پروف ریڈ اول کودک کہانی : کیا وہ امانت تھی؟

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "کیا وہ امانت تھی؟" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل دس اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

kwa1.gif
 

مقدس

لائبریرین
ٹرین نے رینگنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پلیٹ فارم سے باہر نکل گئی، جو لوگ مسافروں کو اللہ حافظ کہنے آئے تھے، وہ بھی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے اسٹیشن سے باہر جانے لگے۔ پلیٹ فارم جو تھوڑی دیر
 

مقدس

لائبریرین
پہلے لوگوں سے بھرا ہوا تھا، اب کالی ہوتا جا رہا تھا۔ حیدر نے ایک بار پھر ٹرین پر نظرڈالی، جو لہراتی، بل کھاتی، دھواں اڑاتی اب کافی دور جا چکی تھی اور بس نطروں سے اوجھل ہونے ہی والی تھی۔ اس نے سوچا کپ پتا نہیں، یہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں؟ پھر اس نے گھبرا کر اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور اس کے ہونٹ ہلے: "یااللہ! یا رحمٰن، یا رحیم ! خالہ بی اور اس ٹرین کے تمام مسافروں کو ان کے نئے وطن میں زندہ سلامت پہنچائیو۔ یہ سب بالکل خریت سے لاہور پہنچیں۔ الٰہی! ان کے جان و مال اور عزت کی
 

مقدس

لائبریرین
حفاظت فرمائیو۔ آمین۔"

دعا ختم کر کے حیدر نے رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور بیوی کا کندھا ہلاتے ہوئے بولا: "چلو، اب چلتے ہیں۔"

ریلوے اسٹیشن سے تانگے میں جاتے ہوئے بیوی نے نے سرگوشی میں حیدر سے کہا: "میں نے سنا ہے کہ یوں تو میرٹھ سے لاہور تک کا سفر زیادہ لمبا نہیں ہے، لیکن آج کل جو حالات ہیں، ان میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قاضی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ اسپشل ٹرینیں رکتی رکاتی جاتی ہیں۔ کئی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ ٹھسا ٹھس بھری ہوئی ٹرینوں میں پانی ختم ہو جاتا ہے۔ بجلی کا بھی کوئی بھروسا نہیں۔ جان کے کوف سے کوئی ذرا سی کھڑکی نہیں کھولتا کہ وہ گولی یا کرپان کا نشانہ نہ بن جائے۔ لوگ جو کھانے پینے کی چیزیں لے کر جاتے ہین، وہ بھی راستے میں ختم ہو جاتی ہیں اور راستے میں کھانا اور پانی ملنے کا تو سوال ہی نہیں۔ کسی کی ہمت ہے کہ جان کی بازی لگا کر راستے میں کسی اسٹیشن پر اترے۔ اپنی جان بچا کر پاکستان کی سرحد میں داخل ہونا بھی بڑی بات ہے۔ قاضی صاحب یہ بھی بتا رہے تھے کہ کتنی ہی اسپشل ٹرینیں پوری کی پوری کاٹ کر رکھ دیں ظالموں نے۔ بس کٹی ہوئی گردنیں اور کتے ہوئے ہاتھ پیر ہی پہنچے منزل پر۔" میرے اللہ! خیر۔ الہٰی! خالہ بی اور سارے مسافروں کو اپنی امان میں رکھیو۔ ساری مصیبتوں کو جانتے بوجھتے کیسے جوش اور جذبے سے جا رہے ہیں، اپنے نئے وطن کی طرف۔ یااللہ! خیر۔"

گھر پہنچ کر میاں بیوی دیر تک خالہ بی، ان کے شوہر شیخ نصیر اور ان کے بیٹا بیٹی کو یاد کرتے رہے۔ حیدر نے کہا: "لو بھئی رضیہ! پڑوس سونا ہو گیا۔" پھر اس نے صحن میں اس بند کھڑکی طرف دیکھا، جو کالہ بی کے گھر میں کھلتی تھی اور ٹھنڈی سانس بھر کر بولا: "میں تو میرٹھ ہی میں پیدا ہوا اور یہیں ہوش سنبھالا۔ بس جب سے ہوش سنبھالا، اس گھر میں خالہ بی اور ان کے خاندان
 

