تاسف نوری نستعلیق کے خالق احمد مرزا جمیل انتقال کر گئے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف نظامی

لائبریرین

(21 فروری 1921 تا 17 فروری 2014ء)
جنہوں نے ’’نوری نستعلیق‘‘ کی تخلیق سے اُردو کمپیوٹرائزیشن میں ناممکن کو ممکن بنادیا
آج مجھے اپنے آپ سے شرم آرہی ہے۔ محترم جناب احمد مرزا جمیل صاحب کا انتقال گزشتہ ماہ (17 فروری 2014ء کے روز) ہوا، اور اس کی اطلاع مجھے آج بذریعہ ای میل موصول ہوئی۔ نہ کسی اخبار میں کوئی خبر دیکھی، اور نہ ہی کسی ویب سائٹ پر مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ٹی وی چینلوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے کیونکہ انہیں صرف ’’ٹی آر پی‘‘ اور کسی بھی قیمت پر ’’اشتہارات‘‘ سے غرض ہے۔ آج اپنی ہی ایک بات بڑی شدت سے یاد آرہی ہے: انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اطلاعات کی ترسیل تو ضرور برق رفتار بنادی ہے، لیکن اس سے ہماری بے خبری پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے:

خبرِ تحیّرِ عشق سُن ، نہ جُنوں رہا نہ پری رہی
نہ وہ میں رہا نہ وہ تُو رہا ،جو رہی سو بے خبری رہی

محترم جناب احمد مرزا جمیل کا شمار بلاشبہ اُردو زبان کے اُن محسنوں میں ہوتا ہے جنہوں نے فرد کی حیثیت سے وہ کام کردکھائے کہ جنہیں کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا، بڑے بڑے اداروں کیلئے بھی کارِ دارِد کی مانند ہوتا ہے۔ اُردو زبان کے سب سے خوبصورت نستعلیق کمپیوٹرائزڈ فونٹ ’’نوری نستعلیق‘‘ کی تخلیق، احمد مرزا جمیل صاحب کا ذاتی کارنامہ تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اُردو زبان پر اُن کا اتنا بڑا احسان ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہئے۔

آج اگر ہم اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس وغیرہ پر نہایت صاف ستھرے اور پُرکشش نستعلیق رسم الخط میں، کمپیوٹر کے ذریعے لکھی گئی اُردو پڑھ رہے ہیں، تو یہ جناب احمد مرزا جمیل کے اسی احسان کا فیضان ہے۔

درج ذیل مضمون ماہنامہ گلوبل سائنس کے ’’پاکستانی سائنسی شخصیات نمبر‘‘ (اپریل 2009ء) میں شائع ہوا تھا؛ جسے میں اپنی کوتاہی کے حقیر ترین کفارے کی حیثیت سے یہاں شائع کررہا ہوں۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ جب بھی وہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو نستعلیق پڑھیں، تو ہر مرتبہ جناب احمد مرزا جمیل کیلئے دعائے مغفرت ضرور کریں۔ (علیم احمد)

جناب احمدمرزا جمیل کی ایجاد ’’نوری نستعلیق‘‘ اردو زبان اور صحافت کیلئے ایک عظیم کارنامہ ہے؛ کیونکہ اِس ایجاد نے اردو کی ترقی میں پَر لگادیئے ہیں۔ اردو رسم الخط کے بارے میں عام تاثر تھا کہ یہ جدید برقیاتی دور کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ لیکن نوری نستعلیق کی ایجاد نے اردو کی اِس خامی کو دور کردیا۔

آج ہم جو بے شمار اردو اخبارات، جرائد و رسائل اور کتابیں بازار میں دیکھتے ہیں، یہ اِسی ایجاد کی وجہ سے ممکن ہوئیں جس سے اِس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دراصل اِس ایجاد نے ہی اردو کی کمپیوٹری کتابت کا آغازکیا۔ نوری نستعلیق کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ الفاظ سمٹ جاتے ہیں، لیکن اِس کے باوجود الفاظ صاف اور واضح رہتے ہیں؛ یعنی پڑھنے والے کو گنجلک محسوس نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں کاغذ کی بچت بھی ہوتی ہے اور وقت انتہائی کم صرف ہوتا ہے۔ اِس طرح رقم کی بھی بچت ہوتی ہے․․․ جس نے اردو صحافت میں انقلاب برپا کردیا۔ نوری نستعلیق کی کہانی دراصل احمدمرزا جمیل کی کہانی ہے، اِس لئے احمد مرزا جمیل کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ جاننا ضروری ہے۔

