نظم۔ بارہ سنگا۔ سلیم فاروقی

فرحت کیانی

لائبریرین
بارہ سنگا
کلام: سلیم فاروقی

ندی پر اک بارہ سنگا
پانی پینے کو جب پہنچا
پانی میں سینگوں کو دیکھا
دیکھ کے ان کو دل میں سوچا
کتنے پیارے سینگ ہیں میرے
کاش کہ ہوتے پیر بھی ایسے
سینگ ہیں میرے جتنے اچھے
پیر ہیں کچھ اتنے ہی بھدے
سوچ رہا تھا سر کو جھکائے
چند شکاری اس دم آئے
دیکھ کے ان کو بارہ سنگا
تیز ہوا کی صورت بھاگا
اس کی اس بھاگا بھاگی میں
اُلجھے سیکنگ گھنی جھاڑی میں
اب تو بے چارہ گھبرایا!
پورا اپنا زور لگایا
پھر بھی اس کے سینگ نہ نکلے
خوف سے چھوٹا سا دل دھڑکے
آ پہنچے اتنے میں شکاری!
پاؤں میں اس کے رسی باندھی
سوچ رہا تھا بارہ سنگا
جن سینگوں پر ناز تھا اتنا
بن گئے آخر کو وہ مصیبت
مجھ پہ انہی سے آئی آفت
بات گرہ میں باندھ لو بچو
اک اک چیز کو اچھا سمجھو
قدرت نے جو چیز بنائی
اس میں نکالو تم نہ برائی
 
Top