گدھا اور شدید میک اپ

عباس اعوان

محفلین
تحریر: حماد احمد
ہر سال جون کے مہینے میں قومی بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ بجٹ پیش ہونے سے ایک روز قبل ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ سال یعنی دو ہزار پندرہ۔ سولہ کا اقتصادی جائزہ سامنے آنے پر معلوم ہوا تھا کہ پاکستان میں گدھوں کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوسری طرف اگر پاکستان میں فوری طور پر ”مردم شماری“ کروائی جائے تو غالب امکان یہی ہے کہ کراچی اور لاہور کے بعد فیصل آباد، راول پنڈی اور ملتان ایسے شہر ہوں گے جن کی ”انسانی آبادی“ پچاس لاکھ سے زائد یا اس کے قریب پہنچ چکی ہوگی۔ نتیجتا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان بھر کے تمام گدھے ایک ہی جگہ اکٹھے کر دئیے جائیں تو ان کے ”قیام و طعام“ کے لئے کم سے کم فیصل آباد، راول پنڈی یا ملتان جتنے سائز کا ایک بہت بڑا شہر آباد کرنا پڑے گا۔
کہتے ہیں کہ ایک گدھے کی کھال ایکسپورٹ کرنے پر ”ملکی خزانے“ میں پچیس ہزار روپے با آسانی حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہی حساب اگر ملک میں موجود تمام پچاس لاکھ گدھوں کی کھالوں کا لگا لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف گدھوں کی کھالیں ایکسپورٹ کرنے سے ہی با آسانی سوا کھرب روپے کما سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گدھوں کو جیسے ہی اپنی اس قدر و قیمت کا احساس ہوا تو انہوں نے انتہائی پر زور احتجاج شروع کر دیا کہ جب ہماری کھالیں ایکسپورٹ کرنے سے ہی اتنی آمدن ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے گوشت اور کھال کا فائدہ ”براہ راست“ ملک کے شہریوں تک کیوں کر منتقل نہیں کیا جا سکتا؟۔
گدھوں کا احتجاج رنگ لایا اور ملک بھر میں سر عام اس کے دو اہم ترین استعمال ہونے لگے۔ پہلا استعمال تو یہ تھا کہ گدھوں کا گوشت سر عام ”قصاب شاپس“ میں فروخت ہونے لگا ۔ ایک جائزے کے مطابق اب تک ملک بھر سے تقریبا دو لاکھ گدھوں کی کھالیں بیرون ممالک ایکسپورٹ کی جا چکی ہیں۔ یہ تمام ”کھالیں“ جن گدھوں نے ”زیب تن“ کر رکھی تھیں، ان سب کا گوشت پاکستان کے اندر ہی موجود رہا۔ اگر ہر گدھے کا گوشت اوسطا پچاس کلو بھی لگا لیا جائے تو بھی دو لاکھ گدھوں کا گوشت مجموعی طور پر تقریبا ”ایک کروڑ کلو“ تو بن ہی جائے گا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”قصابوں“ کی مہربانی سے کم سے کم چار کروڑ پاکستانی عوام ”ایک ایک پاؤ فی کس“ کے حساب سے ”ڈونکی میٹ“ با آسانی کھا چکی ہے۔
استاد بشیر کہتے ہیں کہ گدھوں کا گوشت بیچنے والے بذات خود بھی گدھے کہلائے جانے کے حق دار ہیں۔ ”ماہرینِ گوشت“ کے مطابق گدھے کا گوشت شناخت کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ اس کام کے لئے محض تھوڑی سی عقل و شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے ایک ایسے اندھے شخص کے متعلق بھی سن رکھا ہے کہ جو بینائی نہ ہونے کے باوجود بھی محض اپنی عقل و شعور کا استعمال کرتا تھا اور کسی بھی گوشت کو ہاتھ لگا کر با آسانی پہچان لیتا تھا کہ کونسا گوشت کس جانور کا ہے؟۔ ایک روز وہ اپنے محلے کے قصاب کی دکان پر گیا اور اپنے سامنے لٹکے ہوئے گوشت کو چھو کر کہا ”یہ بھیڑکا گوشت ہے۔ “پھر اس کے ساتھ لٹکے ہوئے دوسرے گوشت کو چھو کر بولا” یہ بکرے کا گوشت ہے؟“۔ قصاب نابینا کی ”عقلی بینائی“ دیکھ کر حیران تو رہ گیا مگر پھر بھی اسے سو فیصد یقین تھا کہ جلد یا بدیر وہ اس نابینا کو بھی ضرور گدھا بنا کر ہی دم لے گا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قصاب نے اپنی قمیض اتاری اور اندھے کا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھ کر بولا”اب بتاؤ کہ یہ کس کا گوشت ہے؟“۔ جواب ملا: ”دھت تیرے کی ، ٹھہرو میں ابھی عائشہ ممتاز کو بلاتا ہوں۔ تم تو گدھے کا گوشت بھی بیچتے ہو“۔