احمدمرزا جمیل 21 فروری 1921ء کے روز دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف ہائی اسکول بمبئی سے حاصل کی اور جے جے اسکول آف آرٹس سے ڈپلوما کیا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیمی ایوارڈ کے علاوہ بہت سے تعلیمی ایوارڈ حاصل کئے جن میں ’’آل انڈیا آرٹ انڈسٹری‘‘ کا پہلا انعام بھی شامل ہے۔ کلکتہ میں پی سی بروا (فلم ڈائرکٹر) کے ساتھ مووی فلمز میں آرٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا جس کے بعد انہوں نے فلم پبلسٹی کا ادارہ ’’مووی آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا۔

1950ء میں پاکستان آئے اور ایک سال نیشنل ایڈورٹائزرز کراچی میں آرٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ احمد مرزا جمیل بہت اچھے خطاط اور آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے اردو کے ہر حرف کو بہت خوشخط انداز میں لکھ کر کمپیوٹر کی یادداشت میں محفوظ کرنے کے قابل بنایا؛ اور 1980ء میں برطانوی کمپنی ’’الیکٹرونک ٹائپ سیٹنگ‘‘ کو اردو ٹائپ کاری کے تجربے کیلئے آمادہ کیا؛ جس کے بعد سے آج تک اردو کی ٹائپ کاری یعنی بذریعہ کمپیوٹر تحریر جاری ہے۔

احمدمرزا جمیل روٹری انٹرنیشنل کے رُکن اور ڈسٹرکٹ گورنر؛ پاکستان ایسوسی ایشن آف پرنٹنگ اینڈ گرافک آرٹس انڈسٹری کے چیئرمین؛ اور بہت سے تجارتی اور فلاحی اداروں کے رُکن اور عہدے دار کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

احمدمرزا جمیل کے والد اور تایا اعلیٰ خطاط تھے جو اعلیٰ قسم کے طغرے تیار کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی مالی منفعت کا خیال دل میں نہ آنے دیا، جبکہ انہی کے تیار کردہ طغروں سے بہت لوگوں نے لاکھوں روپے کمالئے تھے۔ ایک دن احمد مرزا جمیل کو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے والد اور تایا کے طغروں کو شائع کیا جائے۔ اِس مقصد کیلئے انہوں نے ایک پبلشنگ کمپنی قائم کرنے کا ارادہ کیا۔

احمد مرزا جمیل اُس وقت ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے یہاں سے استعفیٰ دیا اور پبلشنگ کا کاروبار شروع کردیا جس کے بعد بہت لوگ اِن کے پاس اپنا کام لے کر آگئے اور کئی لوگوں نے انہیں روشنائی اور کاغذ تک کی رقم پیشگی جمع کروادی، جس سے ان کے پاس بے حساب کام جمع ہوگیا۔ اِس طرح 1951ء میں کراچی میں ’’ایلیٹ پبلشرز لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کی ابتداء قائد اعظم کا ایک یادگاری پنسل اسکیچ، فوٹو آفسٹ سے چھاپ کر کی گئی۔

خط نستعلیق کو کمپیوٹری کتابت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے 1973ء سے کوششیں ناکام ثابت ہورہی تھیں، جس کی وجہ سے اردو کے بارے یہ تاثر عام ہونے لگا تھا کہ اردو، جدید دور کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ احمد مرزا جمیل اردو زبان کو کمپیوٹر میں کمپوز کرنے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اِس منصوبے پر کام کرنے کیلئے جدید فنی مشاورت یا تجربات کی سہولت موجود نہ تھی۔

انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اِس منصوبے کو اُن لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو فوٹوٹائپ سیٹنگ یا الیکٹرونک ٹائپ سیٹنگ کا کام کررہے ہیں، تاکہ اِس منصوبے کے بارے میں رائے معلوم کی جاسکے۔ انہوں نے اِس سلسلے میں اِس شعبے سے وابستہ کئی اداروں کو خطوط لکھے تاکہ اِن اداروں سے تعاون حاصل کیا جاسکے۔ لیکن بہت سے اداروں نے جواب دینے کی بھی زحمت گوارہ نہ کی جبکہ چند نے کہا کہ پاکستان اِس تحقیق و ترقی کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

