کرہِ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔ وسعت اللہ خان

فرخ منظور

لائبریرین
کرہِ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔
وسعت اللہ خان ۔ بی بی سی اردو
جس کھڑکی کے قریب بیٹھ کر میں لکھائی پڑھائی کا کام کرتا ہوں، اسی کھڑکی کے باہر کونے میں چڑیا نے آج اپنا گھونسلہ مکمل کر لیا۔ اس کی آٹھ، نو سہیلیاں اور ایک طوطا مبارک باد دینے آئے ہیں۔ ایک چہچہاتی ہاؤس وارمنگ پارٹی چل رہی ہے۔

حالانکہ یہ سب مجھے دیکھ رہے ہیں مگر ان کی چُوں چُوں اور ٹیں ٹیں میں کوئی وحشت نہیں۔ ویسے بھی کمرے میں مقید جاندار سے کسی کو کیا ڈرنا۔

فیض صاحب جب تخت گرا رہے تھے اور تاج اچھال رہے تھے یا پھر ’وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے‘ لکھ رہے تھے تو انھیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن یہ نظمیں انسان کے سوا کرہِ ارض کے ہر جاندار اور تازہ ہوا کو ترستے آسمان کا ترانہ بن جائیں گی۔

پچھلے دو، تین ماہ سے جو ہو رہا ہے شاید اس زمین پر پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جسے ہم ترقی کا کارخانہ سمجھ رہے تھے اس کے پہیے کو ایک نادیدہ دشمن نے روک دیا۔
دو سو سے زائد لکیریں جو انسانوں کو روکنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کے ’سپیڈ بریکرز‘ بنا کر اس زمین پر کھینچی گئی تھیں یکلخت بے معنی ہو گئیں۔

کیا امریکہ، کیا صومالیہ اور کیا مکہ، ہردوار، ویٹیکن اور کیا دیوارِ گریہ، سب ایک ہی صف میں کان پکڑ کر کھڑے کر دیے گئے۔
سنتے آئے تھے کہ جاگیردار کو جب کسی معزز حریف کی عزت خاک میں ملانا ہوتی تو گاؤں کے سب سے نچلے راندہِ درگاہ شخص سے سرِعام جوتے لگواتا تھا تاکہ یہ قصہ نسل در نسل یاد رہے۔

آج فطرت ایک گھٹیا وائرس کے ہاتھ میں جوتا پکڑا کر اشرف المخلوقات کا وہی حشر کر رہی ہے اور جسے جوتا پڑ رہا ہے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس کا مستحق نہیں۔

سنا ہے اب تک عالمی سٹاک مارکیٹ میں ڈھائی سے تین ٹرلین ڈالر پانی ہو گئے۔ جانے ان تین ٹرلین ڈالرز میں سے کتنی رقم ایمان داری سے کمائی گئی ہو گی اور کتنا پیسہ کتنے لوگوں کا خون چوس کر، کتنے کروڑ درخت کاٹ کر، کتنے لاکھ ایکڑ زمین ریپ کر کے، کتنے بچوں کا دودھ اور نوالہ چھین کر، کتنی ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کر کے، کتنا سود وصول کر کے اور کتنی محنت سے کرپشن کر کے جمع کیا گیا۔

آنے والے دنوں میں سٹاک ایکسچینج اور اجناس کی منڈی کے ساتھ مزید کیا ہونے جا رہا ہے؟ سب وقت کی دیوار پر لکھا ہے۔

جس دنیا کے آدھے وسائل اور دولت ایک سو انسانوں یا ان کی کمپنیوں کے قبضے میں ہوں ایسی جنتِ شداد کیسے کسی دیدہ و نادیدہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے۔

ایک ایک انچ زمین کے لیے لاشیں بچھا دینے والے، ایک دوسرے سے خوفزدہ ہو کر اسلحے کے انبار لگانے والے اور ہر ہاتھ میں بندوق پکڑا دینے کے خواہش مند، ایک دوسرے کی منڈیاں اغوا کرنے والے منصوبہ ساز، اپنے عقیدے اور اقدار کو دوسرے پر تھوپنے اور انکار کی صورت میں بستیاں تاراج کر دینے والے، جنگلی حیاتیات کو بے گھر کرنے والے، ترقی و خوشحالی کے سراب کے اسیر ہو کر فطری بقا کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں اڑانے والے اور اپنے طبقاتی، مذہبی، ثقافتی تحفظ کے دھوکے میں دیواریں بلند تر کر کے ان کے پیچھے چھپنے والے اور اپنے سمیت ہر مخلوق کو ادنی و برتر میں بانٹنے والے۔

آج ان سب کے مکھیا کہہ رہے ہیں کہ اگر دو ڈھائی کروڑ لوگوں کی قربانی لے کر بھی یہ وائرس ٹل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سمجھنا کہ سودا برا نہیں۔

مجھے ہرگز ہرگز اپنی جاتی کے بارے میں خوش گمانی نہیں کہ جو بچ گئے وہ اپنے لچھن ٹھیک کر کے ’بندے دے پتر‘ بن جائیں گے اور کرہِ ارض پر دیگر حیاتیات و نباتات و معدنیات کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کر لیں گے۔ میری جاتی اس وقت جتنی مظلوم ٹپائی دے رہی ہے دراصل اس سے کہیں زیادہ ظالم ہے۔

فی الحال تو میں اپنی کھڑکی کے باہر آدمی کے خوف سے آزاد گھونسلہ بنانے والی چڑیا اور اس کی اچھلتی پھدکتی ہمجولیوں کی چہچہاتی خوشیوں میں مگن ہوں اور اس کھڑکی بھر آسمان کو جی بھر کے دیکھ رہا ہوں جو جانے کب سے خالص نیلا دکھنے کے لیے ترس رہا تھا۔

کرہِ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔ میرے مقید ہوئے بغیر یہ بھلا کہاں ممکن تھا؟
 
Top