گدھے کے گوشت کی مشہوری ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس کی کھال کا بھی ملکی سطح پر ”ایک اہم ترین استعمال“ شروع ہوگیا۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں گدھے کی کھالوں کے حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں گدھے کی کھالوں سے کاسمیٹک مصنوعات تیار کی جارہی ہیں۔ قرارداد تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ناہید نعیم نے پیش کی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ گدھے کی کھال سے کاسمیٹک مصنوعات کی تیاری کے واضح ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔ حکومت پنجاب ایسی مصنوعات پر پابندی لگا کر اسے بنانے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کرے اور ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
آپ نے موجودہ کالم کا عنوان دیکھ کر یہ ضرور سوچا ہوگا کہ گدھا تو وہ مشہور ترین جانور ہے کہ جس کا چرچا آج کل وطن عزیز کے باسی ”بامرمجبوری“ سب سے زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میک اپ کا بھی ”بچی بچی“ کو علم ہے۔ مگر یہ ”شدید میک اپ“ آخر کیا بلا ہے؟۔
اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ چند سال قبل تک خواتین کا میک اپ انتہائی ”ہلکا پھلکا“، سادہ، باوقار اور نفیس سا ہوتا تھا، جو کہ اب باقاعدہ ”شدید میک اپ“ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کی سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ گدھے کی کھال سے تیار ہونے والا کاسمیٹکس کا سامان ہے۔ ممکن ہے کہ اب بھی ”شدید میک اپ“ کی اصطلاح مکمل طور پر آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو، لہذا وضاحت کی خاطر میں اس کی چند نشانیاں بھی بتائے دیتا ہوں۔
۔”شدید میک اپ“ کرنے والی خواتین اپنی آنکھوں کو نہ تو آزادانہ کھولنے، بند کرنے کا کام کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر مل سکتی ہیں۔ در اصل آنکھوں پر کیا گیا ”شدید میک اپ“ پلکوں کے لئے الگ، ڈیلوں کے لئے الگ اور آنکھ کی سفیدی کے لئے الگ ہوتا ہے۔ یوں آنکھ یا ہاتھ کی معمولی سی نقل و حرکت بھی اس ”شدید میک اپ“ کو با آسانی تہہ و بالا، خراب اور ”مکس“ کرنے کے لئے کافی ثابت ہو سکتی ہے۔ ”شدید میک اپ“ زدہ خواتین کے ”آئی لیشز“ بھی کچھ اس طرح لگ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کسی مکڑی نے جالا بن دیا ہو۔۔
۔”شدید میک اپ“ کرنے کی عادی خواتین ، میک اپ کرنے کے بعد بذات خود اپنے آپ کو بھی نہیں پہچان پاتیں۔ کافی عرصہ ”شدید میک اپ“ والی کیفیت میں گزارنے کے بعد جب وہ اپنی اس ”نئی شکل“ کی عادی ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد ان کے لئے اپنی اصلی شکل پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی خواتین کے پاس ”شدید میک اپ“ کے لئے اس قدر سامان موجود ہوتا ہے کہ نہ صرف ڈریسنگ روم، الماریاں، شوکیس، بلکہ گھر کا ایک مکمل بیڈ روم بھی انہیں سمیٹنے کے لئے انتہائی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔
۔”شدید میک اپ“ والی خواتین رونے سے بہت ڈرتی ہیں۔ یہ خواتین جذباتی کر دینے والی باتوں اور کاموں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل شادی والے دن دلہنوں کا رونا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ دلہن کی والدہ اور دیگر احباب، اسے اسلئے نہیں رونے دیتے کہ اس کے آنسو کے ایک ”ادنی“ سے قطرے سے بھی ہزاروں روپے کا ”شدید میک اپ“ چند سیکنڈز میں ہی تباہ و برباد ہو سکتا ہے۔۔ کئی مرتبہ تو آنکھوں کے اس ”شدید میک اپ“ کو دیکھ کر تو یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے کسی سہیلی نے محترمہ کی آنکھ کے ”گرد و نواح“ میں مُکے دے مارے ہوں۔
اگر ”شدید میک اپ“ کرنے والی خواتین انتہائی ہلکے رنگوں (جیسے کہ وائٹ یا آف وائٹ رنگ) کا سوٹ پہن لیں تو کچھ ہی دیر میں یہ کپڑے بھی رنگین ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کپڑوں دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے کپڑے کسی بچے کی ڈرائینگ کی کاپی ہوں۔ کئی بار تو کپڑوں پر مختلف رنگ اتنی نفاست سے بکھر جاتے ہیں کہ قوس قزح بن جانے کا احتمال بھی ہوتا ہے۔ یہ خواتین اگر بد قسمتی سے رات کو اپنا منہ دھونا بھول جائیں تو ”شدید میک اپ“ کی وجہ سے ان کے سر کے نیچے پڑا ہوا تکیہ بھی ”متاثرینِ شدید میک اپ“ میں شامل ہو جاتا ہے۔۔