1979ء میں احمد مرزا جمیل کو سنگاپور کی ایک نمائش میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے انگریزی ٹائپ فیس کی مشینیں دیکھیں۔ یہ فوٹو ٹائپ سیٹنگ کے بجائے ڈیجیٹل، یعنی کمپیوٹرائزڈ مشینیں تھیں۔ یہاں موجود ایک سیلزمینیجر سے، جو اِن کے واقف کار تھے، احمد مرزا جمیل صاحب نے کمپیوٹری کتابت کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اِس منصوبے پر پہلے ہی سے کچھ تجربات کرچکے ہیں اور انہوں نے مقتدرہ قومی زبان کو ایک نمونہ پیش بھی کیا تھا۔ لیکن مقتدرہ نے اسے پسند نہیں کیا۔

دراصل یہ ایک ایسی زبان ہے جو جسے کمپیوٹر پر لانا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اِس پر احمد مرزا جمیل نے ان سے کہا کہ میرے پاس کچھ تجاویز ہیں۔ آپ کراچی آئیں تو مجھ سے ضرور ملاقات کیجئے گا۔ جب مینیجر صاحب، احمد مرزا جمیل سے ملنے کراچی آئے تو انہوں نے مینیجرصاحب سے پوچھا کہ اگر انہیں اردو کے تمام الفاظ ٹکڑوں یا جوڑوں کے بغیر، پورے کتابت شدہ مل جائیں تو یہ مسئلہ حل ہوگا یا نہیں؟ منیجر صاحب نے کہا کہ اگرچہ یہ ناممکن ہے لیکن اگر ایسا ہوجائے تو پھر اردو کمپوزنگ کا حل نکل سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے سیلز ڈائریکٹر کے سامنے یہ تجویز رکھی۔

لیکن یہاں کی ٹیکنیکل کمیٹی نے یہ شرط عائد کی کہ اگر تجربہ ناکام ہوا تو اِس کے تمام اخراجات احمد مرزا جمیل کو ادا کرنے ہوں گے۔ احمد مرزا جمیل نے ہامی بھرلی اور برطانوی ادارے ’’مونوٹائپ کارپوریشن‘‘ کو یہ ضمانت دی کہ تجربہ ناکام ہونے کی صورت میں تمام نقصان احمد مرزا جمیل کی کمپنی ایلیٹ پبلشرز خود برداشت کرے گی۔

جدید کمپیوٹری طریقۂ کتابت میں ’’الفاظ‘‘ نہیں بلکہ الفاظ کے ٹکڑے یعنی ’’ترسیمے‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کی تیاری ہی دراصل سب سے مشکل کام تھا۔ احمد مرزا جمیل اپنے منصوبے کے بارے میں میر خلیل الرحمن مرحوم سے بھی ذکر کرچکے تھے، جو احمد مرزا جمیل کے کام سے بہت متاثر تھے۔ انہیں اِس منصوبے کی کامیابی کی بہت فکر تھی کیونکہ وہ جنگ اخبار کو اِس نئے اور جدید طریقے سے شائع کرانا چاہتے تھے۔

برطانوی کمپنی کی ٹیکنیکل کمیٹی کو اِس منصوبے کی کمپیوٹر پروگرامنگ اور کمپیوٹر میموری میں محفوظ کرنے اور مختلف سائز میں ڈجیٹائزیشن کے کام میں پانچ سال کا عرصہ درکار تھا، لیکن احمد مرزا جمیل جانتے تھے کہ میر صاحب اتنا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے ٹیکنیکل کمیٹی سے پوچھا کہ ترسیموں کے کام کو چھوڑ کر کمپیوٹر پروگرامنگ میں کتنا وقت لگے گا؟ کمیٹی نے انہیں ڈیڑھ سال کا عرصہ بتایا۔ لیکن کمیٹی کے ایک رُکن نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل کام ہے لہٰذا تین شفٹوں میں کیا جائے تو چھ مہینے میں بھی مکمل ہوسکتا ہے۔ احمد مرزا جمیل نے بھی ہامی بھرلی کہ وہ بھی ترسیموں کا کام کمیٹی کو چھ مہینے کے اندر اندر مکمل کرکے دے دیں گے۔

