میر کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے - میر تقی میر

کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے

رہ گئے گاہ تبسم پہ، گہے بات ہی پر
بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے

یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے

روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

خرقہ، مندیل و رِدا مست لیے جاتے ہیں
شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے

ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میرؔ
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے​
میر تقی میر
 
Top