پاکستان میں شہریوں کی ہلاکتیں، ڈرون امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، امریکی رپورٹ

باسم

محفلین
روزنامہ امین نیوز 25 ستمبر 2012
اسلام آباد (انصار عباسی) امریکا کی نیو یارک یونیورسٹی اسکول فار لاء اور اسٹین فورڈ لاء اسکول کی جانب سے مرتب کی جانے والی ایک تحقیقی اور تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں پر بیانات کو مسترد کردیا ہے اور رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ڈرون حملے غیر نتیجہ خیز اور نقصان دہ ہیں اور ان سے معصوم افراد ہلاک ہو رہے ہیں، قبائلی علاقوں کے لوگ ڈرون سے مستقل خوفزدہ ہیں اور بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں جبکہ ان حملوں کے نتیجے میں امدادی کارکن بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ رپورٹ منگل کو جاری کی جائے گی؛ یہ 9/ ماہ کی تحقیق اور تحقیقات پر مشتمل ہے، جس میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس اینڈ کونفلکٹ ریزولیوشن کلینک آف اسٹین فورڈ لاء اسکول (اینڈ فورڈ کلینک) اور نیویارک یونیورسٹی آف لاء کے گلوبل جسٹس کلینک نے حصہ لیا ہے۔ رپورٹ میں ڈرون حملوں کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ حملے میں ”ہائی لیول“ ٹارگٹ کے مارے جانے کا تناسب صرف 2/ فیصد ہے۔ مزید یہ کہ ثبوتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں غیر ریاستی مسلح گروپس کو منظم ہونے کا موقع ملا ہے جو مزید پرتشدد حملوں کیلئے آمادہ رہتے ہیں۔ رپورٹ میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یہ بتائے کہ وہ کس قانون کے تحت یہ ڈرون حملے کرتی ہے؛ ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کرائی جائیں؛ طاقت کے استعمال کے معاملے میں حقوق انسانی اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے۔ رپورٹ میں صحافیوں اور میڈیا کے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی وضاحت کے بغیر ہلاکتوں کیلئے ”جنگجوؤں“ کا حوالہ دینے کے عمومی اقدامات کی نفی کریں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ”امریکا میں عام طور پر یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے درست نشانے پر ہوتے ہیں اور یہ موثر ہتھیار ہیں جس سے دہشت گردوں کو ہلاک کرکے امریکا کو محفوظ بنایا جا رہا ہے اور اس میں عام لوگوں کا نقصان انتہائی کم ہوتا ہے۔ تاہم، یہ تاثر غلط ہے۔ “ رپورٹ میں متنبہ کیاگیا ہے کہ شمال مغربی پاکستان میں چوبیسوں گھنٹے ڈرون حملوں سے عام لوگ خوفزدہ رہتے ہیں، یہ انتہائی نقصان دہ اور غیر نتیجہ خیز ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے امریکی پالیسی ساز اور امریکی عوام مسلسل لاتعلقی اختیار نہیں کرسکتے کہ ان سے عام انسانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں مقامی آبادی کے ساتھ انٹرویوز کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں مرنے والے افراد، امدادی کارکنوں اور ڈاکٹروں کے اہل خانہ سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ڈرون حملوں کے وزیرستان کے معاشرے پر تباہ کن نتائج کا پہلی مرتبہ جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے کیلئے پاکستان میں 2/ مرتبہ تحقیقات کی گئی ہیں، 130/ متاثرین، گواہوں اور ماہرین کا انٹرویو کیا گیا ہے جبکہ میڈیا رپورٹس اور سیکڑوں دستاویزات کے ہزاروں صفحات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ امریکا کو چاہئے کہ وہ خود کو دہشت گردوں سے لاحق خطرات سے بچائے جبکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہئے کہ دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی عوام کو کتنا نقصان پہنچا ہے، امریکا کی ڈرون پالیسی پر نظرثانی کی جائے کیونکہ اس سے پاکستانی سویلین اور امریکی مفادات کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے عام سویلین ہلاکتوں کا اعتراف شاید ہی کبھی کیا جاتا ہے اور اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان حملوں میں عام لوگ بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کھل کر یہ کہتا ہے کہ ڈرون حملوں سے القاعدہ کے دہشت گرد حیران و پریشان ہوجاتے ہیں اور یہ سرجیکل حملے کے ساتھ انتہائی درستگی کے ساتھ ہدف کو میزائل سے نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن جون 2004ءء سے ستمبر 2012ءء کے وسط تک کے دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں 2562/ سے 3325/ کے درمیان لوگ مارے گئے جن میں سے 881/ سویلین تھے اور ان میں 176/ بچے بھی شامل تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں 1362/ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ صرف ایک معاملے میں دیکھا