کب تک یاد رکھے گا یہ زمانہ

کب تک یاد رکھے گا یہ زمانہ

بہت دنوں بعد
ایک نماز جنازہ میں شرکت کا موقع ملا
پهر جو کچھ میں نے دیکها اس کے مطابق اپنے بارے میں سوچنے لگا
کہ
ایک دن میں بھی مر جاؤں گا
اور لوگ میری بھی نماز جنازہ پڑھیں گے
میری نماز جنازہ میں جتنے لوگ شامل ہونگے
۔۔۔۔۔۔ ان میں سے 50 فیصد لوگ صرف نماز جنازہ پرهنے تک مجھے یاد رکهیں گے ‘ پھر ہمیشہ کے لئے بهول جائیں گے!
۔۔۔۔۔۔ باقی 50 فیصد لوگ میری میت کے ساتھ قبرستان تک جائیں گے جن میں سے 40 فیصد لوگ مٹی دیتے ہی ہمیشہ کیلئے مٹی پواؤکہہ دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔ باقی 10 فیصدلوگ گهر تک واپس آئیں گے جن میں سے 5 فیصد لوگ گهر سے رخصت ہوتے ہی مجھے ہمیشہ کیلئے بھول کر اپنے کاموں میں لگ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔بقیہ 5 فیصد میں سے 3 فیصد لوگ سوئم تک مجھے یاد رکهیں گے
اور
۔۔۔۔۔۔قریب ایک فیصد لوگ مزید چند دنوں یا چند ہفتوں یاچند مہینوں تک مجھے یاد رکهیں گے ، پهر ہمیشہ کیلئے اپنی دنیا میں مست ہو جائیں گے ۔
اور
۔۔۔۔۔۔ شاید صرف ایک فیصد یا اُس سے بھی کم لوگ اپنی موت تک مجھے یاد رکهیں گے جن کے مرنے کے بعد مجھے کوئی یاد کرنے والا نہیں ہوگا۔

یہ ہےفانی دنیا کی حقیقت ۔ یہاں جوں ہی ہم فنا ہونگے‘ ہم سےوابستہ یادیں، ہماری عزت‘ شہرت‘ نام و نمود اورشان و شوکت سب کچھ فنا ہوجائے گی جنہیں بچانے کے غم میں ہم سب نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں۔
لیکن
اگر میرا خاتمہ بالایمان ہوتا ہے اور میں دنیا سے سرخرو ہوکر اپنے ربِ کریم کے پاس پہنچتا ہوں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری وفات کے بعد مجھے کب تک یاد رکھے گا یہ زمانہ۔

اگر میں اپنے بچوں صحیح تربیت کر گیا اور اپنے بچوں کو دین اسلام پر چھوڑ گیا جو میری مغفرت کی دعائیں کرتے رہےگے اور میرے لئے صدقۂ جاریہ بن پائیں گے تو مجھے کس کا غم؟

اگر میں اپنی مقدور بھر اللہ کی نافرمانی اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے سے بچتا رہا‘
شرک‘ بدعات و خرافات سے بچتا ہوا اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارتا رہا ‘
نمازیں مقررہ وقت پر ادا کرتا رہا‘
زکاۃ و صدقات دیتا رہا‘
اپنے نفس کو بخل سے بچاتے ہوئے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا رہا ‘
غریب مسکین و ناداروں کی مدد کرتا رہا ‘
قطع رحمی اور دیگر گناہوں سے بچتا رہا ‘
اور
زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما کر اپنی آخرت کیلئے ذخیرہ کرتا رہا
تو ان شاء اللہ میرا رب مجھے اپنے کامیاب بندوں میں شامل کرلے گا‘ پھر مجھے کسی کے یاد رکھنے نہ رکھنے کا کیا پرواہ؟
کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:
فَاتَّقُوا اللَّ۔هَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٦﴾ سورة التغابن
اور جہاں تک ہو سکے اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اور (اُس کے احکام)سنو اور اطاعت کرو اور (اس کی راہ میں مال) خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچایا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

بے شک احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی گزار کر ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونے میں ہی کامیابی ہے۔
اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو ساری دنیا بھی ہمیں ہمیشہ کیلئے یاد رکھنے والی ہو جائے تو بھی کوئی کامیابی نہیں‘ ہمیشہ کی خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اللہ ہمیں ہمیشہ کی خسارہ سے بچا کر ہمیشہ کی کامیابی عطا کرے اور اس کیلئے ہر پل سعی کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔​

 

ام اویس

محفلین
مجھے لگتا ہے کہ ہر شخص اپنی دنیا خود ہی ہے ۔ یعنی جب تک زندہ ہے اس کی دنیا قائم ہے جس میں ہر شخص کے اپنے اپنے محسوسات ، اپنی اپنی ضروریات ، اپنے اپنے رشتے و تعلق ہیں ، اپنی کامیابیاں اپنی ناکامیاں ہیں ۔
اور انسان کے مرتے ہی اس کی یہ دنیا ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اگلی دنیا شروع ہو جاتی ہے ۔ اس دنیا سے جو لوگ جتنا تعلق رکھتے ہیں بس اتنا ہی یاد کرتے ہیں ۔ پھر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں ۔ البتہ اس نے دوسروں کی دنیا کو آسان بنانے کی اگر کچھ کوشش کی ہو تو یاد کا دائرہ کچھ وسیع اور دیرپا ہو جاتا ہے ۔
اور اگلی دنیا اسی کی بہتر ہونے کی امید ہے جس کی یہ دنیا الله کریم کے حکم کے عین مطابق ہو
خاتمہ بالایمان کی صورت میں بھی الله سبحانہ وتعالی کی رحمت سے ہی بخشش ممکن ہے ۔
سارا معاملہ امید اور ڈر کے بین بین ہے ۔
 
Top