نکال باہر کرے؟

اردو ادب کا ہندوستانی قاری اگر گم ہو رہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو کے قلمکاروں ، تخلیق کاروں نے تفریحی ادب کو نظرانداز کر دیا ہے۔ جدیدیت ، مابعد جدیدیت ، ساختیات جیسے علمیت کے دورِ جدید نے گذشتہ قدریں فراموش کر دی ہیں۔
گلشن نندہ ، دت بھارتی ، عادل رشید ، ابن سعید ، شکیل جمالی ، اکرم الہ آبادی ، سلامت علی مہدی ، اظہار اثر ، واجدہ تبسم ، سراج انور کے نام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
ابن صفی نے تو اپنے جاسوسی ادب کے ذریعے نہ صرف تین نسلوں کو متاثر کیا بلکہ اردو داں بھی بنایا۔ فریدی ، عمران ، حمید ، قاسم ، جولیا ، صفدر ، فیاض ، سلیمان ، سنگ ہی ، تھریسیا جیسے کردار آج بھی پڑھنے والوں کو بخوبی یاد ہیں۔
مظہر الحق علوی نے الیکژنڈر ڈوما اور رائڈر ہیگڈر کے معروف انگریزی ناولوں کے خوبصورت تراجم ہی پیش نہیں کیے بلکہ اردو ادب کے نئے ہندوستانی قاری بھی فراہم کیے تھے۔
صادق حسین سردھنوی ، نسیم انہونی ، رئیس احمد جعفری ، اے۔آر۔خاتون ، زبیدہ خاتون کے ناولوں کے پڑھنے والوں کی تعداد ، منٹو ، بیدی اور کرشن چندر سے کسی طرح کم نہیں رہی۔
ایم۔اسلم نے سینکڑوں افسانے ، ناول لکھے اور "مرزا جی لوکی والے" جیسا معرکۃالآرا کردار اردو زبان و ادب کو دیا۔
ادارہ شمع دہلی نے کئی تفریحی رسائل کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ فلمی و ادبی رسالہ "شمع" ، جاسوسی ماہنامہ "مجرم" ، بچوں کا ماہنامہ "کھلونا" ، ادبی تفریحی رسالہ "شبستاں"۔

آج تفریحی ادب کا یہ رشتہ کہاں کھو گیا ہے؟ کس نے اس کی جڑیں کاٹ دی ہیں؟

ماہنامہ "شاعر۔ ممبئی" (مئی۔2002ء) کے کالم "مکتوبات" سے بھی استفادہ
 
Top