احمد مرزا جمیل کے ذہن میں تھا کہ وہ کراچی جاکر بیس اچھے کاتبوں سے ترسیموں کے کام کو جلد از جلد ختم کرالیں گے۔ لیکن جب وہ کراچی آئے تو سب سے پہلا یہ مسئلہ سامنے آیا کہ کیا کوئی کاتب صرف چھ مہینے کیلئے اپناکام چھوڑ کر آسکتا ہے؟ اِس کے علاوہ ہر کاتب کو اِس کام کی نوعیت سمجھانا آسان نہیں تھا۔ تاہم جب ایک کاتب کو اِس کام کی نوعیت کے بارے میں بتایا کہ 0.75 انچ کے قلم سے دس مربع اِنچ سائز میں ترسیمات لکھنی ہیں، تو کاتب نے ایک دن میں زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس ترسیموں کی اوسط بتائی، جبکہ احمد مرزا جمیل کا خیال تھا کہ اگر ایک خوشنویس نے بیس سے پچیس ترسیمے روز لکھے تو ڈھائی تین سو روزانہ کے حساب سے چھ مہینے میں سارا کام مکمل ہوجائے گا۔

اَب احمد مرزا جمیل کاتب کی بات سن کر بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ انگریز صحیح کہتا تھا، یہ کام پانچ سال سے پہلے مکمل نہیں ہوسکتا۔ جب احمد مرزا جمیل نے اپنے ساتھی مطلوب الحسن سید سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ’’جمیل یہ کام تو تمہیں خود کرنا پڑے گا ورنہ اردو کو کمپیوٹر میں لانے کی جوخوشی ہورہی ہے اِسے بھول جاؤ۔‘‘

احمد مرزا جمیل ایک اچھے آرٹسٹ تھے، چنانچہ انہوں نے گرافک آرٹ کی وہ ساری تکنیکیں جو انہیں آتی تھیں، اپنے اس کام میں استعمال کیں اور دن رات کام کیا۔

اَب مسئلہ الفاظ کے انتخاب کا تھا؛ جو بہت مشکل کام تھا۔ اسے مطلوب الحسن سید نے اپنے ذمے لیا۔ دراصل حروف کے ٹکڑوں میں کسی زبان کا احاطہ کرنا ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ جب نستعلیق میں حروف کو جوڑا جاتا ہے تو اِن کی شکلیں بدلتی جاتی ہیں اور ان میں موٹے اور باریک جوڑ کا رواج ہے۔ نستعلیق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس سے جگہ کی بچت ہوتی ہے کیونکہ حروف کو جوڑنے سے ان کی کئی منزلیں بن جاتی ہیں اور اِن منزلوں سے جگہ کی بچت ہوتی ہے۔ لیکن اِن منزلوں کے نتیجے میں کسی لفظ کا کوئی ایک ٹکڑا ایسا نہیں ملتا جو ہر جگہ صحیح بیٹھ جائے۔ اِسی لئے انہیں اردو کے جوڑوں نے سخت پریشان کئے رکھا۔

بالآخر انہوں نے جوڑوں کے بجائے پورے پورے الفاظ تیار کئے۔ اِس سے یہ مشکل مرحلہ بھی طے ہوگیا اور رفتار میں اضافہ ہوگیا۔ اِس طرح جناب احمد مرزا جمیل نے چھ مہینے میں تقریباً سولہ ہزار ترسیمے تیار کئے جن سے تقریباً ڈھائی لاکھ الفاظ بن سکتے ہیں۔ انگریز چونکہ ابجد نہیں جانتے تھے اِس لئے احمد مرزا جمیل نے ہر حرف پر نمبرلگائے تاکہ مشین ابجد کے حساب سے انہی الفاظ کو تلاش کرے۔ جب سارے ٹیکنیکل مراحل طے ہوگئے، اور جیسے ہی نمونہ تیار ہوا تو احمد مرزا جمیل اور مطلوب الحسن سید کیلئے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

احمد مرزا جمیل اور مطلوب الحسن سید مقتدرہ قومی زبان کے صدر جناب پروفیسرڈاکٹراشتیاق حسین قریشی مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ نمونے پیش کئے۔ ڈاکٹرصاحب یہ نمونے دیکھ کر بہت خوش ہوئے انہوں نے کہا کہ اِس سے بڑی خبر تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی مرحوم نے جب صدر پاکستان جنرل محمدضیاء الحق مرحوم کو نستعلیق کے نمونے دکھائے تو صدر پاکستان نے کہا: ’’ احمدمرزا جمیل اور مطلوب الحسن سید نے تاریخ میں اپنا نام محفوظ کرلیا ہے اور اردو کیلئے اِس سے بڑا کوئی اور کارنامہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ صدر پاکستان نے انہیں اِس کام پر احمد مرزا جمیل کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا۔

