کتاب کا ترجمہ کرنے کے ذیل میں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اگر ہم کسی کتاب کا مکمل ترجمہ کرنا چاہیں (مثلا اگر کسی مکمل کتاب کا ترجمہ یہاں فورم پر ارسال کیا جائے) تو کیا اس پر کاپی رائٹ یا کسی بھی طرح کے کوئی قوانین لاگو ہوں گے؟
 

زیک

مسافر
میرا خیال ہے کہ اگر کتاب کاپی رائٹ ہے تو ترجمے کے لئے مصنف یا کاپی رائٹ کے مالک سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نوٹ: میں قانون دان نہیں ہوں اور نہ اس معاملے میں کوئی خاص مطالعہ ہے۔ اکثر باتوں کی طرح ممکن ہے یہ امریکہ میں درست ہو مگر پاکستان میں نہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اگر کتاب کاپی رائٹ ہے تو ترجمے کے لئے مصنف یا کاپی رائٹ کے مالک سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نوٹ: میں قانون دان نہیں ہوں اور نہ اس معاملے میں کوئی خاص مطالعہ ہے۔ اکثر باتوں کی طرح ممکن ہے یہ امریکہ میں درست ہو مگر پاکستان میں نہیں۔
یہاں بھی یہی قانون ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یعنی انٹرنیٹ آرکائیو پر موجود کتب کا ترجمہ کرنے کے لیے کاپی رائٹ کا مسئلہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اجازت کی ضرورت ہو گی۔
 

اسد

محفلین
یعنی انٹرنیٹ آرکائیو پر موجود کتب کا ترجمہ کرنے کے لیے کاپی رائٹ کا مسئلہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اجازت کی ضرورت ہو گی۔
انٹرنیٹ آرکائِو کاپی رائٹ اتھارٹی نہیں ہے، وہاں کتاب موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لازماً کاپی رائٹ سے آزاد ہے۔ خود انٹرنیٹ آرکائِو، گوگل اور امریکی و برطانوی یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کی طرف سے اپلوڈ کی ہوئی کتابیں تو امریکہ میں کاپی رائٹ سے آزاد ہوتی ہیں، لیکن عام صارفین، تیسری دنیا کی بعض لائبریریوں اور پروجیکٹس نے بے شمار کاپی رائٹڈ کتابیں اور دیگر مواد اپلوڈ کیا ہوا ہے۔ مثلاً، یونیورسل بکس (سابقہ ملین بکس پروجیکٹ) نے سینکڑوں کاپی رائٹڈ کتابیں اپلوڈ کی تھیں، لیکن ان میں سے بیشتر مشرقی زبانوں میں تھیں۔ کتابوں کے کاپی رائٹ کی صورتِ حال معلوم کرنا مترجم کا فرض ہے۔ انٹرنیٹ آرکائِو پر موجود بیشتر انگلش کتابیں کاپی رائٹ سے آزاد ہیں۔

امریکی کاپی رائٹ قوانین کے مطابق 1923 سے پہلے چھپی ہوئی تمام کتابیں پبلک ڈومین ہیں، اس کے بعد چھپی ہوئی کتابوں کے کاپی رائٹ کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ پاکستانی قوانین کے مطابق مصنف کے انتقال کے پچاس سال بعد تک کاپی رائٹ برقرار رہتا ہے۔ کچھ کتابیں جو امریکہ میں پبلک ڈومین ہیں وہ پاکستان میں کاپی رائٹ میں ہیں(مصنف زندہ ہے یا اس کے انتقال کو پچاس سال سے کم عرصہ گزرا ہے)، جب کہ بہت سی کتابیں جو پاکستان میں کاپی رائٹ سے آزاد ہیں(مصنف کے انتقال کو پچاس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں)، امریکہ میں ابھی تک کاپی رائٹ میں ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انٹرنیٹ آرکائِو کاپی رائٹ اتھارٹی نہیں ہے، وہاں کتاب موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لازماً کاپی رائٹ سے آزاد ہے۔ خود انٹرنیٹ آرکائِو، گوگل اور امریکی و برطانوی یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کی طرف سے اپلوڈ کی ہوئی کتابیں تو امریکہ میں کاپی رائٹ سے آزاد ہوتی ہیں، لیکن عام صارفین، تیسری دنیا کی بعض لائبریریوں اور پروجیکٹس نے بے شمار کاپی رائٹڈ کتابیں اور دیگر مواد اپلوڈ کیا ہوا ہے۔ مثلاً، یونیورسل بکس (سابقہ ملین بکس پروجیکٹ) نے سینکڑوں کاپی رائٹڈ کتابیں اپلوڈ کی تھیں، لیکن ان میں سے بیشتر مشرقی زبانوں میں تھیں۔ کتابوں کے کاپی رائٹ کی صورتِ حال معلوم کرنا مترجم کا فرض ہے۔ انٹرنیٹ آرکائِو پر موجود بیشتر انگلش کتابیں کاپی رائٹ سے آزاد ہیں۔

