ویہلیاں کھاؤ! وسعت اللہ خان

زین

لائبریرین
وسعت اللہ خان

پنجابی کا ایک لفظ ہے ویہلا۔اردو میں ویہلے کے لیے اگرچہ فارغ، فرصت والا، ایسا شخص جس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو جیسے متبادلات ہیں۔لیکن یہ تمام متبادلات ویہلے کی طرح یک لفظی نہیں ہیں اور ویہلے میں پنہاں شانِ بے نیازی کو تصویر کرنے میں بھی ناکام ہیں۔

اس کے باوجود مجھے چہار سو ایک ویہلگی نظر آرہی ہے۔ جو جتنا ویہلا ہے اتنا ہی مصروف دکھائی دے رہا ہے۔ مثلاً کچھ ٹی وی اینکرز اگرچہ روز گفتگو کی چھابڑی لگا کر ٹاک شوز کی فٹ پاتھ پر سرِ شام بیٹھ جاتے ہیں لیکن ان کے پاس بیچنے کو نیا کچھ نہیں۔ چنانچہ وہ ویہلا پن دور کرنے کے لیے منہ میں بھرے پٹرول کی پھوار کو لکڑی پر لپٹی ہوئی روئی پر پھونک کر منہ سے شعلے نکالنے کا گھنٹہ بھر مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر اگلی شام کے انتظار میں خالی چھابڑی سر پر رکھ کر روانہ ہوجاتے ہیں۔

ناک کی سیدھ میں دیکھنے والے ان ویہلوں کو گفتگو کے لیے نہ تو ہیٹی کا زلزلہ ہلا سکتا ہے نہ ہی دریاؤں میں روز بروز پانی کی قلت کا موضوع دکھائی دیتا ہے۔ نہ ہی وہ شہروں سے پرے بسنے والی پچھہتر فیصد آبادی کے روزمرہ مسائل کو قابلِ فروخت برائے سکرین سمجھتے ہیں۔اور نہ ہی انہیں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں براجمان سیاسی و مذہبی گائیکی کے چند گھرانوں سے ہٹ کر کوئی چیخ ، صدا یا الاپ سنائی دیتا ہے یا سمجھ میں آتا ہے۔


اس ویہلے پن میں اس وقت مزید چار چاند لگ جاتے ہیں جب کاکروچ کی جسمانی ساخت سے لے کر آصف زرداری کی کرپشن تک ہر موضوع پر یکساں اعتماد سے بولنے والے بارہ سے پندرہ افلاطونی ویہلے صبح سے ٹیکسی پکڑ کر نکلتے ہیں۔ ایک چینل پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دانش کاری کرتے ہوئے اگلے چینل کے سیٹ پر پہنچ جاتے ہیں اور رات گئے سات آٹھ شوٹنگز بھگتا کر داد و تحسین کے ایس ایم ایس دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں۔

مگر میڈیا سے بھی زیادہ ویہلے حکومت بازی کی علت میں مبتلا لوگ نظر آتے ہیں۔اور انکے ویہلے پن کا بنیادی سبب غالباً وہ سائیکلو سٹائیل مشینیں ہیں جو انکے اردگرد انسانی شکلوں میں موجود ہیں۔یہ مشینیں ہر ملک کے قومی دن پر خودکار طریقے سے تہنیتی پیغامات، کسی بھی حادثے پر اظہارِ افسوس کے آٹومیٹک بیانات، ہر ڈرون حملے اور بم دھماکے پر مذمتی بیانات، قومی یکجہتی و اتحاد اور حب الوطنی کے فوائد پر باسٹھ برس سے ری سائیکل ہونے والے واعظ صدر، وزیرِ اعظم اور وزرا کے نام بدل بدل کر چھاپتی رہتی ہیں۔

واحد تبدیلی یہ آئی ہے کہ پچھلے دو ڈھائی برس سے ان سائیکلو سٹائیل مشینوں میں حادثے یا دہشتگردی میں مرنے والے ہر شہری کے لیے تین لاکھ اور زخمی کے لیے ایک لاکھ روپے کے خودکار اعلانات فیڈ کر دیے گئے ہیں۔

یوں عام آدمی کو اس مغالطے میں رکھا جاتا ہے کہ حکومت ویہلی نہیں بیٹھی ہے۔لیکن یہ عام آدمی میڈیا اور حکومت سے بھی زیادہ ویہلیاں کھا رہا ہے۔کرنے کو کام نہیں، سوچنے کے لیے سمت نہیں، سر رکھنے کے لیے کندھا میسر نہیں۔گالیاں دینے کے لیے محض آسمان دکھائی دیتا ہے اور مکے چلانے کے لیے صرف خلا ہے۔

ویہلے پن کی ہے انتہا کوئی ؟؟


بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
 
Top