مقدس

لائبریرین
والوں کو ہی دیکھا۔ بڑا اچھا پروس تھا ہم لوگوں کا۔ ایسی محبت اور ایسا خلوص جیسے خون کا رشتہ ہو۔ ابا میاں اور اماں جی کے انتقال کے بعد تو ان کا خلوص اور بڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالٰی جلد ملائے ہم لوگوں کو۔"

اللہ نے اپنا کرم کیا اور وہ ٹرین جس میں خالہ بی پاکستان گئی تھیں، خریت سے لاہور پہنچ گئی۔ خالہ بی، شیخ نصیر اور ان کا بیٹا عارف بھی خریت سے پہنچ گئے، لیکن خالہ بی کے خط سے معلوم ہوا کہ اتنے لمبے سفر سے شیخ صاھب کی حالت بگڑ گئی۔ وہ پہلے ہی بیمار تھے، اس تکلیف دہ سفر نے انھیں ادھ موا کر دیا۔ پھر خط آیا کہ شیخ صاھب بیوی بیٹے کو لے کر لاہور سے کراچی چلے گئے ہیں۔ وہان جیکب لائن میں رہنے کو کواٹر بی مل گیا ہے اور شیخ نصیر کو میرٹھ کے کسی جاننے والے کے ریستوران میں مینجر کی نوکری بھی مل گئی ہے اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ عارف کا داخلہ کالج میں ہو گیا
 

مقدس

لائبریرین
ہے۔ سب اطمینان ہے، لیکن اس کی رفتار سست ہوتی گئی اور پھر اچانک خالہ بی کے خط آنا بند ہو گئے۔ حیدر اور رضیہ انھیں یاد کرتے رہتے تھے۔ حیدر کا ارادہ پاکستان جانے کا نہ تھا۔ اس کی وکالت اچھی چل نکلی تھی اور نوجوان وکیلوں میں وہ سب سے آگے تھا۔ تھوڑی بہت جائیداد بھی تھی۔ اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ شہر میں اس کے تعلقات بھی اچھے تھے، لہذا میاں بیوی دونوں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان ہی میں رہیں گے، لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پاکستان بنے دو سال ہی گزرے تھے کہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حیدر میرٹھ مین رہنا ممکن نہ رہا۔ اس کی پریکٹس بھی بگڑنے لگی اور جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔ آخر یہی فیصلہ ہوا کہ چلو، پاکستان چلتے ہیں۔ جس رازق نے یہاں روزی دی ہے، وہ وہاں اس سے زیادہ دے گا۔

پاکستان پہنچ کر حیدر نے کراچی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں قدم رکھتے ہی اسے خالہ بی کی یاد آئی۔ دو چار دن مشکل سے گزارے اور پھر ان کی تلاش میں جیکب لائن جا پہنچا۔ زیادہ وقت نہیں لگا اور خالہ بی کا کوارٹر آسانی سے مل گیا۔

خالہ بی نے جو اچانک حیدر کو دیکھا تو اسے لپٹا لیا۔ دیر تک اس کی بلائیں لیتی رہیں۔ خوشی کا یہ عالم تھا کہ آنکھوں سے آنسو بہ رہ تھے، لیکن زبان گنگ ہو گئی تھی۔ کافی دیر یہی کیفیت رہی۔ حالت ذرا ٹھیک ہوئی تو ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں طرف سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد حیدر نے پوچھا: "خالہ بی! شیخ صاحب، میرا مطلب ہے ہمارے خالو کس وقت آتے ہیں کام سے؟"

خالہ بی نے حیدر کو غور سے دیکھا اور بولیں: "بیٹا! وہ تو سارے جھنجٹ سے آزاد ہو گئے۔ انھیں تو دنیا سے گئے چھے ماہ سے زیادہ ہو گئے۔"
 

مقدس

لائبریرین
حیدر تو اپنی جگہ سے اچھل پڑا: "ہائیں- یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ خالہ بی؟ اتنی بڑی بات ہو گئی اور آپ نے دو سطریں لکھ کر نہ بھیجیں۔"

خالہ بی سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ بھیگی ہوئی آنکھوں کو دوپٹے لے پلو سے صاف کرتے ہوئے آہستہ سے بولیں: "ہاں بیٹا! میں تم سے بہت شرمندہ ہوں، لیکن یقین جانو، میری جان بڑی مصیبتوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ بس کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ پہلے شیخ صاحب کی بیماری نے دیوانہ بنائے رکھا اور پھر ان کی موت رہے سہے ہوش و حواس بھی ساتھ لے گئی۔"