امریکی کاپی رائٹ قوانین کے مطابق 1923 سے پہلے چھپی ہوئی تمام کتابیں پبلک ڈومین ہیں، اس کے بعد چھپی ہوئی کتابوں کے کاپی رائٹ کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ پاکستانی قوانین کے مطابق مصنف کے انتقال کے پچاس سال بعد تک کاپی رائٹ برقرار رہتا ہے۔ کچھ کتابیں جو امریکہ میں پبلک ڈومین ہیں وہ پاکستان میں کاپی رائٹ میں ہیں(مصنف زندہ ہے یا اس کے انتقال کو پچاس سال سے کم عرصہ گزرا ہے)، جب کہ بہت سی کتابیں جو پاکستان میں کاپی رائٹ سے آزاد ہیں(مصنف کے انتقال کو پچاس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں)، امریکہ میں ابھی تک کاپی رائٹ میں ہیں۔

بہت شکریہ تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے۔ میں اب تک یہ سمجھتی رہی ہوں کہ انٹرنیٹ آرکائیو پر کاپی رائٹ سے آزاد کتب ہوتی ہیں۔
میں اس کتاب کا ترجمہ کرنا چاہ رہی تھی یہ 1926 کی طبع شدہ ہے لیکن مزید تفصیل کا علم نہیں، اس کا مطلب فی الحال اس کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
 

فاتح

لائبریرین
یعنی ترجمہ کی بجائے بندہ خود ہی کتاب لکھ ڈالے :)
نہیں سے میری مراد تھی کہ "انٹرنیٹ آرکائیو پر موجود کتب کا ترجمہ کرنے کے لیے کاپی رائٹ کا مسئلہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اجازت کی ضرورت ہو گی۔ :) یعنی کاپی رائٹ کا مسئلہ "نہیں" ہو گا اور اجازت کی ضرورت بھی درکار "نہیں"۔
 

اسد

محفلین
... میں اس کتاب کا ترجمہ کرنا چاہ رہی تھی یہ 1926 کی طبع شدہ ہے لیکن مزید تفصیل کا علم نہیں، اس کا مطلب فی الحال اس کا ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کتاب محفل کے رکن حسان خان نے اپلوڈ کی تھی، ان سے دریافت کریں کہ مصنف عبدالعظیم قریب کا انتقال کب ہوا تھا، ان کی پیدائش تو 1296ہجری (1879 یا 1880ء) کی ہے۔ اگر ان کا انتقال 1965 یا اس سے پہلے ہوا ہے تو یہ پاکستان میں کاپی رائٹ سے آزاد ہے اور اس کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔

فارسی ویکیپیڈیا پر عبدالعظیم قریب کا صفحہ۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ تاریخِ پیدائش و وفات کس کیلنڈر کے مطابق لکھی ہے، آپ دیکھ لیں۔

ایڈٹ: یہ دسواں ایڈیشن ہے، امریکی کاپی رائٹ پہلے ایڈیشن کی تاریخِ اشاعت کے مطابق ہو گا۔
 
آخری تدوین:

اسد

محفلین
سولر ہجری کیلنڈر میں عبدالعظیم قریب کی تاریخِ وفات '۳ فروردین ۱۳۴۴' کا مطلب ہوا 23 مارچ 1965۔ یعنی ان کی کتابیں یکم جنوری 2016 کو پاکستان (اور دیگر لائف + 50 ممالک) میں کاپی رائٹ سے آزاد ہو جائیں گی۔
 
Top