کیا پاکستان کو سیکولر اسلامی جمہوریہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ : ڈاکٹر صفدر محمود کی رائے

دوستو! آزادی کے اظہار کا زمانہ ہے جو جی چاہے کہو، جو جی چاہے لکھو، جو جی چاہے کرو کوئی قدغن نہیں۔ وکلاء حضرات اسی آزادی کی آڑ میں ججوں کو دھمکاتے، کچہریوں میں طوفان برپا کرتے حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں ججوں کے سامنے ایک دوسرے کو چیر پھاڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ میڈیا بھی آزاد ہے، ہر طرف مختلف نظریات کے کاروبار کی دکانیں سجی ہیں، ٹی وی چینلوں پر اکثر دنگل کا سا سماں برپا ہوتا ہے اور جہاں لڑائی جھگڑا نظر نہ آئے وہاں فتوے اور عقل کل کے مظاہرے ملتے ہیں۔ کوئی آزادی کی آڑ میں لادینیت بیچتا ہے، کوئی غیر ملکی ایجنڈا پروموٹ کرتا ہے تو کوئی اپنے سیاسی آقائوں کی خدمت میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔ کچھ حضرات کو دین کی بات تنگ نظری لگتی ہے تو کچھ کو سیکولرازم روشن خیالی محسوس ہوتی ہے۔ توازن کمزور ہوچکا ہے اور انتہا غالب نظر آتی ہے ،چنانچہ اسلام کے روشن پہلو دب کر رہ گئے ہیں، مثلاً اسلام میں بے پناہ زور برداشت، تحمل، حسن اخلاق، احترام آدمیت ، ایثار، پڑوسی کے حقوق، بیوی اور عورتوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد پر دیا گیا ہے لیکن ان کا ذکر کم ہوتا ہے، ان پر عمل بھی کم ہوتا ہے اور سارا زور فرقہ واریت پر صرف کیا جارہا ہے جس کی نفی حضور نبی کریمؐ سے لے کر تمام اولیاء کرام تک سبھی نے کی اور اس کے خلاف عملی مثالیں پیش کیں۔ اسلام بیچارا اتنا مظلوم ہے کہ ہر کوئی اسے اپنی مرضی کے معانی پہناتا، مرضی کا مفہوم اخذ کرتا اور پھر اپنے مطلب کے‘‘فتوے‘‘ جاری کرتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں جھانکا جائے تو راز کھلتا ہے کہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، یہ مذہبی ،نظریاتی اور مسلکی مباحث ہمیشہ مختلف اسٹیجوں اور فورموں پر جاری رہے ہیں۔ فرق صرف یہ پڑا ہے گزشتہ دور میں نظریات و افکار پھیلانے کے ذرائع محدود تھے لیکن اب میڈیا یعنی اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینلوں نے ان ذرائع کو لامحدود بنادیا ہے، چنانچہ زور و شور میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ زندگی کے معاملات میں اس قدرمصروف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس گہرے مطالعے کا وقت ہی نہیں رہا اس لئے سطحیت غالب آرہی ہے اور علم کی کمی کو گلے کے زور اور قلم کے شور سے پورا کیا جارہا ہے۔ اس تمہید کو اختصار کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہی تاریخ کا فیصلہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں مباحث، علمی و فکری موشگافیوں، مناظروں، مباہلوں اور نظریاتی کشمکش یا رسہ کشی میں بہت بڑی اکثریت وقت کے بہتے دریا میں بہہ کر گم ہوگئی اور صرف وہ نظریات، افکار ا ور اصول زندہ ہے جو سواد اعظم کے قلب و ذہن کے قریب تھے ۔وقت کے دریا کو بہنے دیجئے یہ طوفان، کنفیوژن ،بے معنی مباحث، نظریاتی کاروبار اور مقالات کی دکانیں سب کچھ اس میں بہہ کر گم ہوجائے گا۔ کچھ وہ نظریات باقی بچیں گے جنہیں عوامی حمایت اور عوامی قبولیت حاصل ہوگی۔
