سید عاطف علی
لائبریرین
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل ۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا
شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ
اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا
وہ بلاتے نہیں کبھی مجھ کو
پاس جب آئینہ نہیں ہوتا
ہاتھ سونا نگاہ چاندی کی
پاس امیروں کے کیا نہیں ہوتا
وہ صدائے طلب سے ڈرتے ہیں
اِک دریچہ بھی وا نہیں ہوتا
ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ
کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا
جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا
شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ
اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا
وہ بلاتے نہیں کبھی مجھ کو
پاس جب آئینہ نہیں ہوتا
ہاتھ سونا نگاہ چاندی کی
پاس امیروں کے کیا نہیں ہوتا
وہ صدائے طلب سے ڈرتے ہیں
اِک دریچہ بھی وا نہیں ہوتا
ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ
کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا