پیامِ الفت جو دے رہی ہیں جھکی حیا سے تری نگاہیں---------برائے اصلاح

الف عین
@محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
(جمیل مثمن سالم میں ایک ٹوٹی پھوٹی کوشش)
-------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
---------
پیامِ الفت جو دے رہی ہیں جھکی حیا سے تری نگاہیں
انہیں بھلا دوں بھلا میں کیسے نکل رہیں ہیں جو دل سے آہیں
-------------
سرور دل کو جو آ گیا ہے اسے چھپانا بہت ہے مشکل
یہ دل گلی میں ہے کھینچ لایا میں دیکھتا ہوں تری ہی راہیں
-----------------
کبھی تو آؤ گے مجھ سے ملنے مری محبّت بُلا رہی ہے
بہار دل کی تمہیں ہو میرے کھلی تمہارے لئے ہیں باہیں
--------
وفا ہے مطلوب مجھ کو تیری ، مرے ہے دل نے تجھے ہی چاہا
تری ہی زلفوں تلے ہیں چاہیں یہ میرے دل نے پناہگاہیں
---------------
کیا ہے تم سے وفا کا وعدہ کریں گے پورا وہ جاں بھی دے کر
کبھی ہمارے لئے بھی کھولو حیا سے بھینچی ہوئی یہ باہیں
---------------------
یہی ہے ارشد نے رب سے مانگا اسے تمہاری وفا عطا ہو
دعا یہ پوری کبھی تو ہو گی ، تبھی تھمیں گی یہ اس کی آہیں
---------------
 

الف عین

لائبریرین
پیامِ الفت جو دے رہی ہیں جھکی حیا سے تری نگاہیں
انہیں بھلا دوں بھلا میں کیسے نکل رہیں ہیں جو دل سے آہیں
------------- کسے بھلا دوں؟ آہوں کو یا نگاہوں کو؟

سرور دل کو جو آ گیا ہے اسے چھپانا بہت ہے مشکل
یہ دل گلی میں ہے کھینچ لایا میں دیکھتا ہوں تری ہی راہیں
----------------- چاروں فقروں میں آپسی ربط محسوس نہیں ہوتا

کبھی تو آؤ گے مجھ سے ملنے مری محبّت بُلا رہی ہے
بہار دل کی تمہیں ہو میرے کھلی تمہارے لئے ہیں باہیں
-------- ٹھیک ہے

وفا ہے مطلوب مجھ کو تیری ، مرے ہے دل نے تجھے ہی چاہا
تری ہی زلفوں تلے ہیں چاہیں یہ میرے دل نے پناہگاہیں
--------------- اگر آپ کو 'مرے ہے دل' میں روانی بہتر محسوس ہوتی ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مجھے تو 'ہے میرے دل نے' 'ہیں چاہیں' رواں بھی نہیں، 'چاہنا' دوہرایا بھی جا رہا ہے۔ دوسرے مصرعے کے بھی الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے

کیا ہے تم سے وفا کا وعدہ کریں گے پورا وہ جاں بھی دے کر
کبھی ہمارے لئے بھی کھولو حیا سے بھینچی ہوئی یہ باہیں
--------------------- دو لخت لگتا ہے

یہی ہے ارشد نے رب سے مانگا اسے تمہاری وفا عطا ہو
دعا یہ پوری کبھی تو ہو گی ، تبھی تھمیں گی یہ اس کی آہیں
--------------- عطا ہو کا بیانیہ شاید درست نہیں 'وفا اسے مل سکے تمہاری' یا اس قسم کا بہتر ہو گا۔ تبھی تھمیں... کے ساتھ 'کبھی تو' نہیں، جب کی ضرورت ہے
قبول ہوگی دعا جب اس کی.... بہتر ہو گا
 
الف عین
(تصحیح کی کوشش )
پیامِ الفت جو دے رہی ہیں جھکی حیا سے تری نگاہیں
مجھے محبّت سے کہہ رہی ہیں نکال ملنے کی سہل راہیں
--------------
اداس دل تھا بنا یہ تیرے یہی محبّت کی ہے نشانی
مجھے گلی میں ہے کھینچ لایا میں دیکھتا ہوں تری ہی راہیں
---------------
خدا سے مانگی ہیں یہ دعائیں تری وفائیں ہوں سب میسّر
امید رب سے یہی ہے میری ملیں گی مجھ کو تری یہ باہیں
-------------
اگر محبّت میں پا لوں تیری ، تو ہو گی میری یہ خوش نصیبی
کہ دل نے میرے سدا ہیں چاہیں تری وفا کی پناہگاہیں
--------------- ا
کیا ہے تم سے وفا کا وعدہ کروں گا پورا اسے نبھا کر
پکارتا ہوں تجھے کہ آ جا ، کھلی ہیں تیرے لئے یہ باہیں
------------
بنا محبّت کسی کی جینا بہت ہی مشکل ہے کام ارشد
یہاں جو تنہا ہی جی رہا ہو ، نکلتی ہیں اس کے دل سے آہیں
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں طویل بحروں کو نبھانا آپ کے لئے بہت مشکل ہے، اس میں بھرتی کے الفاظ ہی نہیں، بھرتی کے خیالات تک گھسانے پڑتے ہیں۔ جب شعر میں ایک بات ہو رہی ہو تو اس وجہ سے دوسری بات بھی کرنی پڑتی ہے اور شعر دو لخت ہو جاتا ہے۔ مقطع ہی لیجیے، دونوں مصرعوں میں دو الگ الگ باتیں کہی گئی ہیں یا نہیں؟ پھر آپ شعر میں اصلاح کے بعد تصحیح کی کوشش میں پورا مصرع بدل دیا کرتے ہیں جس سے خیال مجروح ہوتا ہے، وہ الگ، اور پھر نئی بیانیہ کی اغلاط پیدا ہو جاتی ہیں، وہ الگ۔ اب ایک ایکسرسائز کر کے دیکھیں ۔ اسی غزل کے کسی بھی شعر کے پہلے مصرعے کو کسی دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے سے ملا دیں، میرے خیال میں کوئی فرق نہیں پڑتا!
یہ بھی اکثر کہتا رہتاہوں کہ جہاں محض یہ، وہ کافی ہو، وہاں یہی( یا جیسا آپ اکثر لکھتے تھے، یہ ہی) یا وہی( وہ ہی؟ ) بلکہ محض 'ہی'، 'بھی' جہاں واقعی ضروری ہوں، وہیں استعمال کیا جائے ورنہ وزن پورا کرنے کے لئے بھرتی ہی محسوس ہوتا ہے۔ درمیانی بحور میں شاید یہ مشکلیں نہ پیش آئیں، بالکل مختصر میں شاید بات مکمل نہ یو سکے، اس لیے محض درمیانی بحور میں طبع آزمائی کیا کریں۔
اس غزل کی مزید اصلاح نہیں کر رہا!
 
Top