اس کے بعد خالہ بی دیر تک شوہر کی بیماری اور موت کا حال سناتی رہیں اور حیدر بت بنا بیٹھا رہا۔ اچانک اس نے سول کیا: "اور خالہ بی! عارف کیسا ہے؟ وہ کالج سے کس وقت آتا ہے؟"

خالہ بی آہستہ سے بولیں: "بیٹا! اب وہ کالج نہیں جاتا۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے کالج چھوڑ دیا ہے اور اب وہ صدر میں ایک بیکری پر کام کرتا ہے۔"

حیدر نے حیران ہو کر کہا: "خالہ بی! یہ کیا غضب کیا، ایسا ذہین اور پڑھنے کا شوقین بچہ اور اسے آپ نے بیکری کے کام پر لگا دیا؟"

خالہ بی اس انداز سے مسکرائیں جیسے کہہ رہی ہوں، یہ تقدیر کے کھیل ہیں عارف میاں! اور پھر بولیں:"ارے پڑھ بھی لے گا۔ عمر پڑی ہے کہ پڑھائی کے لیے۔ اچھا یہ بتا، میرے چاند کہ تو دلہن اور منے کو کیوں نہیں لایا؟"

حیدر نے مسکراتے ہوئے کہا: "خالہ بی! اس وقت تو آپ کا گھر ڈھونڈنے نکلا تھا۔ دو تین دن میں ضرور لاؤں گا آپ سے ملوانے، لیکن آپ یہ بتائیے کہ ابھی تک آپ رضیہ کو دلہن کہتی ہیں؟ اب تو منا پانچ سال کا ہو گیا اور اس کی ایک بہن بھی گئی۔"
 

مقدس

لائبریرین
خالہ بی خوش ہو کر بولیں: "ماشاءاللہ، ماشاءاللہ۔ بہن جم جم آئے۔ میں کہتی ہوں ایک بہن کیا، درجن بھر بھائی بہن آجائیں اور منا پانچ نہیں پچاس سال کا ہو جائے، میں پھر بھی رضیہ کو دلہن ہی کہوں گی۔ ارے! اپنے ہاتھوں سے آرسی مصحف کرایا، اپنے ہاتھوں سے کھیر چٹائی کی رسم کی، اپنے ہاتھوں سے چوتھی کھلائی۔ بھلا میں اسے دلہن نہیں کہوں گی تو کون کہے گا؟"

حیدر ہنس دیا اور کہنے لگا:"خالہ بی! اس وقت تو آپ نے اماں کی یاد دلا دی۔ باتوں کا بالکل وہی انداز۔ وہی لہجہ، وہی لافاظ۔"

خالہ بولیں: " حیدر بیٹے! کیوں نہ ہو۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ ساتھ گزارا ہے۔ ایک دوسرے پر اثر ہونا تو لازمی بات ہے ۔"

دیر تک خالہ بی اور حیدر میں باتیں ہوتی رہیں۔ خالہ بی نے پوچھا: "حیدر میاں! کیسا لگا تمھیں پاکستان؟ کیا محسوس کر رہے ہو اس نئے وطن میں؟"

حیدر ہنسا اور کہنے لگا:"خالہ بی سچ بتاؤں؟ بس یوں سمجھیے کہ اگر یہاں آنے سے پہلے مجھ سے کوئی کہتا کہ آسمان کی طرح زمین پر بھی ایک جنت ہے تو میں نہ مانتا، لیکن پاکستان کی زمین پر قدم رکھتے ہی کچھ یوں محسوس ہوا کہ ہاں زمین پر بھی جنت ہے۔"

خالہ بی مسکرائیں: "ارے حیدر بیٹے! تو نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ یہاں آنے کے بعد تمھارے خالو بیمار رہے۔ پھر ان کا انتقال ہوا۔ پیسے کی کمی رہی، عارف کی پڑھائی چھوٹی۔ دس مسئلے ہوئے، لیکن نہ جانے پھر بھی جو مزہ یہاں آکے ملا، اسے بیان نہیں کر سکتی۔"