۔”شدید میک اپ“ کے ذریعے کئی خواتین اپنے چہرے کا مکمل حلیہ ہی بدل ڈالتی ہیں۔ ایسی خواتین کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں کچھ یوں رد و بدل ہو جاتا ہے کہ جیسے اینٹوں، سیمنٹ، ریت کی مدد سے کسی دیوار کی باقاعدہ شکل و صورت تبدیل کر دی گئی ہو۔ اگر ان خواتین کا چہرہ سخت گرمی کی بدولت پسینے میں نہا جائے تو چہرے کا منظر دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ان کا چہرہ بذات خود ہی پگھلنا شروع ہوگیا ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھ کر ”تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے“ کا نعرہ بلند کرنے کا دل کرتا ہے۔
۔”شدید میک اپ“ کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ کم سے کم ایک گھنٹہ صرف کرنے کے بعد ہی منظر عام پر آتا ہے۔ گویا کسی شوقین شخص کے لئے ”شدید میک اپ“ کا دیدار کرنا عید کا چاند دیکھنے سے کم مشکل نہیں ہوتا۔ اور تو اور یہ میک اپ اترنے میں بھی کم سے کم آدھا گھنٹہ لازمی لے جاتا ہے۔ ”شدید میک اپ“ اپ کرنے والی خواتین کا چہرہ اور گردن دو الگ الگ رنگوں کے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے میک اپ کی حامل خواتین کا موبائل فون اگر آپ کے ہاتھ لگ جائے تو اسے تھام کر آپ کو یوں لگے گا کہ جیسے اس موبائل کو کسی ”گریس کی شیشی“ کے اندر سے ڈبو کر ابھی ابھی باہر نکالا گیا ہو۔
کئی خواتین تو اس قدر ”شدید میک اپ“ کرتی ہیں کہ چہرے پر لگا ہوا سارا مواد رِستا ہوا ، ہونٹوں کے رستے جسم کے اندر بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ ظاہر کی طرح باطن بھی اس میک اپ سے دلکش ہو پاتا ہے یا نہیں۔
کسی شاعر نے ”شدید میک اپ“ زدہ خواتین کے متعلق کیا خوب کہا تھا کہ:۔
میک اپ سے ان کے کھا ہی گیا دل میرا فریب
اب آپ ہی بتائیں، کہوں کیا نظر کو میں
دیکھا قریب سے تو وہ پچپن برس کی تھی
"حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں"
آخر میں یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ جیسے کسی ”جن“ کا بوتل کے اندر قید رہنا ہی انسانوں کے لئے ”باعث نجات“ ثابت ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر گدھے کو بھی ”صحیح سلامت گدھا“ ہی رہنے دیا جائے تو تمام انسانوں کے لئے بہتر ہوگا۔ جب سے گدھوں کو ”حلال“ کرنے کی عجیب و غریب ”کوششیں“شروع ہوئی ہیں ، تب سے کبھی ان کا گوشت آفت لا رہا ہے تو کبھی ان کی کھالیں قیامت ڈھا رہی ہیں۔ گدھوں کا اصل مقصد بار برداری کے لئے ان کا استعمال ہے۔ جب سے انسانوں نے گدھوں کو ان کے اصل مقصد سے ہٹانے کی کوشش کی، تب سے ”گدھستان“ اور ”انسانستان“ کے ”عوام“ میں بیک وقت بے چینی پھیلتی چلی جا رہی ہے۔۔ ان ”بے گناہ لوگوں“ کو مار کر ان کی کھالوں اور گوشت کا ”ناجائز استعمال“ انتہائی خوفناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انسانوں، گدھوں اور ”انجمن حقوقِ گدھان“ کو بالعموم اور صاحب اقتدار لوگوں کو بالخصوص اس اہم اور خوفناک معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔
 
اللہ اللہ، عباس بھائی۔
یادش بخیر، لاہور کے کچھ دوست وجدانی بنیادوں پر شدت پسندی کے عروج سے قبل اس لفظ کا ایسا استعمال کیا کرتے تھے۔ مثالیں صحیح صحیح تو یاد نہیں لیکن، اللہ پاک بھول چوک معاف فرمائے، کچھ اس قسم کی دی جا سکتی ہیں:
"کھڑے کھڑے شدید ہو گیا بے غیرت۔"
یعنی اچانک ہی غصے میں آ گیا۔
"آفریدی شدید ہے بئی!"
نہایت عمدہ کھیل پیش کرنے کی جانب اشارہ ہے۔
"نقاب اتارا تو شدید۔"
باپردہ خواتین کا حسن آشکار ہونے پر پاگل دل کا ردِ عمل۔
"راحیل بھائی، آپ تو شدید نکلے!"
ہمیں آپ سے اتنی عقلمندی کی امید نہیں تھی۔
وغیرہ وغیرہ۔
 
Top