اردو اِس ایجاد سے میکانکی دور سے الیکٹرونک دور میں داخل ہوئی، جس نے نہ صرف اردو صحافت میں انقلاب برپا کردیا بلکہ اردو کتابوں کی اشاعت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بقول حسنین کاظمی صاحب ’’یہ پہلا موقع ہے کہ مغرب کی کسی ایجاد کو پاکستان کی اجتماعی زندگی کی ایک انتہائی اہم ضرورت کی تکمیل کے پیش نظر پاکستانی ذہن کی تخلیق کردہ مہارت کیلئے استعمال کیا گیا۔ یعنی تکنیکی مہارت نے مشرق سے مغرب کی جانب سفر کیا۔‘‘

نستعلیق ٹائپ کی تیاری کیلئے جو کوششیں کی گئی تھیں، انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ کمپیوٹر پر نستعلیق ممکن ہی نہیں۔ مگر بعض اہلِ نظر اِس کوشش میں لگے رہے۔ انہی لوگوں میں جناب احمد مرزا جمیل تھے جنہوں نے جناب مطلوب الحسن سید کے تعاون سے نوری نستعلیق کی شکل میں اردو کو کمپیوٹر پر منتقل کیا۔ اور اس طرح 1981ء میں روزنامہ جنگ نے لاہور سے پہلی بار کمپیوٹرائزڈ اُردو کتابت کے ساتھ اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ احمد مرزا جمیل نے اس خط کا نام اپنے والد، مرزا انوار احمد کے نام پر ’’نوری نستعلیق‘‘ رکھا، جو آج تک مستعمل چلا آرہا ہے۔ مرزا انوار احمد اپنے وقت کے نمایاں طابع تھے اور اچھے خطاطوں میں شمار کئے جاتے تھے۔

روایت پرستوں نے بہت مذاق اُڑایا اور دعویٰ کیا کہ یہ تجربہ جلد ہی ناکام ہوجائے گا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اُردو کمپیوٹرائزڈ کمپوزنگ نے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں رواج حاصل کرلیا۔ آج بھی، جبکہ نوری نستعلیق کی ایجاد کو چونتیس سال ہوچکے ہیں، یہ اُردو زبان کی کمپیوٹرائزڈ کتابت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا خط ہے۔

ہمیں اعتراف ہے کہ جناب احمد مرزا جمیل کا تعلق، سائنس کے میدان سے نہیں۔ لیکن اُردو زبان کو کمپیوٹر سے روشناس کرانے اور اس کی فنیاتی ترقی کو چار چاند لگانے میں جناب احمد مرزا جمیل کی انتھک محنت ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ گلوبل سائنس کے ’’پاکستانی سائنسی شخصیات نمبر‘‘ میں ان کے بارے میں اس مختصر تحریر کی شمولیت کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ان کے کام کی اہمیت کو درست تناظر میں دیکھیں اور کسی کام کو ناممکن کہہ کر نظرانداز کرنے کے بجائے اپنی پوری کوششوں کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہوجائیں۔

احمد مرزا جمیل اور نوری نستعلیق کی مثال ہمیں یہی سکھاتی ہے؛ بشرطیکہ ہم سیکھنا چاہیں۔

بحوالہ گلوبل سائنس
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک مرحوم کی بخشش فرمائیں۔
اردو زبان پر انکا احسان عظیم رہتی دنیاتک یاد رکھا جائے گا۔
 

اوشو

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ کریم مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین
یقنا ان کی کاوشو ں سے تاقیامت اردو دان استفادہ کریں گے۔ ان کے احسان کا بدلہ چکانا ناممکن ہے۔
میں محفل کے توسط سے ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ "یومِ جمیل" کے نام سے سال کا ایک دن ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ ان کی کاوشوں کو سراہا جائے اور خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔
اردو محفل اس بارے میں پہل کرے تو یقینا اور بہت سے لوگ بھی اس کی تقلید کریں گے۔ اور مرزا جمیل احمد کو خراج عقیدت پیش کرنا ایک احسن اقدام ہو گا۔
انتظامیہ متوجہ ہو
 
جناب مرزا احمد جمیل صاحب سے یادیں وابستہ ہیں۔۔ ابھی ابھی مرحوم کے صاحبزادے مرزا طارق جمیل نے مجھے بتایا کہ ان کے والد محترم اس دنیا میں نہیں رہے۔ جناب سے آخری ملاقات مئی 2012 میں ہوئی تھی۔ انشاء اللہ اس ملاقات کی تصاویر پوسٹ کروں گا۔ والسلام
 
انا للہ و انا الیہ راجعون

ابھی کچھ ماہ قبل غالبا اردو ایکسپریس میں مرحوم کا طویل انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top