نظم: شعلۂ غم ٭ نعیم صدیقیؒ

شعلۂ غم
٭
اک داغِ نہاں چمک رہا ہے
اک زخمِ جگر مہک رہا ہے

اک جامِ الم چھلک رہا ہے
اک شعلۂ غم بھڑک رہا ہے

ہر موجِ ہوا کی سانس رکتی
ہر ذرے کا دل دھڑک رہا ہے

اک قافلۂ بہارِ فردا
صحرا میں کہیں بھٹک رہا ہے

میرے قلمِ ہنر کے دل میں
نشتر سا کوئی کھٹک رہا ہے

پھر آنکھ کا بھر گیا کٹورا
پھر بادہ چھلک چھلک رہا ہے

میں جس طرف بھی رواں دواں ہوں
پیروں سے لہو ٹپک رہا ہے

چھیڑا تھا جو نغمہ وہ گلے میں
کیا جانیے کیوں اٹک رہا ہے

پھولوں کی جہاں پہ بستیاں تھیں
کوندا سا اُدھر لپک رہا ہے

جس شاخ پہ اپنا آشیاں تھا
اب شعلہ وہاں بھڑک رہا ہے

ٹھوکر سے جو سر کے بل گرا میں
خوش ہو کے عدو تھرک رہا ہے

انبوه وه امن دشمنوں کا
مستی میں بہک بہک رہا ہے

اس راکھ میں اب بھی میرا ایماں
اخگر کی طرح دہک رہا ہے

اس خاکِ خراب میں بھی مقصد
موتی کی طرح دمک رہا ہے

تغییر کا منتظر مسلماں
امید کی راہ تک رہا ہے

اس پردۂ شب کے پیچھے دیکھو
پھر روئے سحر جھلک رہا ہے

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ

 
Top