اکبر الہ آبادی کہوں کس سے قصۂ درد و غم کوئی ہمنشین ہے نہ یار ہے ۔ اکبر الٰہ آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے

تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے

یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے

وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش وخرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے

میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر ان کی راہ میں ہوں فدا
مجھے خاک میں وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے

مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے

(اکبر الٰہ آبادی)
 
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے


تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے

یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے

وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش وخرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے

میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر ان کی راہ میں ہوں فدا
مجھے خاک میں وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے

مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے


معذرت کے ساتھ کہوں گا تلاش کے باوجود یہاں نہ ملی تو شریک محفل کر دی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ پہلے شریک ہو چکی ہے برائے مہربانی اسے ضم کر دیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے

تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے

یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے

جسے دورِ چرخ میں ہو خوشی تو ضرور ہے اسے رنج بھی
شبِ ہجر میں ہے جو دردِ سر مئے وصل کا یہ خمار ہے

وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش وخرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے

مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے کہ تو جس کا عاشق زار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
35 سال بعد یہ غزل لکھی گئی

مری چشم کیوں نہ ہو خوں فشاں نہ رہی وہ بزم نہ وہ سماں
نہ وہ طرزِ گردشِ چرخ ہے، نہ وہ رنگِ لیل و نہار ہے

جہاں کل تھا غلغلۂ طرب وہاں ہائے آج ہے یہ غضب
کہیں اِک مکاں ہے گرا ہوا کہیں اک شکستہ مزار ہے

غم و یاس و حسرت و بے کسی کی ہوا کچھ ایسی ہے چل رہی
نہ دلوں میں اب وہ امنگ ہے نہ طبیعتوں میں ابھار ہے

ہوئے مجھ پہ جو ستمِ فلک کہوں کس سے اس کو کہاں تلک
نہ مصیبتوں کی ہے کوئی حد نہ مرے غموں کا شمار ہے

مرا سینہ داغوں سے ہے بھرا، مرے دل کو دیکھیے تو ذرا
یہ شہیدِ عشق کی ہے لحد پڑا جس پہ پھولوں کا ہار ہے

میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر ان کی راہ میں ہوں فدا
مجھے خاک میں وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے

(اکبر الٰہ آبادی)
 
آخری تدوین:

Baz vsh Ghambir

محفلین
بہت خوب!
کیا کسی پاس یہ غزل ہوسکتا ہے.
تکلیف ہجر دے گئی راحت کبھی کبھی
بدلہ ہے یوں ہی رنگ محبت کبھی کبھی
 
Top