نظم۔ کوّا از اسمٰعیل میرٹھی

فرحت کیانی

لائبریرین
کوّا

کوے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی ، پر بھی کالے
کالی کالی وردی سب کی
اچھی خاصی ان کے ڈھب کی
کالی سینا کے ہیں سپاہی
ایک سی صورت ایک سیاہی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں لگتی ہے چُھری سی
یوں تو ہے کوا حرص کا بندہ
کچھ بھی نہ چھوڑے پاک اور گندہ
اچھی ہے پر اُس کی عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے
کھانے دانے پر ہے گرتا
پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا
دیکھ لو! وہ دیوار پہ بیٹھا
غلے کی ہے مار پہ بیٹھا
کیوں کر باندھوں اُس پہ نشانہ
بے صبرا ، چوکنا ، سیانا
کائیں کائیں پنکھ پسارے
کرتا ہے یہ بھوک کے مارے
تاک رہا ہے کونا کھترا
کُچھ دیکھا تو نیچے اُترا
اُس کو بس آتا ہے اُچھلنا
جانے کیا دو پاؤں سے چلنا
اُچھلا ، کُودا ، لپکا، سُکڑا
ہاتھ میں تھا بچے کے ٹکڑا
آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پُھرتی کاگا!
ہا ہا کرتے رہ گئے گھر کے
یہ جا وہ جا چونچ میں بھر کے

از اسمٰعیل میرٹھی
 
Top