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ایک محبی، دیرینہ دوست اور متفکر پاکستان کا فون آگیا ہے۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا پاکستان کو سیکولر اسلامی جمہوریہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ سچی بات ہے کہ میں نے کبھی اس موضوع پر سوچا اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دی کیونکہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے اس لئے اب صرف خواہشات کے گھوڑے دوڑائے جاسکتے ہیں، طے شدہ نام کو بدلا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی ملک نے کیا ہونا ہے؟ اس کا نظام اور نام کیا ہونا ہے؟ اس کا فیصلہ عوام کی اکثریت اور قانون ساز ادارے کرتے ہیں البتہ ان سے اختلاف اور بحث کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ بانی پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے، ہم ان کی تقریروں کے حوالے بھی دیتے ہیں اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں جس قومی ہم آہنگی، برداشت، تحمل، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی بات کی وہ اسلام کے روشن اصول ہیں۔ ان کا تصور ایک اسلامی ریاست کا تصور تھا نہ کہ مذہبی ریاست کا۔ انہوں نے سینکڑوں بار یہ کہا کہ پاکستان کے آئینی، قانونی، اقتصادی اور معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ انہوں نے30اکتوبر1947ء کو لاہور کے جلسہ عام میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا اور فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام پیغام میں پاکستان کو پریمیئر اسلامی ریاست قرار دیا(بحوالہ قائد اعظم کی تقاریر، خورشید یوسفی جلد چہارم صفحہ2642اور2692) جنوری 1948ء میں عید میلاد النبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ کی جائے گی۔ جنرل اکبر خان کے توجہ دلانے پر قائد اعظم نے ہدایت دی اور پھر’’آرمی یونٹ کے مسکوٹوں میں شراب نوشی پر پابندی لگادی گئی، دن کا آغاز درس قرآن سے ہونے لگا‘‘ (بحوالہ میری آخری منزل ا ز جنرل محمد اکبر خان صفحہ 281) 4 اپریل 1948ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ پاکستان کا دستور قرآن حکیم اور شریعت کی بنیادوں پر بنایا جائے گا اور29ستمبر1948ء کو شراب پر پابندی لگادی گئی۔ (بحوالہ پاکستان کروٹیکل) ۔ایک دانشور کے بقول سیکولر حضرات شراب نوشی اور عورت کی آزادی مانگتے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ عورت کی آزادی نہیں بلکہ عورت سے آزادی مانگتے ہیں ورنہ پاکستان میں خواتین آزاد ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہیں، ظاہر ہے کہ سیکولر آزادیاں اسلامی جمہوریہ میں نہیں مل سکتیں البتہ چوری چھپے مشاغل جاری رہتے ہیں۔ وہ خلافت راشدہ کے دور میں بھی پائے جاتے تھے اور پکڑے جانے پر سزا پاتے تھے۔ سزا کا خوف انہیں سیکولرازم کی پرچار پر مجبور کرتا ہے۔ جہاں تک حقوق نسواں، اقلیتوں کی مذہبی آزادی، آزادی اظہار وغیرہ کا تعلق ہے اسلام انہیں سرپرستی فراہم کرتا ہے۔ کھل کھیلنے یا مادر پدر آزادی کی اجازت نہ پاکستان کے عوام کی بڑی اکثریت دے گی اور نہ ہی قانون اسمبلی یہ جرأت کرسکے گی۔ پاکستان کا پہلا آئین1956ء میں بنا جس کی تشکیل میں قائد اعظم کے ساتھیوں کا حصہ تھا جن کی اکثریت1945-46ءکے انتخابات میں منتخب ہو آئی تھی۔ انہوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا۔ جنرل ایوب انگریز کی سیکولر ازم کے تربیت یافتہ تھے، انہوں نے اپنا آئین مسلط کیا تو پاکستان کو فقط جمہوریہ قرار دیا۔ اس کے خلاف احتجاج ہوا اور غصیلے عوامی تیور دیکھ کر ایوب خان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دینا پڑا، چنانچہ ایوب خان نے یہ تلخ گولی نگل لی۔1973ء کا آئین بنا تو آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دے کر عوامی امنگوں پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ مطلب یہ کہ پاکستان کا آئینی نام اور عنوان کیا ہوگا یہ طے شدہ معاملہ ہے جس میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ رہی علمی بحث یا خواہشات کے گھوڑے دوڑانے کی بات تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ آزادی اظہار کا زمانہ ہے لیکن باقی رہے گا وہی جسے سواد اعظم کی حمایت حاصل ہوگی۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=166878
 
Top