ہماری تاریخ کی ایک حیرت انگیز حقیقت ...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

119968_s.jpg

آج میں آپ کو ایک نہایت دلچسپ بات بتانے والا ہوں جسے کچھ لوگ قدرت کی رمزیں، کچھ لوگ حسن اتفاق اور کچھ حضرات محض تاریخی حادثات قرار دیں گے، لیکن ہماری تاریخ کا یہ پہلو فکر انگیز، منفرد اور قابل غور ہے، اس لئے میرے ساتھ رہیے گا اور میں جو کچھ کہنے والا ہوں اس پر غور کیجئے گا۔
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی درمیانی شب رات بارہ بجے معرض وجود میں آیا تھا اور بارہ بجتے ہی آل انڈیا ریڈیو لاہور، پشاور نے ”یہ ریڈیو پاکستان ہے“ کا اعلان کر کے پاکستان کے طول و عرض میں جشن آزادی کا ایسا سماں پیدا کر دیا تھا جس کا ایک ایک لمحہ جوش و جذبے اور بے انتہا مسرتوں سے لبریز تھا، چنانچہ ہمارا پہلا یوم پاکستان پندرہ اگست 1947ء کو منایا گیا جو جمعة الوداع تھا اور جس رات پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں یعنی شب القدر تھی۔ یہ رمزیں صرف ان لوگوں کے لئے معنی خیز ہیں جو انہیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ عام لوگوں کے لئے پاکستان کے موجودہ تناظر میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے شعلوں میں گرفتار ہو کر ایسی بات کرنا محض اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے، جو لوگ قدرت کے ان اشاروں کو اہمیت دیتے ہیں، انہیں بہرحال یقین ہے کہ پاکستان قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ موجودہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحران، لاقانونیت اور دہشت گردی تو یہ ہمارے اپنے عمال اور کوتاہ نظر حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں… اپنی غلطیوں کی سزا تو بہرحال خود ہی برداشت کرنی پڑتی ہے وہاں قدرت دخل نہیں دیتی۔ بہرحال میں ایک ”دنیا دار“ انسان ہوں اس لئے میں قدرت کے بعید کیا سمجھوں اور کیا جانوں؟
بات دور نکل گئی ہے میں یہ عرض کر رہا تھا کہ چونکہ پاکستان 14 اور 15 اگست کی نصف شب قائم ہوا تھا چنانچہ ہمارے پاس یہ چوائس تھی کہ ہم 14 یا 15 اگست میں سے کسی ایک دن کو یوم آزادی قرار دے دیں۔ ہندو جوتشیوں نے ہندوستان کے لئے پندرہ اگست کا دن مبارک یا ”شبد“ جانا چنانچہ حکومت ہند نے اسی دن کو اپنا یوم آزادی قرار دے دیا جبکہ پاکستان نے 14 اگست کو اپنا یوم آزادی ڈکلیئر کر دیا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی دو ہی محبتیں تھیں، پہلی محبت رتی ڈنشا تھی اور دوسری محبت جو منزل بن گئی وہ پاکستان تھی۔ قائداعظم نے رتی ڈنشا سے نکاح کرنے سے قبل اسے مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا مولانا نذیر صدیقی امام جامع مسجد ممبئی کے ہاتھ پر شرف بہ اسلام کیا اورپھر اس سے شادی کی۔ اس شادی کے بطن سے ان کی اکلوتی اولاد دینا پیدا ہوئی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دینا جناح بھی 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب 1919ء کو پیدا ہوئی اور پاکستان بھی 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب پیدا ہوا۔ دینا نے بھی 15 اگست 1919ء کے دن پہلی بار سورج کی کرنیں دیکھیں اور یہ جمعہ کا دن تھا جبکہ پاکستان نے بھی پندرہ اگست 1947ء کو پہلی بار آزادی کا اجالا دیکھا اور یہ جمعہ کا دن تھا۔
ایک اور حیرت انگیز اور قابل غور پہلو پر غور کیجئے کہ بعض اوقات تاریخی حقائق کے پس پردہ قدرت اپنا ہاتھ دکھاتی اور ہمیں کچھ سمجھاتی ہے لیکن ہم آسانی سے سمجھنے والے نہیں۔ بہرحال آپ ذرا غور کریں اور تھوڑی کی تحقیق کریں تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، مثلاً یہ کہ قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا۔ 1948ء سے لے کر آج تک پاکستان کا یوم آزادی، قائداعظم کا یوم ولادت 25 دسمبر اور قائداعظم کا یوم وفات 11ستمبر اور قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان کی شہادت کا دن ایک ہی دن ہوتا ہے۔ آپ کی سہولت کے لئے اور بات سمجھانے کے لئے گزشتہ چند برسوں کا چارٹ پیش خدمت ہے جس سے یہ نقطہ واضح ہو جائے گا۔ ا ٓپ چاہیں تو جنتری سامنے رکھ کر 1948ء سے لے کر 2013ء تک کا نقشہ تیار کر لیں تو آپ پر راز کھلے گا کہ قائداعظم اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے اور ہر سال قائداعظم کا یوم پیدائش، یوم وفات اور یوم پاکستان اور نوابزادہ لیاقت علی خان کا یوم شہادت 16 اکتوبر مختلف مہینے ہونے کے باوجود ایک ہی دن ہوتا ہے۔ اگر قدرت قائداعظم کا یوم وفات بارہ ستمبر 1948ء طے کر دیتی تو یہ نقشہ نہ بن سکتا اور وہ یوم مختلف ہو جاتا، میں نے صرف اپنی بات کی وضاحت کے لئے چند برسوں کا نقشہ بنایا ہے جو درج ذیل ہے:


