ٹیکا اور ناچتی حوریں؟ نشہ چاہے کوکین کا ہو ٹیکے کا یا اقتدار کا سب برا ہے

زیرک

محفلین
ٹیکا اور ناچتی حوریں؟ نشہ چاہے کوکین کا ہو ٹیکے کا یا اقتدار کا سب برا ہے
پاکستانیوں نے بھی کیا عجیب قسمت پائی ہے کہ ان پر ایک کے بعد ایک نمونہ بطور حکمران مسلط کر دیا جاتا ہے؟ حکمران بھی وہ کہ جن کو آتا جاتا کچھ نہیں۔ آج کل ایوانِ اقتدار میں مزے کرنے والے حکمران بابا جی لگتا ہے کہ سکون کے لیے ٹیکے لگواتے ہیں اور ٹیکے کے نشے میں حوروں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ ایسے حکمران ہوں تو قوم کو مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، جہالت اور بیماریوں کے ٹیکے لگتے رہیں گے۔ شام گھر واپسی پر پر جب محلے کے بابا بلو نے رو کر بتایا کہ "پتر دیکھ لے، مجھ چھابڑی والے کو بھی لائسنس بنوانے کا کہا گیا ہے اور ماہوار فیس بھی لگا دی گئی ہے، پہلے پلس والوں کا غنڈہ ٹیکس کیا کم تھا کہ یہ ظلم بھی کر دیا؟"۔ اب اللہ جانے یہ خبر درست ہے یا نہیں؟ لیکن اگر یہ بات درست ہے تو مجھے شرم آ رہی ہے اور غصہ بھی کہ جن کے پاس طاقت ہے، ادارے ہیں مگر وہ ٹیکس دہندہ جن پہ ٹیکس دینا بنتا ہے، نااہل ان سے ٹیکس تک نہیں لے سکتے، اس پر اس طرح نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریب کا پیٹ کاٹنے لگیں گے تو یہ نظام کیسے چلے گا؟۔ میں بابے بلو کو جانتا ہوں، بمشکل چار پانچ سو کی دیہاڑی لگا سکنے والا بندہ ہے، غریب کو پولیس بھی لوٹتی ہے، کیا کوئی حکومتی کارندہ مجھے یہ بتانا پسند کرے گا کہ 500 روپے دیہاڑی کمانے کی سکت رکھنے والا ٹیکس دہندہ بنتا ہے؟ کمانے کی سکت کے لفظ کو یاد رکھیں، کبھی سبزی نہ ہو، بارش ہو، ہڑتال ہو، عید ہو، یا کوئی اور چھٹی تو کام نہیں ہوتا بے چارے کو چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ گھر والے چھپ چھپا کر اس کے مدد کرتے رہتے ہیں، میں بھی کئی بار شام یا رات گئے ان سے بچی کھچی سبزی لے کر گھر لے جاتا ہوں یا آس پاس بانٹ دیتا ہوں تاکہ ان کا نقصان نہ ہو، مدد کرنے کا ایسا طریقہ اپنایا کہ جس سے کا کام بھی چل جائے اور ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔ میں گلہ نہیں کر رہا کہ چھابڑی پہ لائسنس فیس کیوں لگائی؟ مجھے معلوم ہے حکومت مشکل حالات میں ہے، لیکن چھابڑی کی ماہانہ فیس چہ معنی دارد؟ ہوش کے ناخن لیں ارے یار اسے ہٹا نہیں سکتے تو کم از کم اسے سالانہ فیس کر دیں۔ کیا ایک دیہاڑی دار ہر ماہ کے ایک دو دن صرف لائسنس بنوانے میں ضائع کرے؟ اپنے بچوں کے لیے کچھ کمائے نہیں؟ یہ کام ماہانہ کی بجائے سالانہ ہونا چاہیے اور فیس بھی مناسب ہو تاکہ غریب بھی جی سکیں جن کی ماہانہ کمائی بمشکل 10000 اور 15000 کے درمیان ہے۔ 15000 ماہوار تک کمانے والا تو ویسے بھی ٹیکس کے نیٹ میں نہیں آتا لیکن اس پر اگر یہ نیا غنڈہ ٹیکس لگائیں گے تو وہ تو چوریاں ہی کرے گا ناں؟ ایک طرف ملک کا صدر ہے جو بمشکل سال کے 30 دن کوئی مشکل کام کرتا ہو گا، مگر قوم کے خرچے پر رہتا ہے، کئی ایکڑ کے محلات میں مفت بجلی پانی گیس فون الغرض جس سہولت کا نام لیں وہ ان کو میسر ہے۔ ایک طرف ایک غریب ہے جو بمشکل روٹی کما سکتا ہے اور ایک طرف 8 لاکھ تنخواہ اور کئی لاکھ کی مراعات سے لطف اندوز ہونے والی نالائق، سفارشی اور غریب کش اشرافیہ نامی مخلوق، کس کس کو روئیں؟ ایک طرف مراعات یافتہ سیاسی فنکار جو کرتے کراتے کچھ نہیں سوائے غریب کا گلا کاٹنے کے اور ان کو ایسے ٹیکے بھی لگتے ہیں جن کے اثرات میں وہ حوریں بھی دیکھتے ہیں۔ یہ جو ٹیکے ہیں ناں میری جان وہ نشے کے ٹیکے ہیں، نشہ چاہے کوکین کا ہو ٹیکے کا یا اقتدار کا ایک برابر ہے اور برا ہے۔ لیکن افسوس، مجھے اس دن کا انتظار ہے جب کوئی ان سے بڑا زورآور ان غریب کش ٹیکے لگانے والے حکمرانوں کو غیرت و عقل کا ٹیکا لگائے گا کہ جس کے اثرات سے انہیں عوام کے درد کا احساس ہو۔
 
Top