حیدر اٹھ کھڑا اور خالہ بی سے اجازت چاہی: "اچھا خالہ بی! اب چلتا ہوں۔ جلد ہی چکر لگے گا۔"

حیدر چند تو بہت ہی مصروف رہا۔ مکان تلاش کیا، ہائی کورٹ میں اپنتا رجیسٹریشن کرایا کہ وکالت شروع کر سکے اور گھر کے لیے چھوٹی موٹی خریداری کی۔ اطمینان کی بات یہ تھی کہ اس
 

مقدس

لائبریرین
نے جو رقم انڈیا سے منتقل کرائی تھی، وہ اسے یہاں مل چکی تھی اور یہ اچھی خاصی رقم تھی۔

ہفتہ دس دن بعد وہ بیوی بچوں کو ساتھ لیے وکٹوریہ میں بیٹھ کر جیکن لائن پہنچا تو خالہ بی خوشی سے بےحال ہو گئیں۔ رضیہ اور بچوں پر پیار کی بوچھار کر دی۔ بس نہین چلتا تھا کہ بچوں کو کلیجے میں بٹھا لیں۔ عارف اس دن گھر پر تھا۔ اس کی دور لگوادی۔ جا،بچوں کے لیے فلاں چیز لا۔ جا بچوں کو فلاں جگی کی سیر کرا۔ دلہن کو فلاں چیز پسند ہے۔ جلدی سے لے کر آ۔"

حیدر نے تنگ آ کر کہا: " ارے خالہ بی! عارف کو دو چار منٹ بیٹھنے تو دیجیے ہمارے پاس، آپ تو اسے رگیدے جا رہی ہیں۔"

عارف اطمینان سے بیٹھا تو حیدر نے اس کی تعلیم کے بارے میں باتیں شروع کیں۔ اسے اندازہ ہوا کہ عارف کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے کا بہت صدمہ ہے، لیکن مجبور تھا۔ باپ کی بےوقت موت نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کئی گھنٹے یہ لوگ ساتھ رہے۔ کھانا کھایا اور باتیں کیں اور آیندہ کے منصوبے بناتے رہے۔ جانے سے پہلے حیدر نے خالہ سے کہا: "خالہ بی! آپ کو ایک ضروری بات بتانا تھی۔ جب آپ پاکستان آرہے تھے تو نصیر کالو نے کچھ رقم امانت کے طور پر میرے پاس رکھوائی تھی۔ وہ اسے ساتھ لانا نہیں چاہتے تھے کہ پتا نہیں، کیا حالات ہوں اور کہیں یہ رقم ادھر ادھر نہ ہو جائے۔ پاکستان پہنچ کر بھی انھوں نے یہ رقم نہیں منگوائی اور میں بھی انتظار کرتا رہا کہ وہ منگوائیں تو بھیجنے کا بندوبست کروں۔ اب یہ امانت مٰن آپ کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔"

خالہ اپبی جگہ سے اٹھ کر یہ کہتی ہوئی حیدو کے پاس آگئیں: " اچھا، انھوں نے مجھ سے کبھی ذکر نہیں کیا۔ خیر یہ بتاؤ، کتنے پیسے ہیں؟"

حیدر نے جواب دیا: "پانچ ہزار رپے۔"

خالہ بی کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ذرا سنبھلیں تو حیرت سے بولیں: "پانچ ہزار! ارے
 

مقدس

لائبریرین
حیدر کیوں باؤلا بنا رہا ہے ، خالہ کو؟"

حیدر نے سنجیدگی سے کہا: "خالہ بی!یہ مذاق نہیں ہے۔"

خالہ بی ھیرانی سے بولیں: "لیکن ان کے پاس یہ آئے کہاں سے؟ وہ تو سدا کے درویش تھے۔"

حیدر بولا: "خالہ بی! مجھے ٹھیک سے تو معلوم نہیں۔ شاید انھوں نے پینشن بیچی تھی یا کوئی قیمتی خاندانی چیز، اچھا، اب ایک صورت تو یہ ہے کہ میں ساری رقم آپ کو دے دوں اور دوسری یہ کہ آپ کا کھاتا بینک میں کھلوا کر یہ پیسے اس میں رکھوا دوں اور آپ سو رپے ہر مہینے نکالتی رہیں، سو رپے آکے مہینت بھر کے خرچ اور عارف کی پڑھائی کے لیے۔ سارا خرچ کر کے بھی بچ رہیں گے۔ برسوں چلیں گے آپ کے پاس۔"