جائے تو جون 2011ءء میں قبائلی عمائدین کے ایک جرگے پر کیے گئے حملے میں 40/ عام افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹ میں امریکا کے اس بیان کو مسترد کیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں امریکا محفوظ ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ایک بہترین ڈھکوسلا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں یقینا مبینہ جنگجو ہلاک ہوئے ہیں اور دہشت گرد نیٹ ورک منتشر ہوگئے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں کیونکہ ہائی لیول ٹارگٹس کی ہلاکت کا تناسب صرف 2/ فیصد ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملوں نے امریکا کیساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستانی عوام کو بدظن کردیا ہے اور انہی حملوں کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک بڑی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 74/ فیصد پاکستانی اب امریکا کو سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں بین الاقوامی قوانین اور قانونی تحفظ کی دھجیاں اڑ رہی ہیں اور اس طرح خطرناک مثالیں قائم ہوسکتی ہیں۔ رپورٹ میں ڈرون حملوں کے جائز ہونے پر انگلی اٹھائی گئی ہے کیونکہ اس سے ایسے لوگ بھی نشانہ بن رہے ہیں جن کا 11/ ستمبر 2001ءء کے دہشت گرد حملوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ رپورٹ میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے متعلق پالیسی کا از سر نو بنیادی جائزہ لیا جائے، متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے، امریکا اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے اور اس میں احتساب اور شفافیت کا عنصر شامل ہونا چاہئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا کوچاہئے کہ محکمہ انصاف پاکستان میں ہونے والی ہلاکتوں کے متعلق ایک میمو جاری کرے، امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی کے متعلق عوام کو معلومات فراہم کرے، اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے متعلق معلومات بھی عوام کو فراہم کی جائے، ایسا میکنزم ترتیب دیا جائے جس سے یہ ثابت ہو کہ کیا جانے والا ڈرون حملہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھا، ڈرون حملوں سے ہونے والی سویلین ہلاکتوں اور زخمیوں کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ رپورٹ میں صحافیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی وضاحت کے بغیر ہلاک شدگان کا حوالہ ”جنگجوؤں“ کے طور پر نہ دیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں طانوی ادارے ”ریپرائیو“ نے اپنی پاکستانی پارٹنر تنظیم فاؤنڈیشن فار فنڈامینٹل رائٹس (ایف ایف آر) کے ساتھ مل کر اس آزاد رپورٹ کی تیاری میں مدد فراہم کی ہے، جس میں کئی لوگوں کے انٹرویوز کرائے گئے۔ برطانوی تنظیم برطانیہ میں اس حوالے سے ایک مقدمہ بھی لڑ رہی ہے کہ یہ معلوم کرایا جا سکے کہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے حکومت کا سی آئی اے کے ڈرون پروگرام میں کیا کردار ہے ۔ ڈرون حملوں کے متاثرین کی جانب سے اسی طرح کا ایک مقدمہ ایف ایف آر نے پشاور ہائی کورٹ میں بھی دائر کر رکھا ہے۔ ریپرائیو کے ڈائریکٹر کلائیو اسٹافورڈ کا کہنا ہے کہ ”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کا نقصان عام لوگوں کی ہلاکتوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پورے خطے کو آسمان سے اترنے والی موت کے خوف میں مسلسل مبتلا رکھا جا رہا ہے،طرز زندگی تباہ ہوتا جا رہا ہے، بچے اسکول جانے سے ڈرتے ہیں، بڑے افراد شادیوں، جنازوں، تجارتی اجلاسوں اور گروپ میٹنگز میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس خوف کا خاتمہ نظر نہیں آتا، لوگ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے، جارج ڈبلیو بش چاہتے تھے کہ ان کی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کی کوئی سرحد نہ ہو لیکن لگتا ہے کہ ان کے اس خواب کی تعبیر اوباما کے ذریعے ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ایف ایف آر کے ڈائریکٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ امریکا کی اس رپورٹ سے وہ بات ثابت ہوگئی ہے جو ہم برسوں سے کہہ رہے ہیں؛ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں، وزیرستان میں عوام کو خوفزدہ کر رہے ہیں اور انہیں انتہاء پسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں، جب امریکا ہمارے بچوں، عورتوں اور جوانوں کو مار رہا ہوتا ہے اس وقت دنیا ہم سے امریکا سے محبت کرنے کی توقع نہیں کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ انصاف کے طلب گاروں کیلئے مددگار ثابت ہوگی۔
 
Top