2004ء
دن
14 اگست
یوم آزادی

ہفتہ
قائداعظم کا یوم وفات
11 ستمبر

ہفتہ
قائد کا یوم پیدائش
25 دسمبر

ہفتہ
لیاقت علی خان یوم شہادت
16 اکتوبر

ہفتہ
2005ء
اتوار
اتوار
اتوار
اتوار
2006ء
سوموار
سوموار
سوموار
سوموار
2007ء
منگل
منگل
منگل
منگل
2008ء
جمعرات
جمعرات
جمعرات
جمعرات
2009ء
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
2010ء
ہفتہ
ہفتہ
ہفتہ
ہفتہ
2011ء
اتوار
اتوار
اتوار
اتوار
2012ء
منگل
منگل
منگل
منگل
2013ء
بدھ
بدھ
بدھ
بدھ
مجھے پاکستانیات کا یہ پہلو نہایت دلچسپ اور حیرت انگیز لگا، اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کردیا میرے مطالعہ کے مطابق عالمی تاریخ میں ایسی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔ یہ حسن اتفاق بھی ہو سکتا ہے، تاریخ کا حادثہ بھی اور قدرت کی رمز بھی، لیکن یاد رکھیں کہ جسے ہم حسن اتفاق کہتے ہیں مگر اس اتفاق کے حسن کو سنوارنے میں قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ اتفاقات غور کرنے والوں کے لئے سامان فکر ہوتا ہے جبکہ سطحی نظر کے لئے سامان شوق… آپ اسے محض اتفاق سمجھیں یا قدرت کی رمز… آپ کی مرضی ۔
اپیل: غوثیہ شریعہ سکول رجسٹرڈ مظفر گڑھ میں یتیم اور مستحق بچیوں کو مفت تعلیم، مفت رہائش، کھانا، کتابیں علاج، یونیفارم فراہم کیا جاتا ہے اور بچیوں کو دنیاوی اور دینوی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ مخیر حضرات سے درخواست ہے کہ ان کی مالی مدد کر کے کارخیر میں حصہ لیں اور آخرت سنواریں۔
رابطہ طارق چشتی: 0300-3312052 اکاؤنٹ نمبر 0117-0081-002082-01-7 بینک الحبیب مظفر گڑھ
بشکریہ:روزنامہ جنگ
 
Top