کاشفی

محفلین
غزل
(کمار پاشی)
گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں

خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں

کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو

جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں

کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل

ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں

ختم ہوا ہر خواب تماشا راکھ ہوا ہر شہر صدا

دشت ہے ہر سو تنہائی کا ہوئے ہیں ہم بے دار کہاں

دور دور تک کوئی نہیں اب تجھے بچا لے جو آ کر

داد تو دے دشمن کو پاشیؔ! کیا ہے اس نے وار کہاں
 
Top