خالہ بی کو یہ تجویز پسند آئی اور وہ ہاتھ اٹھا کر شوہر کی مغفرت کی دعائیں کرنے لگیں، جن کی اس عنایت کی وجہ سے وہ در در بھیک مانگنے سے بچ گئیں۔

چلتے چلتے حیدر نے کہا:" بس خالہ بی! اب آپ فوراً عارف کی نوکری چھڑوا کر اسے پڑھائی پر لگوائیے۔ یہ ان شاءاللہ میری طرح قانون کی تعلیم لے گا اور پھر میرے ہی ساتھ وکالت کرے گا۔"

گھر واپس آتے ہوئے راستے میں رضیہ نے حیدر سے کہا: "آپ نے کبھی یہ بات مجھے نہیں بتائی کہ کالو نے یہ رقم امانت رکھوائی تھی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے۔۔۔۔"

حیدر نے بات کاٹی: "تمھیں جو لگتا ہے، ٹھیک ہے، لیکن رضیہ! پلیز، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ دراصل بات یہ ہے کہ خالہ نے ہمیشہ ہی اماں کی بڑی خدمت کی اور ان سے بہت پیار کیا،لیکن ایک ایسا موقع آیا کہ اگر وہ اور شیخ نصیر نہ ہوتے تو شاید اماں کی جان نہ بچتی۔ یہ ہماری شادی سے پہلے کی بات ہے۔ شہر میرٹھ میں فرقہ وارانہ فساد کا شدید
 

مقدس

لائبریرین
خطرہ تھا۔ ماحول بہت گڑبڑ تھا، لہٰذا کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ انھیں دنوں اماں کو ٹائیفائڈ ہو گیا۔ بڑی پریشانی تھی کہ نہ اماں ڈاکٹر کے پاس جا سکتی تھیں اور نہ ڈاکٹر گھر آ سکتا تھا۔ بس شیخ صاحب نے یہ کیا کہ وہ گلیوں میں چھپتے چھپاتے ڈاکٹر کے پاس جاتے، اماں کا حال کہتے اور دوا لاتے۔ یہ کام وہ جان پر کھیل کر رکتے تھے۔ ایک دو دفعہ کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر کو گھر بھی لے آئے۔ ادھر خالہ بی دن رات ماں کی تیمارداری میں لگی رہتی تھیں۔ اپنا کھانا پینا اور آرام سب بھلا دیا تھا۔ آخر اللہ نے کرم کیا اور اماں ٹھیک ہونے لگیں۔ رضیہ! یقین جانو، یہ اتنی بڑی قربانی تھی، جو پڑوسی تو کیا کوئی رشتے دار بھی نہ دیتا۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس دن سے میرے دل میں خالہ بی اور خالو نصیر کی بڑی قدر ہو گئی۔ اب جو میں نے کراچی مین انھیں اس حال میں دیکھا تو مجھے اماں کی وہ بیماری اور خالہ بی کی دن رات کی خدمت یاد آ گئی۔ میں نے سوچا، جو پیسہ میرے پاس ہے وہ اماں بی کے مکان کا ہی تو ہے، کیوں نہ میں اس میں سے کچھ رقم اس مصیبت کے وقت میں خالہ بی کو دے دوں، تاکہ اماں کی بھی روح خوش ہو جائے اور عارف جیسا ہونہار طالب علم نوکری کرنے کے بجائے اپنی تعلیم مکمل کر لے۔ مجھے معلوم تھا کہ خالہ بی میری مدد قبول نہیں کریں گی۔ میرٹھ مین ہماری اور شیخ نصیر کی مالی حیثیت میں بڑا فرق تھا۔ اماں نے کئی بار کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کرنی چاہی، لیکن وہ نہ مانیں۔ یہی سوچ کر مین نے یہ امانت والی ترکیب اختیار کی۔"

سارے کام حیدر کی خواہش کے مطابق ہوتے رہے۔ عارف کو ایک اچھے تعلیمی ادارے میں داخلہ مل گیا اور وہ دن رات محنت کر کے اپنے کھوئے ہوئے وقت کی کمی پوری کرنے لگا۔ خالہ بی چین سے زندگی گزارنے لگیں۔

***
 
Top